غزہ کا مستقبل

پچھلے ماہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر جس شدت سے حملہ کیا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، آئرن ڈوم جیسے جدید نظام سمیت دفاعی شیلڈ کے دعوؤں کی بھی دھجیاں اُڑ گئیں، حماس کے مجاہدین نے زمینی حملہ کیا، موٹر بوٹس کے ذریعے سمندر کے راستے اور پیرا گلائیڈرز کے ذریعے فضا سے بھی ٹوٹ پڑے، اسرائیل اور اسکے حامی ممالک کے ہوش اُڑ گئے، مسلم ممالک میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی، عین اسی وقت فلسطینی عوام کیلئے خیر خواہی کے گہرے جذبات رکھنے والا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو خدشات میں مبتلا ہو گیا کہ اب اسرائیل کا جواب بہت وحشیانہ ہو گا، ان حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ کسی مسلم ملک کی فوج جنگ میں نہیں کودے گی، دماغوں میں ایسے سوالات تھے کہ اگر حماس نے ایسا کیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نتائج کا اندازہ نہ لگایا ہو؟ ایک تجزیہ یہ بھی تھا کہ حماس نے جس بڑے پیمانے پر راکٹوں کی بارش کی ہے، بیک اپ میں بھی اسی طرح کا مزید اسلحہ بھاری مقدار میں رکھا ہو گا تاکہ لڑائی دیر تک لڑی جا سکے۔ دوسری طرف بعض دانشوروں کی اٹل رائے تھی کہ اس لڑائی کے نتیجے میں فلسطینیوں کی نسل کشی ہو گی اور غزہ کا کچھ حصہ بھی ہاتھ سے جائے گا، آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ دیکھ کر یہ بتانا بالکل مشکل نہیں کہ کس کی رائے درست ثابت ہو رہی ہے، حماس کے حملے کے فوری بعد امریکہ نے دو بحری جنگی جہاز اسرائیلی پانیوں میں پہنچا دئیے اور ساتھ ہی کھل کر دھمکی دی کہ کوئی تیسرا فریق اس لڑائی میں شامل ہونے کی جرأت نہ کرے، پتہ نہیں امریکہ کا مخاطب کون تھا کیونکہ کوئی ایک مسلم ملک بھی جنگ میں شریک ہونے کے لیے تیار نہیں تھا، او آئی سی کے اجلاس میں بھی یہی نتیجہ سامنے آیا۔ لاطینی امریکہ کے چند ممالک اور جنوبی افریقہ کے سوا عالمی برادری کا ردعمل بھی بہت کمزور رہا۔ سب سے پہلے تو اس کا جائزہ لینا ہو گا کہ آخر کس ملک نے اسرائیل پر حملے کا انتباہ کیا تھا۔ لبنان، عراق، یمن اور شام میں تلخ تجربات کے بعد عرب ممالک کسی طور پر کوئی محاذ کھولنے کے حق میں نہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ ان ممالک میں ہم خیال جنگجو گروپوں کی حمایت کیلئے عرب ممالک کو ترغیب امریکہ نے ہی دی تھی لیکن ہر جگہ ہاتھ ہو گیا، شام میں دس لاکھ شہری لقمہ اجل بن گئے، ڈیڑھ کروڑ نقل مکانی پر مجبور کر دئیے گئے، یمن جنگ میں پھنسا کر اس وقت کے بڑبولے امریکی صدر ٹرمپ نے کھلے عام کہہ دیا کہ عرب ممالک اپنا تحفظ چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی قیمت ادا کریں۔ سعودی عرب اور امارات نے معاملات بے قابو ہونے سے قبل ہی بھانپ لیا کہ خطے میں جاری گریٹ گیم کا اصل ہدف کیا ہے چنانچہ وہ موقع ملتے ہی ہر طرح کی لڑائیوں سے نکل کر صلح کے راستے پر چل پڑے۔ سعودی عرب نے چین کو بیچ میں ڈال کر ایران سے بھی صلح کر لی، ایسے حالات میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی عرب ملک جنگ کا راستہ اختیار کرے۔ ترکی اور پاکستان کے اپنے مسائل ہیں، ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنائی نے فوری طور پر واضح کر دیا کہ اگرچہ ہم حملہ آوروں کے ہاتھ چومتے ہیں لیکن اس کارروائی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کی طرف لگائی جانے والی امیدیں بھی اس وقت زمین بوس ہو گئیں جب اس کے سربراہ حسن نصراللہ نے بھی ایران کی طرح محتاط موقف اختیار کیا۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی عوام اس رویے پر دل گرفتہ ہیں، اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ جن ممالک نے اسرائیل کے خلاف فوج بھجوانے یا حملے کرنے کی بات نہیں ان سے گلہ کیوں؟ فرض کریں کوئی عرب ملک اس لڑائی میں عملا ً شریک ہو گیا تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اسرائیل، امریکہ اور اتحادی ممالک اسکے خلاف کارروائی نہیں کریں گے، صرف حملے ہی نہیں ملک کے اندر موجود ایجنٹوں اور خطے میں موجود متحارب ممالک اور ان کی پراکسیوں کے ذریعے بھی عدم استحکام پیدا کیا جائے گا جس کا نتیجہ ایک اور غزہ کی صورت میں ہی برآمد ہو گا، اسرائیل جس طرح سے ہسپتالوں، سکولوں، قبرستانوں، سرکاری عمارتوں اور محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کرنے والوں کو بے دریغ بمباری کا نشانہ بنا رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی لابی کسی کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں، انسانیت سوز مظالم نے پوری دنیا کے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، مسلم ممالک سے بڑے مظاہرے تو غیر مسلم ممالک میں ہو رہے ہیں جس طرح کی ویڈیوز اور خبریں آ رہی ہیں اس کے بعد کوئی نارمل انسان اپنا دکھ، کرب، ردعمل دئیے بغیر نہیں رہ سکتا، خود اسرائیل کے اندر بھی مظاہرے ہو رہے ہیں، صورتحال کا حقیت پسندانہ جائزہ لینے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ مظلوم فلسطینی عوام کیلئے واحد راستہ جنگ بندی ہی رہ گیا ہے، سب کو اس حوالے سے کوششیں جاری رکھنا ہوں گی، حکومتوں کی اپنی مجبوریاں ہیں لیکن مسلم ممالک کے عوام کسی فوری مداخلت کے حامی ہیں، پوری اُمّہ اس وقت شدید صدمے کی کیفیت میں ہے، بہت اچھی بات ہے کہ اسرائیلی حملوں کے خلاف پوری دنیا میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں، امریکہ، یورپ کے عوام ہی نہیں حکومتی شخصیات کے منہ سے بھی سچ نکل رہا ہے، فرانس کے صدر میکرون نے میڈیا کے روبرو کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، یہ عوام کا دباؤ ہی ہے کہ برطانوی وزیر اعظم کو لندن میں فلسطینی عوام کے حق میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف بیان دینے والی اپنی ہندو خاتون وزیر داخلہ کو برطرف کرنا پڑگیا ورنہ یہی برطانیہ ہے جس نے امریکہ کے بعد اپنا جنگی بحری بیڑا اسرائیل کی مدد کیلئے بھجوایا، وزیر اعظم رشی سونک بار بار تل ابیب جا کر نتن یاہو کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے رہے جو یقیناً معصوم عورتوں، بچوں، بزرگوں اور عام شہریوں کے قتل عام کی توثیق کے مترادف ہے، اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ احتجاج خواہ کسی بھی شکل میں ہو کچھ نہ کچھ رنگ ضرور دکھاتا ہے اس لیے یہ سلسلہ جاری رکھنا ضروری ہے، اسرائیل کا اگلا منصوبہ یہی ہے کہ وہ حماس کی سرنگوں کا جال تباہ کرنے کے بہانے سے غزہ میں گھس جائے گا، اب تو یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ جنگ کے خاتمے پر غزہ کی پٹی اسرائیل کی عملداری میں ہو گی، علاقہ تو ہاتھ سے نکل ہی رہا ہے، کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ نسل کشی کو روکا جائے، اس چھوٹے سے رقبے میں رہائش اور عوامی سہولیات بلکہ ضروریات کے حوالے سے پہلے ہی سے بے پناہ مشکلات ہیں، اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل کہنا غلط ہے کیونکہ کے جیلوں میں قیدیوں کو خوراک سمیت بنیادی ضروریات فراہم کی جاتی ہیں، باہر سے حملوں کا ڈر بھی نہیں ہوتا، اس کے باوجود آبادی کی نقل مکانی سے بچنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ دنیا بھر میں موجود مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حیثیتوں میں عالمی برادری کو باور مسلسل کرانا ہو گا کہ فلسطینیوں کو ان کا جائز حق ملنے تک کوئی پائیدار حل نکلنا ممکن نہیں، اگر ہم جنگ نہیں کر سکتے تو اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے اسرائیل کو کسی قسم کا فائدہ پہنچے، حکومتیں تجارتی تعلقات توڑیں نہ توڑیں مسلمانوں کو اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، ان کمپنیوں کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہیے جنہیں اسرائیلی لابی نے بالواسطہ دنیا بھر میں پھیلا رکھا ہے، ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ سکتے، انفرادی سطح پر سہی کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے، جنگ نہیں جنگ بندی کی آواز واحد راستہ ہے، مسئلے کے مستقل حل کیلئے اچھے وقت کا انتظار کرنا ہو گا، بلند و بانگ دعوے اپنی جگہ نوشتہ دیوار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔