سابق وزیر اعظم نواز شریف وطن واپس آگئے ہیں۔ کچھ ہفتے قبل ان کی جماعت نے نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان کیا تو یہ افواہیں زیر گردش رہیں کہ وہ پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ نواز شریف لندن کو الوداع کہہ کر سعودی عرب کے لئے روانہ ہوئے تب بھی ان کے مخالفین اور تجزیہ نگاروں کا ایک حلقہ یہ دعویٰ کرتا رہا کہ وہ واپس لندن لوٹ جائیں گے۔ انہوں نے دبئی سے پاکستان کے لئے رخت سفر باندھا تو تمام افواہیں دم توڑ گئیں۔ نواز شریف کی واپسی چار برس کے بعد ہوئی ہے۔ ان چار برسوں میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں بہت سے اتار چڑھاو آئے۔ پانچ برس پہلے انہیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں سزا ہوئی تھی۔ اس سزا کے نتیجے میں انہیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مہینوں جیل میں رہنا پڑا۔ انہیں علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کی اجازت ملی تووہ لندن چلے گئے۔ ان گزرے برسوں میں بہت سے سیاسی رازوں سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ ان کا تختہ الٹنے میں ملوث بہت سے چہرے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ 2014 میں نواز شریف کی حکومت گزارنے کے لئے 126 دن کا دھرا دیا گیا تھا۔ اس زمانے میں تحریک انصاف کے سینئر رہنما جاوید ہاشمی نے یہ راز افشاء کیا تھا کہ نواز شریف کو عدالت کے ذریعے سیاست سے بے دخل کرنے کی ساز ش تیار کی گئی ہے۔ اس دھرنے سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکے تھے۔ اس کے بعد پانامہ لیکس کا کھیل کھیلا گیا۔ نومبر 2016 میں دی سنڈے گارڈین نے ایک رپورٹ میں پیش گوئی کی تھی کہ نواز شریف کو 2017 کے وسط تک عدالتی فیصلے کے تحت وزارت عظمی سے فارغ کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد سب کچھ ویسے ہی ہوا جیسا جاوید ہاشمی اور دی سنڈے گارڈین کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا۔ پانامہ لیکس کی بنیاد پر نواز شریف کو عدالتی فیصلے کے تحت نااہل ہونا پڑا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی اس کھیل سے جڑے اہم حقائق بے نقاب کر چکے ہیں۔ یہ سارا سیاسی کھیل اب تاریخ کا حصہ ہے۔
نواز شریف ایک مرتبہ پھر سیاست کے میدان میں موجود ہیں۔ ان کی پارٹی نے انہیں وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے۔ صحافتی تجزیوں میں بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کے چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے روشن امکانات ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک ریکارڈ ہو گا۔ میرا نہیں خیال کہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں کوئی شخص چار مرتبہ کسی ملک کا سربراہ رہا ہو۔ بہرحال انتخابات کے بعد صورتحال مکمل طور پر واضح ہو جائے گی۔وطن واپس پہنچ کر نواز شریف نے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ یہ ایک کامیاب جلسہ تھا۔ ان کی جماعت اور چاہنے والوں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ نواز شریف کی تقریر کو بھی سراہا گیا ہے۔ ان کی تقریر سے پہلے ان کے قریبی ساتھ سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ نواز شریف کی تقریر ایک مدبر کی تقریر ہو گی۔ یہ واقعتا مدبرانہ انداز میں کی گئی تقریر تھی۔ نواز شریف نے اپنی تقریر میں مستقبل کے لائحہ عمل کا نقشہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا درست ہے کہ پاکستان کے حالات ٹھیک کرنے کے لئے ریاستی اداروں، سیاسی جماعتوں اور ریاست کے ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ڈبل اسپیڈ سے محنت سے کام کرنا ہو گی۔ ان کی تقریر کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ انہوں نے تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کا نام لینے سے گریز کیا۔ ان کی وطن واپسی سے قبل میڈیا پر یہ نکتہ زیر بحث آتا تھا کہ آیا وہ انتقام کی سیاست کریں گے یا درگزر کی۔ جو کچھ ان کی ذات ، ان کے خاندان اور پارٹی کے دیگر افراد کے ساتھ ہوا، اس کا بدلہ لیں گے یا اپنی توانائی ملکی ترقی کے لئے وقف رکھیں گے۔ خوش آئند امر ہے کہ نواز شریف نے دوٹوک انداز میں پیغام دیا کہ ان کے دل میں انتقام کا کوئی جذبہ نہیں ہے۔ وہ بدلہ لینے کے آرزومند نہیں ہیں۔
اس وقت ہمیں جن بحرانوں کا سامنا ہے، ہمارا ملک انتقامی سیاست کا متحمل ہو بھی نہیں سکتا۔سب جانتے ہیں کہ عمران خان اپنے دور حکومت میں کھلے عام اس بات کا عزم کیا کرتے تھے کہ وہ شریف خاندان کو نشان عبرت بنائیں گے اور انہیں رلائیں گے۔ شریف خاندان کے متعلق ان کی تضحیک آمیز باتیں میڈیا کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ میاں صاحب نے بہت اچھا کیا جو عمران خان جیسا لب و لہجہ اختیار نہیں کیا۔ ان کا یہ جذبہ بھی قابل تحسین ہے کہ وہ بدلے کی خواہش نہیں رکھتے۔ گزشتہ چار، پانچ سال سے لندن میں ان کے گھر اور دفتر کے باہر تحریک انصاف کے کچھ افراد موجود رہتے ہیں۔ یہ لوگ نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کو دیکھ کر ان پر چور چور کے آوازے کستے ہیں۔ انہیں اشتعال دلاتے ہیں۔ پاکستان آنے سے پہلے لندن کے دفتر میں جب نوازشریف کا وہاں آخری دن تھا، تحریک انصاف کے چند حامیوں نے اس دن بھی ان کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس رویے کے برعکس نواز شریف نے اپنی تقریر میں نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ گالی کا جواب گالی سے دینے کے بجائے، تحمل سے کام لینے کی عادت اپنائیں۔
اپنی تقریر میں نواز شریف نے ملک کے معاشی بحران کا ذکر کیا۔ بتایا کہ ان کے دور حکومت میں حالات مختلف تھے۔ انہوں نے یاد دلایا ہے کہ ان کے دور میں روٹی 4 روپے کی تھی جو آج 20 روپے کی ہے۔ ڈالر 105 روپے کا تھا جو آج 280 روپے کا ہے۔ چینی کی قیمت 50 روپے تھی۔ پٹرول 60 روپے میں ملتا تھا۔ اعداد و شمار پر مبنی ان حقائق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف کی سیاست سے اختلاف کی گنجائش یقینا موجود ہوگی۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے دور حکومت میں ملک کے حالات بہتر تھے۔ 2013 میں انہوں نے اقتدار سنبھالا تو ملک بجلی کے بدترین بحران کا شکار تھا۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی۔ انکی حکومت میں چین کے تعاون سے بجلی کے کارخانے لگے اور 16000 میگا ووٹ بجلی پیدا ہوئی۔یہ حقائق بھی تاریخ کا حصہ ہیں کہ نواز شریف کے دور حکومت میں معیشت کی شرح نمو 6 فیصد تھی۔ سٹاک ایکس چینج 54000 کی حد کو چھو رہی تھی۔ مہنگائی خطے میں کم ترین سطح پر تھی۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب ڈالر 100 روپے کاہو گیا تھا۔ مخالفین لاکھ ہدف تنقید بنائیں لیکن نوازشریف نے موٹر ویز کا جال بچھایا۔ عوام کو میٹروز اور اورنج ٹرین دیں۔ دہشت گردی کے جن کو بوتل میں بند کیا۔
غیرجانبداری سے دیکھا جائے تو نواز شریف کا وطن واپس آنا خوش آئند ہے۔یوں بھی اب جیلوں، جلا وطنیوں، سازشوں کے ذریعے حکومتیں گرانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ برسوں قبل محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت کیا تھا۔ اس سے پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ کے مابین تعلقات بحال ہوئے تھے۔ اللہ کرئے کہ اب نواز شریف کو موقع ملے تو وہ ایک مرتبہ پھر میثاق جمہوریت کریں اور میثاق معیشت بھی۔ امید ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے۔ عوام کا جو بھی فیصلہ ہوا اسے قبول کیا جائیگا۔ کاش انتخابات کے بعد جس بھی جماعت کی حکومت بنے اور جو بھی وزیر اعظم منتخب ہو، اسے کام کرنے دیا جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کوئی ایک وزیر اعظم بھی اپنی مدت اقتدار مکمل نہیں کر سکا۔ کاش اس مرتبہ ہماری سیاسی تاریخ کا رخ تبدیل ہو جائے۔