رستم کیانی سے قاضی فائز صاحبان تک

پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل سر فرینک والٹر میسروی جبکہ جنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی دوسرے آرمی چیف تھے۔ اسی طرح پہلے چیف جسٹس آف پاکستان سر میاں عبدالرشید تھے جو ریٹائرمنٹ پر اپنے قلم کی سیاہی بھی عدالتی دوات میں نچوڑ گئے تھے۔ جسٹس ایم آر کیانی مغربی پاکستان کے چیف جسٹس تھے۔ وہ چیف جسٹس محمد منیر کے ایوب خان کا اقتدار حلال قرار دینے والے واقعہ میں شامل نہیں تھے۔ جس طرح لیاقت علی خان کے بعد اور ایوب سے پہلے حکومتیں بدلیں ہمارے عدالتی حالات ایم آر کیانی کے بعد تسلسل سے چلے آئے ہیں درمیان میں اگر کوئی وقفہ آیا ہے تو وہ بھی حکم حاکم سے ہی آیا ہے۔ جسٹس افتخار چودھری کے دور میں وکلا کی عدلیہ آزادی تحریک دراصل مشرف کے خلاف ایک جنرل کی تحریک تھی جس نے گھبرانا نہیں اور نوکری کی ضمانت دے رکھی تھی اور پھر ایک سکرپٹ کے مطابق نواز شریف کو گوجرانوالہ تک جلوس کی صورت جانا پڑا اور چودھری اعتزاز احسن کو عدلیہ بحالی کا فون آ گیا۔ اس میں عدلیہ بحال یا آزاد ایسی ہوئی کہ اب ماتحت عدالتی افسران روزانہ عزت اور جان بچا کر گھر پہنچنے پر شکر گزار ہوتے ہیں۔ وکلا کی شاندار روایات جانے کہاں کھو گئیں۔ موسیٰ سے مارکس تک تو مولانا عبدالغفور حیدری سمیت اکثر لوگوں نے پڑھی ہے وہ جنرل گریسی ایوب خان سے باجوہ تک، جسٹس منیر سے بندیال اور جسٹس رستم خان کیانی سے جسٹس جناب فائز عیسیٰ تک کے بارے میں کیا سچائی کہہ سکتے ہیں اور لیاقت علی خان سے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید تک۔ یقین کریں 3249 سال بلکہ 5 ہزار سالہ یا 7 ہزار سالہ تاریخ اتنی معدوم نہیں جتنی 75 سالہ تاریخ مسخ شدہ ہے لہٰذا تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تاریخ کا پہلے درست ہونا لازمی ہے۔ قوم کے سامنے سچ آنا لازمی ہے ورنہ یہ سفر یونہی چلتا رہے گا۔ اگلے دن محترمہ مریم نواز نے کہا کہ اگر نواز شریف کا دور تاریخ سے نکال دیں تو پاکستان میں کھنڈرات بچتے ہیں۔ محترمہ اگر ایٹمی ٹیکنالوجی پر گریٹ بھٹو سولی نہ جھول چکے ہوتے تو نواز شریف شادی بیاہ پر چلنے
والے بموں سے ہی محظوظ ہو رہے ہوتے۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ آپ کے علم سے محروم ہے اگر جمہوریت و سول سپرمیسی کے لیے پیپلز پارٹی کی جدوجہد کو نکال دیا جائے تو وطن عزیز میں سیاست ڈرائنگ روموں میں ہونے والی دلالی کے سوا کیا ہے؟ ن لیگ پہلے اور پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر عوامی جماعتیں جبکہ پی ٹی آئی یا عمران نیازی گوروں کے ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں اور ٹویٹر پر مقبول پائے جاتے ہیں۔ کون پڑے اس دلدل میں کہ جناب رستم کیانی سے جناب فائز عیسیٰ (تاریخ ساز جج) تک، ایوب سے جنرل باجوہ تک کیا ہوا۔ ملک کی زیادہ تر آبادی چشم دید گواہ ہے مگر جو پاکستان 1992 کو معرض وجود میں آنے کا سمجھتے ہیں ان کا کیا کروں۔ ایک ”دانشور“ لکھتا ہے پیپلز پارٹی 1985 میں ہی پنجاب سے فارغ ہو گئی تھی جبکہ تمام ریاستی قوت اور مکمل سرمایہ اس کام کے لیے لگایا گیا مگر بی بی شہید کی شہادت تک اور گیلانی صاحب کی وزارت، زرداری کی مصالحتی صدارت اور ورکر سے عدم رابطہ تک پیپلز پارٹی پنجاب کی بڑی جماعت رہی۔ خود موصوف تین دن حوالات میں رہے اور کالموں کی سیریز لکھ دی جیسے دنیا میں اس سے بڑا ظلم کبھی نہ ہوا ہو گا۔
چھوڑیے سب باتیں اور حکیم اجملؒ کی ضیافت میں چلتے ہیں۔ بقول اخلاق احمد دہلوی کے، جب وہ ابھی نوخیز بچے ہی تھے۔ ”دستر خوان چنا گیا، پہلے تو سلفچیاں اور آفتابے لیے ملازم آئے اور انہوں نے سب مہمانوں کے بیسن سے ہاتھ دھلوائے، نیچے کی نشست تھی اور سب آلتی پالتی مارے دستر خوان کے اطراف میں بیٹھے تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کھانے کی دعوت نہیں کسی مشاعرے کی محفل ہے۔ سب سے پہلے تو دو چاندی کی طشتریاں لائی اور دستر خوان کے بیچوں بیچ رکھ دی گئیں۔ ان طشتریوں میں سے ایک میں زردہ تھا اور ایک میں بالائی۔ سب حیران تھے کہ 50 آدمیوں میں یہ ایک ایک طشتری زردے اور بالائی کی کیا ہو گی۔ ملازم سفید برف سے خانپوشوں سے ڈھکے ہوئے ایک ایک چاندی کی تھالی میں ایک ایک پراٹھا لائے جو پراٹھا تھا نہ شیر مال، باقرخانی نہ روغنی روٹی۔ جس کا دَل چائے کی پیالی کے برابر تھا اور قطر عام شیر مال یا میدے کے پراٹھے سے کچھ بڑا۔ سب سے پہلے حکیم صاحب نے خود ایک پراٹھے کا پرت اوپر کا اتارا اور سارا دالان مشک عنبر اور زعفران کی خوشبو سے معطر ہو گیا۔ حکیم صاحب کی نقل میں سب مہمانوں نے بھی ان کی طرح اوپر کا پرت اتارا اور دیکھا کہ اس پرت کے نیچے خانے سے بنے ہوئے ہیں اور ایک خانے میں قورمہ ہے، ایک میں بھنا ہوا مرغ، ایک میں تلی ہوئی مچھلی اور ایک خانے میں نرگسی کوفتے۔ یہ تو تھے سالن کے خانے جو اس پراٹھے کے پرت کے نیچے آدھے حصے میں تھے باقی کے آدھے حصے میں بریانی تھی اور یہ سب کھانا ملا کر اس ایک جادو کی روٹی میں کوئی چار آدمیوں کے لیے تھا۔ اس روغنی روٹی کے ہر خانے میں سے مشک عنبر اور زعفران کی لپٹیں آ رہی تھیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس ترکیب سے کس تنور میں کس نانبائی نے یہ پراٹھا سینکا ہوگا اور کیسے یہ اتنی وضع کے سالن اور بریانی اس ہنر مندی سے خانے بنا کر اس میں رکھے۔ روٹی یا نان کی جتنی قسمیں ممکن ہیں ان میں سے یہ نہیں تھی مہمان حیران تھے کہ اس ایک پراٹھے کے پرت سے جو چار پانچ روغنی نان کے برابر تھا کیسے یہ سب سالن کھائے جائیں اور کسی سے بھی یہ سب کچھ باوجود بے حد لذیذ ہونے کے پورا نہ کھایا جا سکا۔ معلوم ہوا یہ سالن جو اس پراٹھے کے ہر خانے میں تھے اس طرح پکائے گئے تھے کہ اگر انہیں سال بھر رکھ لو تو یہ سوکھ سکتے ہیں۔ سڑ نہیں سکتے اور ایسے زود ہضم کہ بیماری سے اُٹھے ہوئے مریض بھی یہ کھا لیں تو کوئی نقصان نہ ہو، مرغن ہونے کے باوجود۔
تاریخ کی درستی ایک کالم نہیں کتابوں کی سیریز مانگتی ہے۔ سول سپرمیسی مزید دلدل میں اتر چکی ہے لوگ نہ جانے وہی ماحول کیوں دیکھ رہے ہیں جو جسٹس کیانی نے بنایا تھا۔ حکومت پر حکومت بدلتی رہی، یہاں تک کہ آئین منسوخ ہو گیا، قوم اپنے حقوق سے محروم ہو گئی اور مارشل لا لگ گیا۔ کیانی صاحب کے الفاظ میں یہ بات سنیئے ”آنکھ کھولی تو ایک نیا عالم تھا یعنی مارشل لا تھا۔ ان کی نرگسی آنکھیں وہ حالات پیدا کر دیتی ہیں کہ جِن و مَلک یعنی بُرے اور بھلے اپنی پرواز میں رُک جاتے ہیں۔ اختلاف لیل و نہار نہیں رہتا یعنی رات ہی رات رہ جاتی ہے۔ دل و دماغ اور آئین و قانون سب کچھ معطل ہو جاتا ہے“۔