قراقلی کاسہ اور کرپان

قراقلی ٹوپی اب بھی ہماری معاشرت میں کہیں کہیں معتبری کی علامت سمجھی جاتی ہو گی اس کے سفر  نے کاسے تک کی صورت ایک دن میں اختیار نہیں کی یہ باقاعدہ ایک تنزلی کا سفر ہے جو قراقلی سے کاسے تک آیا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کی تاریخ موجود ہے اور اس کو ایک معاشرتی اور سماجی مقام حاصل ہے۔ قراقلی، ٹوپی کی ایک قسم جو بھیڑ کی ایک نسل قراقل کی اون سے تیار کی جاتی ہے۔ اون کی وہ قسم جس سے یہ ٹوپی تیار کی جاتی ہے عرف عام میں استر، استر خان، براڈ ٹیل، قاراقولچا یا ایرانی مینڈھا کہلاتی ہے۔ قراقل کا لفظی مطلب کالی اون ہے۔ جو ترک زبان کا لفظ ہے۔ ٹوپی لمبوتری اور اس کے کئی حصے ہوتے ہیں اور سر سے اتارنے پر یہ سیدھی بھی کی جا سکتی ہے۔ قراقلی عام طور پر وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے مسلمان مرد پہنتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کا سفر جناح کیپ کی صورت میں ایک مقام پر رُکا اور اس کو ایک اہم ترین مقام حاصل ہوا۔ تحریک پاکستان کی مرکزی شخصیت محمد علی جناح نے آخری عمر میں اس ٹوپی کو استعمال کیا ان کو یہ ٹوپی ایسی جچی کہ اس کا نام جناح کیپ ہی پڑ گیا۔ بلوچستان، صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر کے عمر رسیدہ افراد میں خاص طور پر مشہور ہے۔ جناح کیپ کی ایک اور مشہور شکل رام پوری کیپ بھی ہے، جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان پہنا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ قراقلی افریقہ میں بھی مشہور ہے، یہ افریقی اور افریقی نژاد امریکیوں میں یکساں طور پر مشہور رہی ہے۔ قراقلی اب بھی افریقی اور افریقی نژاد امریکی جو مسیحی اور یہودی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، پہنتے ہیں۔ قراقلی کبھی سیدھی نہیں پہنی جاتی، بلکہ یہ سر پر ترچھی رکھی جاتی ہے۔ افریقہ میں تیندوے کی کھال کے طرز کی جناح کیپ نہایت مشہور ہے، لیکن یہ افریقی نژاد امریکیوں میں اتنی مشہور نہیں ہے۔ ایڈن مرفی نے اپنی مشہور فلم ”کمنگ ٹو امریکا“ میں قراقلی پہنی ہوئی تھی۔ بہرحال آگے چل کر اس ٹوپی یا شملے والی پگڑی کی عزت کا جو انحطاط ہوا وہ دراصل کردار کا انحطاط ہے قراقلی ٹوپی بعض اوقات خاندانی معاملات میں لڑکی لڑکے کے رشتے کرانے، دو متحارب گروہوں کے درمیان صلح کرانے، غلطی کر کے معافی مانگنے اور پھر عدالتوں میں ضمانتی مچلکے دینے کے کام آتی رہی۔ یہ کبھی پاؤں میں رکھ کر، کبھی سر سے اتار کر ہاتھوں میں پکڑ کر، اس کا واسطہ دے کر کسی سے کوئی بات منوانے کے لیے بھی استعمال کی گئی۔ جناح کیپ کہلانے والی قراقلی ٹوپی کی تاریخ لکھ چکا ہوں جو بقول چیف جسٹس (آمدہ) جناب قاضی فائز عیسیٰ کے والد صاحب کو پہنے دیکھ کر قائد اعظم نے پسندیدگی کا اظہار کیا اور اسے خریدا، گو دکاندار نے پیسے نہ لیے مگر قائد نے چیک دے دیا جو 200 روپے کا تھا وہ اس نے مسلم لیگ فنڈ میں جمع کرا دیا۔ گویا جناح کیپ نو مقرر چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے والد جناب قاضی محمد عیسیٰ صاحب کی وساطت سے جناح کیپ بنی۔ ہمارے ہاں حاکموں کے پہناوے کی لوگ ضرور نقل کرتے ہیں۔ ضیا الحق کے دور میں شیروانی کا رواج عام ہوا کیونکہ شیروانی میں اپنے گریبان میں جھانکنا ناممکن ہوتا ہے۔ ضیاالحق کے وقت میں ایک بار خبر پڑھی کہ لاہور ہائی کورٹ کے 10 جج صاحبان اعتکاف بیٹھ گئے ہیں شاید ہزاروں مقدمات ہوں گے جو انصاف کے متقاضی ہوں گے مگر لاہور ہائی کورٹ کے 10 جج صاحبان نے وقت کے حاکم کی اتباع کی اور منافقت کو منشور جانتے ہوئے اعتکاف کو انصاف سے بڑا ثواب کا کام سمجھا۔ آج حالت یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے جج صاحبان تو گورے کے لباس پینٹ، کوٹ، ٹائی میں ہوتے ہیں مگر قراقلی یا ویسی ٹوپیوں والے بیل بجانے پر حرکت میں آتے ہیں۔ ظلم عظیم یہ ہے کہ اسلامی رنگ یعنی ہرے رنگ کی سردیوں میں شیروانیاں بھی زیب تن کیے ہوتے ہیں۔ ایک دن میں ایک دوست، جو چودھری آدمی ہیں، کی شادی پر گیا تو دیکھا ایک مہمان نے قراقلی ٹوپی الٹی کر کے اس میں شاپر رکھا اور اس کے اندر خشک یعنی روسٹ مرغ کی بڑی بڑی بوٹیاں ڈال کر قراقلی کو کاسے میں تبدیل کر لیا۔ اگر دیکھا جائے تو قراقلی اور کاسے میں جو مشابہت ہے وزارت مانگنے اور بھیک مانگنے والوں کا فرق صرف قراقلی اور کاسے کا ہی ہے، باقی مانگنا تو اپنی اپنی بساط کے مطابق ہے۔ ذرا سی تبدیلی کے ساتھ پگڑی کا حشر بھی یہی ہوا ہے، ہوٹلوں کے باہر کھڑے دربان، رشتے اور صلح کرتے وقت یہ پاؤں میں پڑی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ ایک بزرگ پہلوان وفات پا گئے ہم یعنی میرے والد صاحب اور بھائی ان کے ہاں افسوس پر گئے تو وہاں معروف شخصیت سردار محمد داری پہلوان مرحوم موجود تھے قریب ہی ایک نامور شخصیت تھی، اچکن اور ٹوپی ان کا پہناوا تھا۔ میں نے سردار محمد داری پہلوان سے کہا کہ پہلوان جی آپ کے خیال سے یہ اچکن ٹوپی سے کیا آدمی معتبر بن جاتا ہے۔ کہنے لگے کہ غلط دراصل انسان اپنی حرکات و سکنات سے معتبر ٹھہرتا ہے۔ میں نے یہ کئی بار اتری دیکھی ہیں ٹوپی کہیں، عینک کہیں اور شیروانی کہیں پڑی ہوتی ہے اور تھانے میں آہ و بکا کی آوازیں ہوتی ہیں۔ انہی کے چھوٹے بھائی محمد امین عرف مینوں پہلوان ہمیشہ کونسلر ہوتے اور بہت مقبول تھے۔ وہ میرے پاجی محمد معظم صاحب کے پاس آئے کہ ایس ایچ او چودھری مجید وڑائچ سے ملاقات کرا دیں، تعارف ہو جائے۔ عوامی اور سماجی شخصیت ہونے کی وجہ سے لوگوں کے جائز کاموں کے سلسلے میں پہلوان تھانے جاتا رہتا تھا۔ تب معروف مذہبی و سیاسی شخصیت پائیا چودھری محمد بشر وڑائچ بھی ایس ایچ او کے حلقہ احباب میں تھے۔ پا جی نے گھر پر دونوں کا تعارف کرا دیا کہ پہلوان اپنا چاچا ہے اور چودھری اپنا بھائی ہے۔ پہلوان ایک دن ایک بندے کو ساتھ لے گیا اس نے قراقلی ٹوپی، گلے میں پرانے انداز کا پھول اور دائروں والا مفلر زیب تن کیا ہوا تھا اس کا تعارف کرایا کہ یہ اپنا بھائی اور دوست ہے اور فلاں جگہ رہتا ہے۔ اُس جگہ کا نام سن کر تھانیدار مجید وڑائچ نے کہا کہ یار پہلوان وہ فلاں (گالی دے کر) سالو شراب فروش تو پکڑاؤ۔ چاچا مینوں پہلوان کہنے لگا ’او جناب، یہی سالک لون سالو ہے جس کو آپ سالو شراب فروش کہہ رہے ہیں‘۔ وہ شراب فروشی سے تائب ہو گیا۔ آج حالت یہ ہے کہ کونسلر سے نگران وزارت تک، چپڑاسی سے اوپر تک اچھی جگہ (من پسند نفع بخش تعیناتی و تقرری) محلے سے لے کر گھر اور خاندان، بینکوں، مالیاتی اداروں سے لے کر آئی ایم ایف اور بیرونی ممالک تک ہماری قراقلی کاسہ میں بدل چکی ہے اور وہ بھی جب شرائط لکھتے ہیں تو قلم نہیں کرپان سے لکھ رہے ہیں، جس کا نتیجہ ہے کہ عوام بھی قراقلی کو ان دیکھا کاسہ بنائے ہوئے ہے۔ دراصل جو حاکم اپنے عوام پر کرپان سے کام لیتے ہیں تو بیرونی دنیا بھی انسانی بنیادوں نہیں کرپان کی دھار پر معاملہ کرتی ہے جب تک میرٹ، کارکردگی پر حوصلہ افزائی، ثقافتی و تہذیبی ہم آہنگی نہیں آتی حالات نہیں بدلیں گے۔ آج کوئی حاکم، حکمران طبقے، بیوروکریسی اور سٹیک ہولڈرز خور و نوش کی اشیا کی قیمتیں نہیں بتا سکتے۔ 80 کی دہائی کی بات ہے، ایک دفعہ میں نے اپنے وکالت میں استاد جناب خواجہ جاوید سے کہا کہ سر پاکستان کو تو اللہ ہی چلا رہا ہے ورنہ کوئی کسر باقی نہیں۔ انہوں نے کہا! نہیں، اس کو شیطانی قوتیں چلا رہی ہیں ورنہ یہ بہت عمدگی سے چل رہا ہوتا۔