نجکاری کیوں ضروری ہے؟

قومی معیشت کی حالت بہت پتلی ہو چکی ہے بجٹ خسارہ، تجارتی خسارہ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور نجانے کون کون سے خسارے مل جل کر اسکی سانسیں دشوار بنا رہے ہیں پی ڈی ایم اتحادی حکومت کے خلاف بہت سی باتیں کی جاتی ہیں انکی کارکردگی بارے کئی سنجیدہ سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں جو بڑی حد تک درست بھی ہونگے لیکن ہمیں ایک بات ضرور تسلیم کرنی چاہئے کہ جب اپریل 2022 میں اتحادیوں نے حکومت سنبھالی تو پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے پر کھڑا تھا کچھ ماہرین تو یہ بھی کہتے پائے گئے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر چکا ہے اب صرف اعلان ہونا باقی ہے ایسے ماحول میں شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت نے پاکستان کا اعتماد بحال کرنے اور اسے ایک بار پھر ”بیک ٹو ٹریک“ لانے کی انتھک کاوشیں کیں آئی اہم ایف کو منایا گیا۔ معاہدہ ہوا۔ ہمیں قسط ملی۔ عالمی برادری میں ہمارا اعتماد بحال ہوا۔ وگرنہ صورتحال یہ تھی کہ سعودی عرب، یو اے ای اور چین جیسے مخلص دوست ہماری مدد کرنا چاہتے تھے لیکن آئی ایم ایف کے بغیر وہ بھی ہاتھ کھینچے ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے 2019 میں آئی ایم ایف سے معاہدے پر دستخطوں کے بعد ڈٹ کر ان شرائط کے برعکس اقدامات اٹھانا شروع کر دیئے تھے جن پر خود دستخط کئے تھے۔
پی ڈی ایم اتحادی حکومت نے معیشت کو پٹڑی پر تو ڈال دیا لیکن آئی ایم ایف کی شرائط اور انکے تجویز کردہ ریفارمز پیکیج پر عمل درآمد کے نتیجے میں عوامی معیشت کا جنازہ نکل گیا۔ وصولیوں کے حجم میں اضافے اور انہیں یقینی بنانے کے لئے جو اقدامات اٹھائے گئے انکے نتیجے میں پیٹرولیم مصنوعات، گیس، بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے نے مہنگائی کی ایک سونامی پیدا کر دی جس میں عام آدمی کی معیشت مکمل طور پر تباہ و برباد ہو گئی۔ قدرِ زر میں کمی یا ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے نے رہی سہی کسر نکال دی۔ دو وقت کی روٹی خواب بنتی چلی گئی آج صور تحال یہ ہے کہ عوام ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی شب و روز محنت کرنے کے باوجود ترس رہے ہیں، بلوں کی ادائیگی مشکل ہو چکی ہے پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عوام نے اپنے طور پر احتجاجی تحریک چلائی۔ ہڑتال ہوئی اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی سے انکار کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا احتجاج دیکھتے میں نہیں آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس احتجاج کے اثرات مرتب نہیں ہو سکے حکومت نے عوامی احتجاج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے حکومت نے عوام کو رعایت دینے یا سہولت فراہم کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے اجازت طلب کی جو انہیں نہیں مل سکی، معاملات جوں کے توں ہی رہے۔عوام بیچارے رو دھو کر چپ نہیں ہوئے بلکہ رو دھو ہی رہے ہیں جبکہ حکمران اپنی ہی مستیوں میں مصروف ہیں۔
اصل مسئلہ آمدن و خرچ میں تفاوت کا ہے ہماری آمدن کم ہے اخراجات زیادہ ہیں یہ بات ہو رہی ہے قومی سطح پر آمدن اور خرچ کی۔ بجٹ 2023-24 کی۔ حکومت آمدن میں اضافے کے لئے ایک طرف ٹیکسوں میں اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے دوسری طرف عوام کو دی گئی رعایتیں ختم کرتی چلی جا رہی ہے توانائی شعبے کا گردشی قرضہ ایک ایسی آفت ہے جس سے جان چھڑانا ممکن نظر نہیں آتا ہے اس میں ایک نہیں کئی مسائل ہیں سرکار نے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ کچھ ایسی شرائط پر معاہدے کر رکھے ہیں جو سراسر عوامی مفاد کے برعکس ہیں۔ پہلی شرط ڈالروں میں ادائیگی، دوسری شرط کپیسٹی پے منٹ یعنی کمپنی کی پیداواری صلاحیت کی ادائیگی ہے اسطرح کروڑوں نہیں اربوں روپے ماہانہ کمپنیوں کو ادا کرنا پڑ رہے ہیں ہم بجلی لئے بغیر انہیں ادائیگی کرنے کے پابند ہیں اور وہ بجلی سپلائی کئے بغیر ہم سے رقوم لئے چلے جا رہے ہیں یہ عجیب چکر ہے جو اب گھن چکر بن چکا ہے اور اس نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے ہم نے کیونکہ معاہدے کر رکھے ہیں اور ان کمپنیوں کو عالمی سپورٹ بھی حاصل ہے اسلئے ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں کہ ادائیگیاں کرتے چلے جائیں اور عوام جائیں بھاڑ میں، ان کا دیوالیہ نکلتا ہے تو نکل جائے، اس کی کسی کو فکر اور پریشانی نہیں ہے۔ گزشتہ روز ہماری وزیر خزانہ شمشاد اختر نے بتایا کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں انہیں زندہ رکھنے کے لئے حکومت کو سالانہ 500 ارب خرچ کرنا پڑتے ہیں اسلئے ضروری ہے کہ ان سے جان چھڑانے کے لئے نجکاری کی جائے۔ بڑی اچھی تجویز ہے نجکاری کا فلسفہ بہت پرانا ہے دو دہائیاں یا اس سے بھی پہلے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب عالمی معیشت کچھ نئی جہتوں سے ہمکنار ہونے لگی تو اس فلسفے کا خاصا چرچا ہوا ہمارے پالیسی ساز بھی اسکے اسیر ہوئے اسے اپنایا بھی گیا۔ نجکاری کا فلسفہ تو یہ ہے کہ قومی خزانے پر بوجھ کو ختم کیا جائے اور اداروں کو فعال اور نفع بخش بنایا جائے۔ کیا ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی قابل ذکر یا قابل تقلید مثال موجود ہے کہ ہم نے اس فلسفے پر عمل پیرا ہو کر ہم نے طے کردہ اہداف حاصل کئے۔ ہم نے اب تک نجانے کتنے ایسے یونٹ پرائیویٹائز کئے جو ہمارے لئے بہت بڑا اثاثہ تھے ہم انکی کار کردگی میں بہتری لا کر نہ صرف قومی خزانے میں بہتری لا سکتے تھے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کر سکتے تھے ہم نے کئی بھلے چنگے ادارے بیچ ڈالے اسکی ایک بڑی مثال پی ٹی سی ایل ہے ہم نے اسکی نجکاری سے کیا حاصل کیا۔؟ اتصالات نے ہمیں ابھی تک طے شدہ رقم بھی ادا نہیں کی ہے اور وہ اس کے اثاثے بیچ کر کھانے کے چکروں میں ہے۔ ہزاروں افراد بے روزگار بھی ہو گئے۔ قومی خزانہ کروڑوں اربوں روپے سے بھی محروم ہو گیا۔ ہم نے بنک نجکاری کی نذر کئے ہمیں کیا حاصل ہوا چند افراد یا گھرانوں کی موجیں لگ گئیں انہوں نے بنک اونے پونے خرید کر اربوں روپے ماہانہ/ سالانہ آمدن اپنے نام لگوائی۔ ہمیں کیا ملا، ہزاروں افراد کی بے روزگاری۔ اب ایک بار پھر ہم زور و شور سے نجکاری کا ڈنکا بجانے لگے ہیں۔ ہم نے آئی ایم ایف کو بھی رپورٹ دینا ہے کہ ہم نے نجکاری کے حوالے سے کتنی پیش رفت کی ہے؟ کتنے ادارے نجکاری کے لئے تیار کئے ہیں اور کتنے پائپ لائن میں ہیں؟ 500 ارب کا بوجھ کب کم ہو گا اور کب ختم ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں درست ہیں کہ ریاستی اداروں کی سپون فیڈنگ بند ہونی چاہئے پاکستان سٹیل، پی آئی اے، پاکستان ریلویز، واپڈا وغیرہم جیسے کماؤ پوت اداروں کو تو نہ صرف اپنے اخراجات خود اٹھانے چاہئیں بلکہ نفع کما کر خزانے کا منہ بھرنا چاہئے نا کہ حکومت پلے سے انہیں 500 ارب سالانہ زندہ رکھنے کے لئے ادا کرے۔
ایک بات طے شدہ ہے کہ سرکار کا کام کارخانے اور کاروباری ادارے چلانا ہرگز نہیں ہے اور یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ کاروباری اداروں کو قائم رکھنے کے لئے اربوں روپے کی امداد فراہم کرنا بھی کار سرکار میں شامل نہیں ہے اسلئے اگر آئی ایم ایف ایسے اداروں سے گلو خلاصی کرانے پر زور دے رہا ہے تو درست ہے۔ حکومت کو جتنی جلدی ہو ایسے غیر منافع بخش اداروں سے جان چھڑا لینی چاہئے۔