میں اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد سرسید احمد خان نے ہی رکھ دی تھی اور سرسید احمد خان کون تھے، ان کی بہت لمبی سی داڑھی تو ضرور تھی مگر وہ مسلمانوں میں زمانے کی تعلیم کے بہت بڑے حامی اور داعی تھے، ان کے بعد شاعر مشرق، حکیم الامت، علامہ سر محمد اقبال اور قائد اعظم بیرسٹر محمد علی جناح۔ اگر ہم برصغیر کی تاریخ اور جغرافیے کو بدلنے والی تین شخصیات کا ذکر کرنا چاہیں تو ان کے سوا کون سا چوتھا نام ہو سکتا ہے، کوئی بھی نہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست، جس کی تحریک چلتے ہوئے نعرہ ہی پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ تھا، اس کے فکری اور عملی دونوں رہنماؤں کی داڑھی تک نہیں تھی۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم ان تینوں شخصیات سے سیکھیں اور ان سب سے پہلے ہادی برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے، جو کائنات کی سب سے دانا شخصیت ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے جب مکہ میں رہنا دشوار سے دشوار تر بنا دیا گیا تو آپؐ نے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی اور اسے مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عظیم درجہ ملا یعنی نبی کا شہر۔ اسے ساڑھے چودہ سو برس سے اسی نا م سے پکارا جاتا ہے اور قیامت تک پکارا جاتا رہے گا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا کہ اگر قریش کے لوگ ان کے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دیں تو وہ رب کے ایک ہونے کے پیغام سے دستبردار نہیں ہوں گے، اللہ اللہ، کیا استقامت تھی مگر اس کے ساتھ ہی جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دیکھا کہ مکہ میں رہنا ناممکن ہے تو آپؐ نے وہاں رہنے پر اصرار نہیں کیا بلکہ اپنے بچپن کی سرزمین چھوڑ کر چلے گئے اور پھر اس کے بعد صلح حدیبیہ، کہنے والوں نے کہا کہ یہ معاہدہ کفار مکہ کے حق میں ہے، یہ تو اہل حق کی شکست ہو گئی مگر سورۃ الفتح میں بشارت دے دی گئی کہ یہی تو کامیابی ہے اور پھر ثابت بھی یہی ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ میں بطور فاتح داخل ہوئے مگر اس سے پہلے کیا تھا، غزوہ خندق تھا اور وہاں اپنا دفاع ایک بہت بڑی خندق کھودکے کیا جا رہا تھا اور اس کے علاوہ تین سو تیرہ کی تعداد کے ساتھ اپنے سے تین گنا طاقت والوں کا مقابلہ۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہجرت بھی شکست نہیں ہوتی، حدیبیہ جیسا معاہدہ بھی شکست نہیں ہوتا، خندق کا کھود کر خود کو بچانا بھی شکست نہیں ہوتا بلکہ یہ سب حکمت عملی ہوتی ہے، وقت کا تقاضا ہوتا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح کو قائداعظم کا خطاب ملا تو برصغیر کا نقشہ اور تاریخ بدلنے کے عوض کیا غلط ملا مگر وہ قائد کبھی ایک روز کے لئے بھی جیل نہیں گیا، اس نے کبھی اپنے مخالفین کے گھر پر حملہ نہیں کیا، اس نے کبھی اپنے دشمن کو گالی نہیں دی، ہاں، اس کے ساتھ ساتھ اس پر ایک روپے کی کرپشن کا بھی الزام نہیں ہے۔ مطالعہ پاکستان اور تحریک پاکستان کو پڑھے ہوئے ایک زمانہ گزر گیا مگر کیا قائداعظم محمد علی جناح نے کیبنیٹ مشن کو قبول نہیں کیا تھا اور کیا کہنے والوں نے انہیں انگریز کا ایجنٹ نہیں کہا تھا لیکن اس الزام سے پرے اور اسے نظرانداز کرتے ہوئے وہ اپنے مشن کے بارے میں واضح تھے۔ آج جو ان پر انگریز کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا کرتے تھے ان کے قد قائداعظم محمد علی جناح کے مقابلے میں اتنے چھوٹے ہوگئے ہیں کہ بہت سارے تو سر جھکا کے دیکھنے سے بھی نظر نہیں آتے۔ قائداعظم نے کیا کِیا تھا، انہوں نے یہ کیا تھا کہ ایک بڑی لائن کو ٹچ کئے بغیر چھوٹا کر دیا تھا۔ اب بھلا لوگ پوچھیں گے کہ ایک دیوار پر ایک لکیر لگی ہو تو آپ اس کو مٹائے بغیر چھوٹا کیسے کر سکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ اس کے مقابلے میں اس سے بھی بڑی، لمبی اور واضح لکیر کھینچ دیں، پہلے والی خود بخود چھوٹی ہوجائے گی۔ قائداعظم علیہ رحمتہ نے برصغیر کے نقشے میں ریاست مدینہ (جینوئن) کے بعد ایک دوسری اسلامی نظریاتی ریاست کی سرحد کی جو لکیر کھینچی وہ سب سے بڑی اور سب سے واضح ہو گئی سو قائداعظم کے مقابلے میں لگی ہوئی جتنی بھی لکیریں تھیں وہ چھوٹی ہو گئیں، معدوم ہو گئیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے ایک اسلامی ریاست بنائی مگر وہ خود سوٹ بوٹ پہننے والے بابو تھے۔ ان کی ریاست کی قومی زبان اردو تھی مگر وہ خود انگریزی بولتے تھے اور ان پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ دیہات کے رہنے والے کہتے تھے کہ ہمیں نہیں علم کہ یہ سوٹڈ بوٹڈ انگریزی میں کیا کہہ رہا ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ یہ جو کہہ رہا ہے وہ درست کہہ رہا ہے۔
علامہ اقبال کو ہمارے مولوی حضرات بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں، میرا مطلب ہے ان کے عظیم شاعرانہ کلام کو، یوں لگتا ہے کہ قرآن کی تفسیر، توحید، جہاد اور حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی تشریح ہو سکتی ہے تو وہ یہی کلام ہے مگر یہی علامہ محمد اقبال ہیں جن کی اپنی داڑھی نہیں تھی جبکہ علما کہتے ہیں کہ داڑھی سنت موکدہ ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اربوں مسلمانوں کی دنیا بدل دینے والے جناح اور اقبال نے اپنی پوری عمر میں کوئی حج تک نہیں کیا تھا حالانکہ وہ یورپ وغیرہ جاتے رہتے تھے۔ علامہ اقبال ہمیں ایک طرف ہندوستان کی عظیم تاریخ، جغرافیے وغیرہ پر فخر کا احساس دلانے والے ترانہ ہندی کو لکھتے ہوئے نظر آتے(صفحہ6پر بقیہ نمبر1)
ہیں تو دوسری طرف وہ اسی ہندوستان کی تقسیم کا فارمولہ پیش کرتے ہوئے۔ یہی علامہ اقبال ہمیں مسلمانوں کے اتحاد، جہاد، نشاۃ ثانیہ کا در س دیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ملکہ برطانیہ کے قصیدے لکھتے ہوئے بھی۔ ان کی پوری شاعری عمل کی طرف بلکہ پلٹنے جھپٹنے کی طرف لے جاتی ہے مگر وہ ذاتی زندگی میں اتنے ہی سہل پسند بھی تھے۔ رہ گئی بات عشق حقیقی اور عشق مجازی کی تو ان کی شاعری سے بڑھ کے عشق حقیقی کی کوئی تفسیر اور کوئی تشریح نہیں ہوسکتی مگر ان کے مجازی عشق کے معاملات بھی کمال تھے۔
سو پیارے قارئین، سیکھنے والی باتیں یہ ہیں کہ عصر حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ہی حکمت ہے، اپنے افکار و اعمال میں توازن ہی دانشمندی ہے، جوش کے ساتھ ساتھ ہوش کو بھی برقرارر رکھنا ہی کامیابی ہے، اپنے مقصد کے ساتھ کمٹڈ ضرور ہونا ہے مگر انتہا پسند نہیں ہونا، اوریہ کہ دھیما ہوجانا، کچھ قدم پیچھے ہوجانا کبھی ناکامی اور شکست نہیں ہوتی۔ جن کو حقیقی کامیابی ملی وہ نہ انتہا پسند تھے اور نہ ہی بددیانت اور بدگو!!