جھوٹ بولنا، نفرت کرنا، حسد کرنا، احساس کرنا، محبت کرنا، انسانی جبلت کا تقاضا ہے۔ اسی طرح سچ بولنا بھی جبلت ہی ہے۔ اس لئے فطری تقاضے غیر ارادی طور پر بھی پورے ہو جایا کرتے ہیں۔ صدر عارف علوی نے ایک ایسی بات کی ہے بلکہ سچ اگلا ہے کہ شعوری طور پر وہ خود بھی شاید بلکہ یقینا جرات اظہار نہ کر پاتے۔ صدر عارف علوی کے مطابق ’عمران اس لئے مشکلات کا شکار ہوئے کیونکہ وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے‘ یہ پورا سچ نہیں ہے بلکہ سچ کا ایک جزو ہے۔
انسانی تاریخ ہوس زر یا ہوس اقتدار کا شکار ہونے والوں کے عبرت ناک انجام سے بھری ہوئی ہے۔ سازش حصول مقصد کا زینہ بنتی ہے لیکن یہ شاخ نازک پر بننے والے آشیانے کی طرح ناپائیدار ہوتی ہے۔ اب یہ کوئی سربستہ راز نہیں رہا کہ عمران خان اور فیض حمید نے طویل مدت اقتدار و اختیارات کو گھر کی ادنیٰ باندی بنا کر رکھنے کا سازشی منصوبہ بنایا تھا۔ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے قبل ریٹائر ہونا تھا۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد عمران نے وزیر اعظم کے اختیارات بروئے کار لا کر جنرل باجوہ کو ریٹائر کر کے فیض حمید کو نیا آرمی چیف مقرر کرنا تھا۔ عدم اعتماد لانے پر رضامند کرنا جنرل باجوہ کا فطری ردعمل تھا۔ ادھر آصف زرداری کی آنکھوں میں کچھ خواب سجانے کا اہتمام کیا گیا جس کی تعبیر کیلئے پی ڈی ایم کو تحریک عدم اعتماد لانے پر آمادہ کرنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور نواز شریف کے عدم اتفاق کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ دریں اثناء جنرل باجوہ نے پہلے پشاور پھر بہاولپور کا کور کمانڈر بنا کر جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے الگ کر کے ”زہر ناکی“ خاصی کم کر دی اس طرح فیض حمید کی تاحیات آرمی چیف اور عمران کی کم از کم پندرہ سال سیاہ و سفیدکے مالک صدر بننے کے خواب بے تدبیر ہوگئے۔ اس سے شدید ترین مایوسی اور ناکامی کے نتیجے میں جو اندرونی جھنجھلاہٹ پیدا ہوئی اس کا اظہار جنرل باجوہ کیلئے میر جعفر، جانور اور ایسے ہی دوسرے تضحیک آمیز الفاظ کی صورت ظاہر ہوا۔
راولپنڈی میں جی ایچ کیو کا گھیراؤ، اس کے گیٹ پر پتھراؤ کا مقصد بھی جنرل عاصم منیر کی راہ کھوٹی کرنا تھا اور 9مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے بھی جنرل عاصم منیر کے خلاف فضا بنانے کی وطن دشمنی کا کھلا مظہر ہے۔ یہ بہت سوچا سمجھا منصوبہ اس لئے تھا کہ ملک بھر میں صرف فوجی تنصیبات ہی کیوں نشانہ بنائی گئیں۔ اگر یہ پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ تھا تو حکومتی مراکز پر یا پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے دفاتر پر حملے کئے جاتے (اگرچہ یہ احتجاج نہیں بلکہ کھلی غنڈہ گردی کا مظہر ہے) لیکن نہ وزیر اعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز، وزراء اعلیٰ ہاؤسز کو نشانہ بنایا گیا صرف فوجی تنصیبات تباہ کی گئیں۔ فوج کے تیز رفتار مواصلاتی نظام کے تحت اعلیٰ فوجی قیادت کو لمحوں میں عمل ہو گیا اور ان کی فوری فیصلے کرنے کی صلاحیت و اہلیت تھی کہ تمام فوجی مراکز پر تعینات جوانوں کو ہدایت کر دی گئی خواہ کتنا نقصان ہو جائے جوابی کارروائی نہیں کرنی۔ اس پر مکمل عمل ہوا۔اس کے نتیجے میں حملہ آوروں کا اصل مقصد پورا نہ ہوا تو شہداء کی یادگاروں کو تباہ کر کے فوجی جوانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی۔ اس پر بھی کمال تحمل کا مظاہرہ ہوا۔ اصل مقصد جس کا سراغ بھارت اور امریکی چینلوں سے ملتا ہے، فوج کی جانب سے فوجی تنصیبات کے دفاع کیلئے کی جانے والی فائرنگ سے لاشوں کا حصول تھا۔ حملہ ہوتے ہی چند بھارتی چینلوں نے پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ عمران کے حامیوں پر فوج کی فائرنگ، جلد حقیقت سامنے آنے پر بات تبدیل کر دی گئی۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بجائے عوام کا فوجی تنصیبات پر دھاوا، ادھر امریکی میڈیا نے ابھی یہ حملے جاری تھے کہ خبریں چلانی شروع کر دیں۔ تصور کیا جائے ایک لاش بھی گر جاتی تو پورے ملک کے اندر ایسی سنگین صورت پیدا کر دی جاتی اور اس طرح جنرل عاصم منیر پر شدید دباؤ ڈال کر مستعفی ہونے پر یا قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دیا جاتا۔
صرف ایک عہدے کیلئے جو اس حد تک چلے جائیں وہ محب وطن کہلانے کے لائق ہیں۔ کیا عمران کی رضا مندی کے بغیر پی ٹی آئی کارکن اتنا بڑا کام از خود کر سکتے تھے۔ واقعاتی شواہد کی رو سے یہ عمران خان کی آشیر باد سے منصوبہ بنا اور اس کی ہی ہدایت پر اس کو بروئے کار لایا گیا۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار بتائیں دنیا کا وہ کونسا ملک ہے جہاں یہ سب کچھ ہو اور اس کے مجرموں کی سزا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نام دیا جائے۔
حرف آخر، عجیب اعتراض بلکہ سر چکرا دینے والا اعتراض ”تم جنرل مشرف کے خلاف مسلسل لکھتے رہے ہو اور اس کی بیوی کو محترمہ لکھ رہے ہو“ جنرل پرویز مشرف سے میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی، بلکہ اس کے کرتوتوں کے خلاف تھا۔ اس نے اچھے خاصے سول انتظام پر ڈاکہ ڈالا۔ تین بار آئین شکنی کی۔ افغانستان کے خلاف امریکہ کو پاکستانی فوجی اڈے دے کر امریکی جنگ پاکستان لانے کی احمقانہ بزدلی دکھائی۔ایسے ہی دیگر اقدامات کا جہاں تک تعلق ہے، ان سے بیگم صہبا پرویز مشرف کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس لئے یقینا وہ میرے لئے محترمہ ہیں۔