میاں نواز شریف کی واپسی اور تاریخی خیر مقدم۔۔۔۔۔۔!

21 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف اپنے علاج معالجے کے لیے لندن میں تقریباً چار سالہ قیام کے بعد واپس پاکستان تشریف لائے تو ان کا جس طرح کا پُر جوش اور پُر تباک خیر مقدم کیا گیا، پاکستان کی حالیہ تاریخ میں اس کی کم ہی مثال ملے گی۔ بلا شبہ نہ صرف ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) لاہور میں مینارِ پاکستان کے تاریخی گراؤنڈ میں ان کے خطاب کے لیے ایک عظیم الشان اجتماع کا انعقاد کرنے میں کامیاب رہی بلکہ یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو کہ میاں صاحب کی واپسی اور جلسہ عام سے ان کے خوبصورت، پُر اثر، مدلّل اور جاندار خطاب سے ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے چھوٹے بڑے رہنماؤں، کارکنوں، حامیوں اور متوالوں کو بھی نیا عزم، نیا حوصلہ اور نیا اعتماد بھی ملا ہے۔ میاں صاحب نے لاہور کے اس فقید المثال اجتماع میں جو خطاب کیا ہے اُسے بھی ہر لحاظ سے تاریخی، یادگار اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے جہاں مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے آیندہ لائحہ عمل اور اندازِ فکر و نظر کی عکاسی ہوتی ہے وہاں مسلم لیگ (ن) بالخصوص اس کے قائد میاں نواز شریف کا بیانیہ ایک واضح، دو ٹوک اور ٹھوس شکل میں ہمارے سامنے ہی نہیں آتا ہے بلکہ اس کے بارے میں کی جانے والی طرح طرح کی چہ میگوئیاں شکوک و شبہات اور تحفظات بھی دور ہوتے نظر آتے ہیں۔

آگے چلنے سے پہلے اس پہلو کا ذکر کرنا بے جا نہیں ہو گا کہ میاں صاحب کی لندن سے21 اکتوبر کی تاریخ کو واپسی کے پروگرام کا اعلان ہوا تو اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی تیاریوں اور دیگر جزئیات و تفصیلات اور قانونی امور و معاملات کے بارے میں طرح طرح کی متضاد خیال آرائیاں اور غیر یقینی صورت ِحال کا ذِکر بھی ہونے لگا۔ تاہم مجھے میاں صاحب محترم کی واپسی کے بارے میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں تھا کہ ہمارے مختصر حلقہ احباب کی انتہائی معتبر، باخبر اور مقتدر شخصیت برادرِ عزیز محترم عرفان صدیقی صاحب نے یکم اکتوبر کی شام کو یہ بتا کر تصدیق کر دی کہ وہ اگلے دن یعنی دو اکتوبر کو میاں محمد نواز شریف کے فوری طور پر بلاوے پر لند ن جا رہے ہیں۔ میرے کالموں میں کبھی کبھار یہ اشارہ موجود ہوتا ہے کہ ہم چند احباب (پانچ یا چھ) مہینے میں ایک آدھ بار مِل بیٹھ کر کھانا وغیرہ کھا لیتے ہیں اور گپ شپ اور تبادلہ خیال بھی ہو جاتا ہے۔ برادر عزیز مکرم و محترم عرفان صدیقی (سینیٹر مسلم لیگ ن)، عزیزِ گرامی محترم فواد حسن فواد (نگران وفاقی وزیر نجکاری) اور محبی مکرم و محترم جناب ڈاکٹر جمال ناصر (نگران صوبائی وزیر پرائمری ہیلتھ و بہبود آبادی) ہمارے اس حلقہ احباب کی انتہائی معتبر، مقتدر اور با خبر شخصیات سمجھی جا سکتی ہیں تو عزیزِ گرامی ڈاکٹر ندیم اکرام اور محترم اسماعیل قریشی بھی اس حلقہ احبا ب کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہیں کہ ان کے خلوص، درد مندی، سچائی، پاکستان سے محبت اور احباب کے لیے جان نثاری اور وفا داری میں کوئی کلام نہیں۔ عرفان صدیقی اور فواد حسن فواد نامور علمی اور ادبی
شخصیت ہونے کے ساتھ بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔ اس طرح احباب کی محفل میں پُر تکلف اور لذیذ عشائیے کے ساتھ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ اور شعر و شاعری کا تذکرہ بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یکم اکتوبر کی رات عزیزِ گرامی ڈاکٹر ندیم اکرام کے ہاں عشائیے کی انتہائی پر تکلف دعوت میں احباب جمع تھے تو برادر عزیز مکرم و محترم عرفان صدیقی گھر لوٹنے کے لیے ذرا جلدی میں تھے کہ انہوں نے جیسے اوپر کہا گیا ہے کہ اگلے دن 2 اکتوبر کو لندن جانے کے لیے تیاری کرنا تھی کہ محترم میاں نواز شریف نے انہیں فی الفور (ہر صورت میں 2 اکتوبر تک) لندن پہنچنے کی تاکید کر رکھی تھی۔ اس میں کسی طرح کی تعلّی، غیر ضروری تشہیر یا خود نمائی کا اظہار مقصود نہیں بلکہ یہ ایک کھلی حقیت ہے کہ محترم عرفان صدیقی صاحب ان معدودے چند شخصیات میں شامل سمجھے جا سکتے ہیں جنہیں میاں نواز شریف کی گہری قربت اور بھر پور اور مکمل اعتمار حاصل ہے۔ عرفان صاحب، میاں صاحب کے تقریر نویس ہی نہیں بلکہ ان کے بااعتماد مشیر بھی ہیں۔ عرفان صاحب لندن گئے اور ہفتہ عشرہ وہاں مقیم رہے، میاں صاحب سے روزانہ اُن کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میاں صاحب لند ن سے سعودی عرب روانگی کے لیے تیار ہوئے تو عرفان صاحب واپس پاکستان آ گئے۔ منگل 10 اکتوبر کو بڑے قومی اخبارات میں۔ ”الوداع لندن“ کے عنوان سے عرفان صاحب کا کالم چھپا تو میاں نواز شریف کی 21 اکتوبر کو پاکستان واپسی کے پروگرام کے بارے میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ میاں صاحب سعودی عرب میں تقریباً ایک ہفتہ قیام کے بعد دوبئی آئے تو عرفان صاحب بھی دوبئی میں جا کر ان کے قافلے میں شامل ہو گئے اور 21 اکتوبر کو میاں صاحب محترم کے ساتھ ہی خصوصی پرواز کے ذریعے پاکستان واپس پہنچے۔

محبی مکرم و محترم عرفان صدیقی صاحب کا ذکر کچھ طویل ہو رہا ہے لیکن یہ ذکر غیر ضروری نہیں سمجھا جا سکتا کہ میاں نواز شریف نے21 اکتوبر کو مینارِ پاکستان لاہور کے عظیم الشان اجتماع میں جو خطاب کیا اور ہر کہہ و مہ جس کی تعریف و تحسین کر رہا ہے بلا شُبہ اس کو یہ رنگ و رُوپ دینے میں عرفان صاحب کا بڑا ہاتھ ہے۔ راقم جو عرفان صاحب کا بہت دیرینہ رفیقِ کار اور ہم نوا سمجھا جا سکتا ہے، جسے اُن کی تحریروں، قلم کاری اور شاعری سے گہری شناسائی اور وابستگی کا بھی کچھ نہ کچھ دعویٰ ہے کہہ سکتا ہے کہ میاں نواز شریف مینارِ پاکستان کے جلسہ عام میں خطاب کر رہے تھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ اُن کی سوچ اور خیالات کو سامنے رکھ کر اُن کی تقریر تیار کرنے والے (عرفان صدیقی) نے میاں نواز شریف کے خیالات، جذبات اور احساسات کو ایسے الفاظ و محاورات، ایسی تشبیہات اور ایسے اشعار سے مزین اور آراستہ کیا ہے جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ میاں صاحب محترم کی زبان سے الفاظ ادا نہیں ہو رہے بلکہ پھول جھڑ رہے ہیں۔ ماضی کے حالات و واقعات کا تذکرہ اور اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں، نا انصافیوں اور جبرِ ناروا کے حوالے اپنے جگہ ضروری تھے تو پاکستان کو مسائل و مشکالات کے گرداب سے نکالنے کے لیے عزم و یقین اورواضح اور ٹھوس منصوبہ بندی کا اظہار بھی ضروری تھا۔ پھر ہر طرح کے انتقامی جذبات اور احساسات سے دور رہنے کی یقین دہانی بھی ضروری تھی کہ اِس کے بغیر ملک و قوم کی ناؤ کو کنارے سے لگانا، ملک کے مستقبل کو سنوارنا اور باہمی اعتماد کی فضا کو پروان چڑھانا ممکن نہیں۔ بلا شبہ میاں صاحب محترم کی تقریر میں یہ سارے پہلو موجود تھے تو اِس میں اُن کی روائتی عجز و انکساری، درد مندی، شرافت اور دینداری کا عکس بھی جھلک رہا تھا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا شاید ایسا کوئی بے جا نہیں سمجھا جائے گا کہ 21 اکتوبر کو مینارِ پاکستان کے جلسہ عام میں میاں نواز شریف کا خطاب اختتام پذیر ہوا تو راقم  نے اپنے حلقہ احباب کی انتہائی پیاری شخصیت عزیزِ گرامی ڈاکٹر ندیم اکرام کے وٹس ایپ نمبر پر اپنے احباب کے لیے یہ لائنیں تحریر کیں۔ ”ماشاء اللہ میاں صاحب کی تقریر ہر پہلو سے لا جواب تھی تو اُن کا خطاب بے مثال تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بلا شبہ کمال کر دیا کہ اِتنا زبردست اور کامیاب شو، قابلِ صد مبارک باد۔ مقبولیت کے حوالے سے مایوسی کے بادل چھٹنے اور امید افزائی سامنے آنے کے واضح امکانات۔ ایک اور بات جو میں نے نوٹ کی کہ ن ش نے ش ش کو ”ڈِس اون“ نہیں کیا بلکہ ”اون“ کرتے نظر آئے“۔