کئی مہینوں کا انتظار اور بے یقینی ختم، الیکشن 8 فروری 2024ء بروز جمعرات ہونا قرار پائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی اس تاریخ کو پتھر کی لکیر قرار دے دیا۔ ملک میں بے یقینی اور بعض حلقوں کی جانب سے انتخابات کی آڑ میں عدم استحکام پیدا کرنے کی سازش ناکام ہو گئی۔ عجیب اتفاق ہے کہ اگست میں تحلیل شدہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے ایک ٹی وی اینکر پرسن کو بتایا تھا کہ الیکشن 15 فروری سے ایک ہفتہ پہلے یا دو چار دن بعد میں ہوں گے۔ گزشتہ جمعرات کو چیف جسٹس کے حکم پر چیف الیکشن کمشنر ایوان صدر گئے۔ ایک گھنٹہ مذاکرات ہوئے، چیف الیکشن کمشنر نے تین تاریخیں 28 جنوری، 4 فروری اور 11 فروری تجویز کیں تاہم صدر سے مشورے کے بعد 8 فروری بروز جمعرات کو پولنگ ڈے پر اتفاق ہو گیا۔ جمعرات بھری مراد، پیروں فقیروں کا دن، خان کے موکل مان گئے تو شاید ”شیخ چلہ“ کے تعاون سے بڑوں کو راضی کر کے دو تہائی یا تین چوتھائی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن خان تو جیل میں ہیں اور نومبر، دسمبر کا مہینہ ان کے لیے سزاؤں کا مہینہ ہو گا۔ پی ٹی آئی کی بھرپور کوشش ہے کہ مائنس عمران خان سہی وہ بلے کے نشان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا سے اتنی سیٹیں حاصل کر لیں کہ قانون سازی میں انہیں اہم حیثیت حاصل ہو جائے۔ قرائن سے لگتا ہے کہ شاید پیپلز پارٹی زمینی، حقائق اور پنجاب میں خان کی مقبولیت کے مفروضوں کے پیش نظر پی ٹی آئی کی طرف سے دست تعاون بڑھا رہی ہے اور اس سے انتخابی اتحاد کی باتیں کر رہی ہے۔ اسے اندازہ ہے کہ میاں نواز شریف لندن جانے سے پہلے 9 کروڑ ووٹر چھوڑ کر گئے تھے جو اب 12 کروڑ ہو گئے ہیں یہ ووٹر 18 سے 35 سال کی عمر کے ہیں اور سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر خان کے فدائین میں شمار ہوتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنے کارڈ شو کر دیے ہیں۔ بلاول بھٹو نے قوم کو الیکشن کے چاند کی مبارکباد دی، گزشتہ دنوں بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کی طرف دست تعاون بڑھائے گی۔ خان بھی اپنی قانونی مجبوریوں کے تحت ”چوروں ڈاکوؤں“ کے ساتھ بغل گیر ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ بظاہر یہ اتحاد خارج از امکان نہیں، الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے قبل ہی سیاسی صف بندیاں شروع ہو گئی تھیں۔ چند دن پہلے تک یہ پیشگوئی کی جا رہی تھی کہ کہیں اوپر طے ہو چکا ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم اور آصف زرداری صدر ہوں گے۔ لیکن اچانک سیاسی منظر نامہ بدل گیا۔ پی پی اور پی ٹی آئی نے اچانک لیول پلیئنگ فیلڈ کا شور مچا دیا، سیانوں نے کہا پی پی کا شور بجا ہے لیکن پی ٹی آئی کو ”الیون پلیئنگ فیلڈ“ کا مطالبہ بلکہ اپیل کرنی چاہیے تاکہ ان کی ٹیم کے گیارہ کھلاڑی پورے ہو سکیں اسی دوران مفاہمت کے بادشاہ کہلانے والے آصف زرداری مزاحمت پر اتر آئے۔ کسی نے کان میں پھونک دیا ہو گا۔ نواب شاہ میں انہوں نے منہ بھر کے کہہ دیا کہ میں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بننے دوں گا، زعم ہے تو بن کے دکھائیں۔ اس دھمکی سے ن لیگ اور پی پی میں دوریاں بڑھ گئیں۔ یہ الگ بات کہ سیاسی پنڈت ابھی تک اس بات پر مصر ہیں کہ الیکشن کے بعد دونوں پارٹیوں میں اتحاد ہو جائے گا اور دونوں پارٹیاں مل کر اپوزیشن میں بیٹھی پی ٹی آئی کا مقابلہ کریں گی۔ تاہم بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے اپنے ارکان کا لہو گرم رکھنے کے لیے کروٹ بدلی ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی سیاسی زندگی کے کمزور ترین دور سے گزر رہی ہے۔ جنوبی پنجاب اور بلوچستان سے مایوس اور سندھ میں چار جماعتی ممکنہ اتحاد سے خوفزدہ ہے۔ اوپر والے بھی پی پی کو پی ٹی آئی کے قریب آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
سیاست کا محور تبدیل ہو گیا ہے۔ الیکشن کی تاریخ آنے سے سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئیں، پی ٹی آئی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ خان اڈیالہ جیل میں فائیو سٹار ہوٹل جیسی سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ سزاؤں کا خوف ذہن و دل میں بسا ہے۔ نا اہل بھی ہو چکے نواز شریف بھی نا اہلی اور دو مقدمات میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں کے دور سے گزر رہے ہیں۔ بقول سینئر صحافی انصار عباسی دونوں کے ہاتھ سے وقت پھسلتا جا رہا ہے۔ ایک ماہ کے دوران بریت اور نا اہلی ختم نہ ہوئی تو دونوں الیکشن سے باہر ہوں گے تاہم دونوں کی سزاؤں میں فرق ہے۔ میاں نواز شریف کی تاحیات نا اہلی الیکشن ایکٹ میں حالیہ ترمیم کے بعد پانچ سال سے زیادہ نہیں رہے گی۔ (اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ دو مقدمات میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی درخواستیں قابل سماعت ہونے کے باوجود ابھی تک زیر سماعت نہیں آئیں) خان کو توشہ خانہ کیس میں نا اہل قرار دیا جا چکا ہے اگر چہ ان کی سزا معطل کر دی گئی تاہم جرم باقی ہے اور بریت دور، اس کے علاوہ سائفر کیس سانحہ 9 مئی اور دیگر مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔ آزمائش سخت اور سفر طویل ہے۔ انتخابات میں بلے کا نشان رہا تو بلا لہرانے والا نہیں ہو گا۔ بعد میں کیا ہو گا یہ بعد کی باتیں ہیں۔ آئی پی پی نے حالیہ دو جلسوں میں اپنے کارڈ شو کر دیے ہیں۔ مستقبل کے وہی سہانے خواب جن کی تعبیر کو عوام ترس گئے۔ عوام چاہیں تو پھر اعتبار کر لیں، مگر وہی آزمائے ہوئے مہرے، پریس کانفرنسیں کر کے جان چھڑانے والے پی ٹی آئی سے بھاگے ہوئے لیڈر جنہوں نے جہانگیر ترین کے دامن میں پناہ لے لی ہے، کیا عقاب کے نشان پر اونچا اڑ سکیں گے۔ ایک کرم فرما نے شعر میں ترمیم کرتے ہوئے کہا کہ ”تندیئ باد مخالف سے بھی گھبرا اے عقاب، یہ تو چلتی ہے تجھے نیچا دکھانے کے لیے“ ن لیگ اب تک خاموش اور ان یقین دہانیوں پر مطمئن تھی کہ نواز شریف کی واپسی کے بعد سیاست کا محور وہی ہوں گے۔ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ ملک میں معاشی استحکام اور دوست ممالک کو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے کے لیے نواز شریف سے زیادہ تجربہ کار کوئی اور لیڈر نہیں ہے۔ وہ اس اطمینان کے ساتھ واپس آئے لیکن چند دن بعد ہی پتا چلا کہ ”ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں“ زمینی حقائق مختلف ہیں، خان سیاسی منظر نامے سے باہر نہیں ہوئے۔ ”شرلیاں“ چھوڑی جا رہی ہیں۔ اس کے لیے جید صحافیوں اور قریبی تعلقات کے دعویدار تجزیہ کاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہے۔ ”ہونے کیا جا رہا ہے“ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک کالم میں جو تجزیہ پیش کیا گیا اس سے کم از کم ن لیگ کی پریشانی بڑھ گئی، کالم میں کہا گیا کہ ن لیگ 75 یا 80 سیٹیں لے گی جبکہ پی پی کی 60 یا 65 سیٹیں ہوں گی۔ کراچی سے 10 سیٹیں لے سکتی ہے ن لیگ نہ مانی تو پی پی حکومت بنائے گی۔ کیا مطلب کیا نواز کی آمد سے دور پرے کا کوئی طبقہ ناراض ہے کوئی تھنک ٹینک نا پسندیدگی کا اظہار کر دیا ہے۔ سب کچھ ذرائع کے حوالے سے کہا جا رہا ہے جس سے سیاسی فضا پھر دھند آلود ہو رہی ہے، خطرے کی گھنٹیاں بجائی جا رہی ہیں۔ ظاہر ہے 80 یا 85 سیٹوں کے ساتھ ن لیگ کتنوں سے اتحاد کرے گی کہ وہ وفاق میں حکومت بنا سکے، مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں کہ الیکشن کے بعد قومی یا مخلوط حکومت بنے گی، تاہم جو کچھ طے ہوا ہے وہ یہ ہے کہ معاشی استحکام کے لیے مخلوط نہیں مضبوط حکومت چاہیے، مخلوط حکومت بنی تو پھر سے جوتیوں میں دال بٹے گی جو ذمہ داروں کو کسی صورت منظور نہیں۔ اسی دوران معافی تلافی کا آپشن بھی پیش کر دیا گیا۔ سانحہ 9 مئی کے بعد فیصلہ سازوں کے دل میں خان کے لیے ذرا سی بھی گنجائش نہیں، شاید اسی لیے وہ مایوسی کے عالم میں مذاکرات کی کوششیں کر رہے ہیں، ان کے خلاف جتنے مقدمات ہیں لگتا ہے وہ اپنی زندگی میں ان سے جان چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ ان کا حال یہ ہے کہ بقول شخصے جو کیا اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں جس طرح اقتدار میں آئے اسے ماننے کو تیار نہیں۔ 9 مئی کو جو کچھ ہوا اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں، اپنی غلطیوں پر معافی کجا ان کا ادراک کرنے سے انکاری ہیں لیکن وہ جس دور سے گزر رہے ہیں اور بند گلی میں پھنس گئے ہیں اس سے نکلنے کے لیے 10 لاکھ کی مشینی سائیکل پر ایکسر سائز کرتے ہوئے معافی کے آپشن پر غور تو کر سکتے ہیں بظاہر کوئی توقع نہیں لیکن خان صاحب یو ٹرن کے ماسٹر ہیں بلکہ یو ٹرن کو عظیم لیڈروں کی صفات میں شمار کر چکے ہیں۔ مزاحمت سے مفاہمت تک آ گئے ہیں کچھ اور پش کیے گئے تو معافی تلافی پر بھی آمادہ ہو جائیں گے۔ لیکن کیا مقتدر حلقے 9 مئی کے واقعات بھلا سکیں گے۔ جن کے بارے میں کہا گیا کہ 77 سال میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوئے معافی تلافی کی صورت میں پورا منظر نامہ تبدیل ہو جائے گا۔ ایک صاحب نے کہا تھا ”ہن کی ہونا اے کجھ نہیں ہونا“ جو ہو گا ایک ماہ ہی میں ہو گا۔ ن لیگ نے بھی اپنے کارڈ شو کر دیے ہیں، جلسوں کے شیڈول کا اعلان اور امیدواروں سے ٹکٹوں کے لیے درخواستیں طلب کر لی ہیں۔ 16 ماہ کی لٹیا ڈبو دینے والی حکومت (جس میں پی پی بھی شامل تھی) کے ”کارناموں“ سے قطع نظر مستقبل کے حوالے سے عوام میں پذیرائی ملی تو تجزیوں کے مطابق ملک میں سیاسی استحکام اور خوشحالی آ سکے گی۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔