نئی سیاسی جماعت کس لیے؟

(گزشتہ سے پیوستہ) ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سینئر صدر اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کے ساتھ سابقہ وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل جن کا تعلق بھی مسلم لیگ (ن) سے ہے اور سابقہ سینٹر مصطفےٰ نواز کھوکھر جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے رہا ہے، کے فکر و نظر کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔ یہ تینوں ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کے نتیجے پر کیسے پہنچے اس کے اسباب و علل کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ ان تینوں کے اپنی جماعتوں کی اعلیٰ ترین قیادت سے گِلے شِکوے اور شکر رنجی ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے موجودہ سیاسی جماعتوں کی ناقص کارکردگی اور مُلکی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی جیسے معاملات کو باقاعدہ بحث کا موضوع بنایا اور اس کے لیے ” ایمرجنگ پاکستان ” کے نام سے ایک تھینک ٹینک یا فورم تشکیل دے کر اِس کے زیرِ اہتمام ملک کے بڑے شہروں میں ملکی مسائل و معاملات اجاگر کرنے کے لیے باقاعدہ سیمینارز منعقد کرنا شروع کیے۔ ان سیمینارز میں سیاسی شخصیات کے ساتھ قومی زندگی کے اہم شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات کو بھی اظہارِ خیال کے لیے بلایا جاتا رہا۔ جناب شاہد خاقان عباسی، مصطفےٰ نواز کھوکھر اور مفتاح اسماعیل اور اُن کے ساتھ بعض دیگر اہم شخصیات کی طرف سے قومی معاملات و مسائل کو زیرِ بحث لا کر ان کا حل ڈھونڈنے کی اِس پیش رفت کو جہاں بلوچستان جیسے چھوٹے صوبے ہیں پزیرائی ملی، وہاں سیاسی جماعتوں جن سے ان کا تعلق تھا یا اب بھی ہے اور بعض دوسرے حلقوں کی طرف سے اِسے کسی نئی سیاسی جماعت کے قیام کی تمہید بھی گردانا گیا۔ اس پر مستزاد مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی طرف سے محترمہ مریم نواز کو مسلم لیگ (ن) کا سینئر نائب صدر کا عہدہ تفویض کر کے انہیں مسلم لیگ (ن) کا چیف آرگنائزر مقرر کرنے کے فیصلے سے بھی جناب شاہد خاقان عباسی کے تحفظات ہی نہ سامنے آئے بلکہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ ترین قیادت سے انکی شکر رنجی میں بھی اضافہ ہوا۔

اس میں کوئی شک نہیں "ایمرجنگ پاکستان ” کے فورم کو شروع شروع میں اچھی پذیرائی ملی۔ پشاور اور کوئٹہ میں اس کے سیمینارز بڑے توجہ کا مرکز رہے اور بلوچستان سے لشکری ریئسانی اور بعض دوسری اہم شخصیات جناب شاہد خاقان عباسی اور مصطفےٰ نواز کھوکھر کے ہم خیالوں کی صورت میں سامنے آئیں۔ تاہم یہ عجیب بات ہوئی کہ "ایمرجنگ پاکستان” جس کے تحت چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قومی مسائل کے حوالے سے سیمینارز کا انعقاد ہونا تھا۔ وہ سلسلہ پوری طرح پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ ہاں البتہ شاہد خاقان عباسی، مصطفےٰ نواز کھوکھر اور مفتاح اسماعیل کی طرف سے ٹی وی چینلز کے حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں میں ملکی مسائل و مشکلات کے حل میں موجودہ سیاسی جماعتوں کی ناکامی کا تذکرہ بدستور جاری رہا۔ دبے لفظوں میں ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت کا تذکرہ بھی ہوتا رہا لیکن یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ یہ تینوں محترم حضرات خاص طور پر جناب شاہد خاقان عباسی اور مصطفےٰ نواز کھوکھر سیاسی جماعت کے قیام کے بارے میں کوئی دو ٹوک بات یا حتمی پروگرام پیش کرنے سے قاصر رہے۔ بس آئیں، بائیں، شائیں یا زیادہ سے زیادہ اس حد تک کہ ہم خیال لوگ اکٹھے ہو کر ایک نئی سیاسی جماعت بنائیں یا بنا سکتے ہیں۔ ہم خیال کون ہیں اور ان کو اکٹھا کس نے کرنا ہے ان سوالوں کا کوئی جواب آج تک سامنے نہیں آیا ہے۔

یہاں اس پہلو کا تذکرہ بے جا نہیں ہو گا کہ سیاسی جماعتوں کے قیام اور ان کی مقبولیت کے حوالے سے ہمارے ہاں ہمیشہ کچھ عوامل اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ ان میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد اور کچھ مخصوص عناصر کی سرپرستی کو فوقیت حاصل رہی ہے۔ زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے۔ نومبر 1988ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بڑا توانا تھا۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا گیا اور میاں محمد نواز شریف کو پیپلز پارٹی مخالف بیانیے کے ساتھ سامنے لایا گیا۔ اس طرح اسٹیبلشمنٹ کے تعاون اور مدد کے ساتھ وہ قومی سیاست میں بتدریج اپنا مقام بنانے میں کامیا ب ہو ئے۔ تین بار وہ ملک کے وزیراعظم رہے، اس دوران وہ ملکی تعمیر و ترقی کے ایجنڈے کو آگے لے کر چلے تو ان کا ووٹ بینک مزید مستحکم ہو ا۔ جناب عمران خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا۔ انہوں نے تحریکِ انصاف قائم کی تو کچھ اہم شخصیات ان کے ساتھ تھیں لیکن اس کے باوجود وہ پذیرائی حاصل نہ کرسکے۔ 2011ء میں اسٹیبلشمنٹ نے ان کی سر پرستی کا فیصلہ کیا تو وہ آگے بڑھنا شروع ہوئے۔ میاں محمد نواز شریف کی وزارتِ عُظمیٰ کے تیسرے دور میں (20/3/2017) ان کی سرپرستی اس انتہا کو پہنچی کہ جولائی 2018ء کے انتخابی نتائج کو باقاعدہ ردوبدل کر کے وزارتِ عُظمیٰ کا ہُما ان کے سر پر بٹھا دیا گیا۔ تین ساڑھے تین سال اسٹیبلشمنٹ کے سا تھ ایک پیج پر ہونے کی برکات سے فیض یاب ہوتے رہے۔ 2021ء کے آخر میں ایک پیج پر ہونے میں رخنہ پڑا تو اپریل 2022ء میں قومی اسمبلی میں اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں انہیں حکومت سے محروم ہونا پڑا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔

اب جناب شاہد خاقان عباسی، مصطفےٰ نواز کھوکھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر نئی سیاسی جماعت کے قیام کی تبلیغ و ترویج کر رہے ہیں تو بظاہر اس کی پذیرائی کے کچھ ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو دیکھا جائے تو انہیں اگرچہ اپنی سولہ ماہی حکومت کے ملبے کو اٹھانے کا سامنا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی بڑی توڑ پھوڑ کا شکار ہیں کہ ان کے بطن سے کوئی نئی سیاسی جماعت جنم لے سکے۔ یہ دونوں جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ (ن) سنبھلنے کی کوششوں میں مصروف ہے جس میں کامیابی کے آثار بھی سامنے آ رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف ضرور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے لیکن اس کے بطن سے دو سیاسی جماعتیں پہلے ہی جنم لے چکی ہیں یا پھر اس سے تعلق رکھنے والے ایسے سیاست دان سامنے آ چکے ہیں جنہوں نے سیاست سے علیحدگی کے اعلان کر رکھے ہیں۔ لے دے کے ایک ہی پہلو یا آپشن باقی بچتا ہے وہ یہ کہ شاہد خاقان عباسی اور مصطفےٰ نواز کھوکھر کو کسی غیبی طاقت کا اشارہ ملا ہواور حمایت و تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہو۔ اس طرح وہ نئی سیاسی جماعت کے قیام کی راہ پر چل پڑے ہوں۔ ایسا ہے یا نہیں اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ کسی نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ہٹی چلنے والی نہیں۔