یوری گیگرین خلا میں جانے والا پہلا انسان تھا، اس کا تعلق روسی فضائیہ سے تھا، 1961 میں وہ پہلے خلائی سفر پر روانہ ہوا اور زمین کے گرد چکر لگا کر واپس آیا۔ اس کی زمین پر کامیاب لینڈنگ کے بعد روس کے اس وقت کے صدر خروشچیف نے پریس کانفرس کی اور مذہب پر طنز کرتے ہوئے کہا: ”یوری گیگرین نے آسمان پر جا کر ہر طرف دیکھا ہے لیکن اسے کہیں خدا نظر نہیں آیا“۔ اس سے قبل انیسویں صدی کے آخر میں نطشے نے اعلان کیا تھا: ”خدا مر چکا ہے“، 1999 میں مشہور برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے اپنی اشاعت کے سرورق پر لکھا: ”خدا مر چکا ہے“۔ خدا اور مذہب کا انکار ہر دور میں رہا ہے لیکن دور جدید میں علوم و فنون کی ترقی اور سائنس نے خدا اور مذہب کے انکار کو بہت آسان کر دیا ہے۔ یورپ میں اس وقت ذہین ترین لوگ مذہب اور خدا کے خلاف بڑے شد و مد کے ساتھ لکھ رہے ہیں اور وہاں کا ذہین ترین طبقہ مذہب اور خدا کو سماج سے نکالنے پر صلاحیتیں صرف کر رہا ہے۔ اکیسیویں صدی میں مغرب میں جن ذہین ترین دماغوں نے مذہب اور خدا کے خلاف ٹھوس مقدمہ قائم کیا ہے ان میں پانچ نام زیادہ مشہور ہیں، رچرڈ ڈاکنز، اسٹیفن جے گولڈ، سیم ہیرث، کرسٹوفر ہیچنز اور یووال نواح ہراری۔ رچرڈ ڈاکنز کو الحاد کا باوا آدم کہا جاتا ہے، یہ بنیادی طور پر کینیا میں پیدا ہوا تھا لیکن بعد میں برطانیہ شفٹ ہو گیا۔ برطانیہ میں یہ 1995 سے 2008 تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر آف پبلک انڈر سٹینڈنگ آف سائنس رہا۔ 2006 میں اس نے ایک کتاب دی گاڈ ڈیلوژن (خدا کا واہمہ) کے عنوان سے لکھی اور 2010 تک اس کے بیس لاکھ نسخے فروخت ہوئے اور یہ دنیا کی بیسٹ سیلر کتب میں شامل ہوئی۔ اس میں اس نے لکھا کہ مذہب تمام مسائل کا ذمہ دار ہے اور مذہب کی حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص مستقل مغالطے کا شکار ہو اسے جنون کہتے ہیں اور اگر کوئی قوم مستقل مغالطے کا شکار ہو تو اسے مذہب کا عنوان دے دیتی ہے۔ اس کا لکھنا تھا کہ مذہب تمام سوالات کے جوابات نہیں دے سکتا۔ ملحدین مذہبی لوگوں کی نسبت زندگی کو زیادہ انجوائے کرتے ہیں، زیادہ خوش ہوتے ہیں، زیادہ با صلاحیت ہوتے ہیں، زیادہ توانا ہوتے ہیں اور ان کی زندگی خوشحال گزرتی ہے۔ رچرڈ ڈاکنز ابھی حیات ہے اور تقریباً 86 سال کا ہو چکا ہے۔ دوسرا اہم نام اسٹیفن جے گولڈ ہے، یہ حیاتیات کا ماہر تھا، دنیا کی مشہور ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا، اسے نظریہ ارتقا کا باوا آدم کہا جا سکتا ہے۔ اس نے نظریہ ارتقا کا سہارا لے کر مذہب اور خدا کے انکار کے راہ ہموار کی۔ یہ مئی 2002 میں وفات پا چکا ہے۔ تیسرا نام سیم ہیرث کا ہے، یہ امریکن فلاسفر اور نیورو سائنٹسٹ ہے، اس وقت 56 سال عمر ہے، لاس اینجلس کیلی فورنیا میں رہائش پذیر اور مذہب مخالف تحریروں کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس کی کتاب کا نام دی اینڈ آف فیتھ ہے۔ اس میں اس نے لکھا کہ مغربی سماج میں عقیدے کا اختتام ہو چکا ہے اور اب خدا اور عقیدے کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ چوتھا نام کرسٹوفر ہیچنز کا ہے، یہ برطانوی صحافی تھا، 2011 میں وفات پا چکا ہے۔ یہ بھی مذہب مخالف تحریروں کے حوالے سے مشہور تھا۔ اس نے بیسٹ سیلر کتاب لکھی جس کا عنوان گاڈ از ناٹ گریٹ تھا۔ پانچواں نام یووال نواح ہراری کا ہے، یہ اسرائیلی مؤرخ اور فلسفی ہے، خود بھی نوجوان ہے اور نوجوان نسل میں مقبول ہے۔ اس نے مذہب اور خدا کے انکار کے حوالے سے بیسٹ سیلر کتب لکھی ہیں جن میں سیپئنز اور ہومو دیوس مشہور ہیں۔ اس کا استدلال بہت مضبوط ہے اور عام قاری اس کے استدلال کے سحر میں جکڑ جاتا ہے۔ یہ اعلانیہ ”گے“ ہے، خود اس کا اقرار کرتا ہے اور اس نے اپنی بیسٹ سیلر کتابوں کا انتساب اپنے ”ہسبینڈ“ کے نام کیا ہے۔ سچ ہے کہ خدا جب کسی کی مت مار دیتا ہے تو پھر یہی کچھ صادر ہوتا ہے۔
ان پانچوں ذہین ترین مصنفین کا استدلال، جدید علم اور سائنس کا دعویٰ ہے کہ حقیقت صرف وہی ہو سکتی ہے جو تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہو اور مذہب اور خدا کو تجربے اور مشاہدے سے ثابت نہیں کیا جا سکتا لہٰذا مذہب اور خدا کا وجود ناممکن ہے۔ یہ تثلیث کہتی ہے کہ ماضی میں لوگوں نے مذہب اور خدا کا نظریہ کیوں گھڑا اس کی کچھ وجوہات تھیں، مثلاً ماضی میں لوگوں کے پاس علم کم تھا اور ان کے پاس کائنات اور انسان کی کوئی جسٹیفکیشن نہیں تھی اس لیے انہوں نے کائنات اور انسان کے بارے میں عجیب و غریب عقائد گھڑ لیے تھے۔ موجودہ دور میں انسانی علم نے ارتقا کر کے بہت ساری کامیابیاں حاصل کر لی ہیں لہٰذا آج انسان کو ان قدیم عقائد اور توہمات میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب خالص تجربات و مشاہدات کی روشنی میں کائنات اور انسان کو سمجھنا چاہئے۔ نیوٹن نے لا آف نیچر کے تحت ثابت کر دیا ہے کہ یہ کائنات، زمین، ستارے اور سیارے چند متعین قوانین کے تحت چل رہے ہیں ان کو کسی خدا نے بنایا ہے، پابندکیا ہے اور نہ ہی وہ انہیں چلا رہا ہے۔ ماضی میں انسان سمجھتے تھے کہ خدا سورج کو مشرق سے نکالتا اور مغرب میں غروب کرتا جبکہ آج ثابت ہو گیا ہے کہ سورج کے طلوع و غروب کا تو کوئی تصور نہیں ہے، سورج اپنی اور زمین کی گردش کے سبب ہمیں طلوع و غروب ہوتا دکھائی دیتا ہے بس۔ گویا خدا کو ماننے کی جو فطری مجبوری تھی اب وہ ختم ہو چکی ہے۔ اس طرح نفسیات کے میدان میں انسانی علم نے بہت ترقی کر لی ہے اور اب اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ مذہب اور مذہبی عقائد انسانی نفسیات نے خود گھڑے تھے۔ مثلاً ماضی میں انسان جب کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی توجیح از خود نہیں کر سکتا تھا تو اس نے ایک ایسے خدا کو فرض کر لیا تھا جو اسے آفتوں سے بچاتا اور اس کی مدد اور حفاظت کرتا تھا۔ جس کو وہ مصیبت میں پکار سکے اور کسی ماوراء ہستی کا وجود مان کر ذہنی طور پر اطمینان حاصل کر سکے۔ اسی طرح ماہرین تاریخ نے انسانی تاریخ پر غور کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ مذہب کو انسان نے کچھ مجبوریوں کے تحت فرض کر لیا تھا۔ مثلاً بادشاہوں نے اپنی حکومتیں مستحکم رکھنے کے لیے اور سماج کو منظم رکھنے کے لیے مذہب کو گھڑا۔ انسانوں نے زمینی بادشاہت کو آسمانی بادشاہت پر قیاس کرتے ہوئے خدا کا وجود مان لیا۔ کارل مارکس اور اشتراکیت بھی مذہب کو انسانی فریب اور انسان کا گھڑا ہوا قرار دیتے ہیں۔ اشتراکیت کا کہنا ہے کہ خدا اور مذہب کا تصور سرمایہ دار کا گھڑا ہوا ہے کہ اس نے غریب عوام کو خدا، مذہب اور آخرت کے نام سے تسلی دیئے رکھی اور خود مال و دولت سمیٹتا رہا۔ یہ وہ بنیادی مقدمہ ہے جو پچھلی ایک دو صدی میں مذہب اور خدا کے خلاف گھڑا گیا اور اکیسیویں صدی کے ذہین ترین دماغ اسے استدلال فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے رد پر بات ہم اگلے کالم میں کریں گے۔