زمانہ چال قیامت کی چل گیا

جسدِ قومی کو لاحق اخلاقی سرطان کی تشخیص (اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور) سامنے آنے پر پوری قوم دم بخود ہے۔ جب گزشتہ 22 سال دم سادھے رہے ہیں تو اب گھبرانا کیسا؟ 2001ءسے ہمہ نوع نت نئی امڈتی وباؤں بلاؤں پر قوم گویا دھتورا پیے پڑی رہی۔ بڑے بڑے ماہر نباض چپکے ہو رہے۔ اب تو جاتی اسمبلی سے دھڑادھڑ بل پاس ہوتے رہے، جو عموماً قوم کو ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدن‘ بنانے کے تکمیلی بل ہیں۔ ’جیھڑا اگے پیچھے دیکھے اُدھی شامت آئی جے‘ والی (کوکلا چھپاکی کی) جمعرات آ گئی ہے۔ اب بلبلانا لاحاصل ہے۔ دو دہائیاں ماورائے عدالت، بلاقانون جبری نظام گمشدگیاں، لاپتگیاں چلتا رہا۔ نوجوانوں کو نظریہ پاکستان دینے، ملک وملت کے لیے تڑپنا، غور وفکر کرنا سکھانے والی ایک پوری نسل سے ملک ’پاک‘ کر دیا گیا۔ پیچھے یہ بچا کہ ناچنے گانے تھرکنے، اخلاقی اقدار کا مکمل صفایا پھیرنے والوں کے جتھے ہر شعبہ¿ زندگی پر کھلے چھوڑ دیے گئے۔
اخلاقیات کا جو جنازہ اب پڑھا جا رہا ہے، سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ کیونکر ہوا؟
سرطان زدہ تھا تو خبر کیوں نہ ہوئی۔ قتل ہوا تو عوامل کیا تھے۔ منصوبہ بندی کہاں ہوئی؟ قاتل کون تھے؟ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں، تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے!گریڈوں، بھاری بھرکم مناصب، کرسیوں، ستاروں والے دستانہ پوش۔ یہ نتائج ہیں اس پالیسی کے جس کا آغاز ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نامی بلا سے ہوا تھا جس میں ہم نے فرنٹ لائن اتحادی بننا اعزاز جانا تھا۔ رینڈ کارپوریشن کی تجویز کردہ پالیسی پر امریکی حکومت نے مسلمان ممالک میں ہمہ جہتی کام کیا۔ 22 سال میں یہ فصل پک چکی ہے۔ ہم اسی کے پھل (زقوم) اب کاٹ اور کھا رہے ہیں: ’کالمہل‘: تیل کی تلچھٹ جیسا، پیٹ میں وہ اس طرح جوش کھائے گا جیسے کھولتا پانی جوش کھاتا ہے۔‘ (ان والدین سے حال پوچھ دیکھیے جن کی بیٹیاں اسی ارضِ پاکستان پر اس قہر کا نشانہ بنی ہیں۔) پالیسی کیا تھی؟ روشن خیالی۔ اسلام کا چہرہ بدلنے کی پالیسی۔ ڈیوڈ کپلان (مقالہ: دل دماغ اور ڈالر) کے مطابق: ’دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایک ان دیکھے محاذ پر امریکا کئی ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے، اسلام کا چہرہ ہی بدل ڈالنے کے لیے۔‘ نیز یہ کہ: ’ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ایک نہایت سیاسی رجحانات کا حامل دین، یونہی نہیں چھوڑا جاسکتا تھا، چنانچہ سرکاری اہل کاروں کے مطابق نہایت غیرمعمولی اور روزافزوں جدوجہد کی گئی، اسلام میں اصلاحات کے لیے۔ افغانستان میں کھربوں ڈالر جنگی اخراجات میں یہ رقوم بھی شامل ہیں۔‘ (راقمہ کی کتاب: ’کہاں سے آئے صدا‘) خود افغانستان تو صرف ایک کلمے کی بدولت سرخرو وسربلند اٹھ کھڑا ہوا مگر باقی غلام طبع مسلم دنیا اس کفریہ یلغار کا لقمہ¿ تر بن گئی۔ نظریاتی تحفظ نہ کرسکی۔ چہرہ بدلنے کی اس پلاسٹک سرجری میں زخم زخم (ایمانی، اخلاقی اعتبار سے) امت شرق تا غرب دیکھ لیجیے۔ (بلوچستان یونیورسٹی زنانہ غسل خانوں کے کیمروں کی وڈیوز سے لے کر لامنتہا ’تعلیمی‘ اداروں کی حیاسوز کہانیاں جو آج اسلامیہ یونیورسٹی اور اب یو ای ٹی کی مزید شرمناکیاں لیے پاکستان میں موجود ہے۔) سعودی عرب میں ملک گیر سطح پر مخلوط رقص وسرود کے ناقابلِ یقین مناظر،
میوزک فیسٹیول جابجا، شرعاً ممنوعہ مقامات (ثمودی ہلاکت کی بستیاں) میں عالمی فاحشات کے اکٹھ۔ کوئی خطہ خالی نہیں اس مسخ شدہ چہرے سے۔ اس طرح تو ہونا تھا اس طرح کے کاموں میں۔ نظام تعلیم کی بربادی کا جو اہتمام ہوا اس میں نصابِ تعلیم مسخ کرکے فکر ونظر میں کیڑے بھر دیے۔ اسلام کی ہر رمق ختم کر ڈالی۔ اب تابوت میں آخری کیل ٹھونکی جا رہی ہے۔ پنجاب کے سیکنڈری بورڈز نے غلامی یقینی بنانے کو کیمبرج کی طبع کردہ کتب ایف اے، ایف ایس سی میں درآمد فرمانے کا حکم صادر کردیا ہے، بین الاقوامی معیار کے بہانے سے۔ ہمارا اخلاقی معیار پہلے ہی بین الاقوامی (LGBTQ نما بلوں کی منظوری کے بعد، ہراسمنٹ، پارٹنر شپ والی پاگل مغربی دنیا سے مطابقت رکھنے والے) معیارات کی گراوٹ میں دھنسا چلا جا رہا ہے۔ نصابی سے بڑھ کر ہم نصابی سرگرمیوں پر محنت ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی میں ملک گیر سطح پر ’تعلیمی سرپرستوں‘ اور ماہرین نے ڈٹ کر ہولی کے بہانے ناچ تماشوں کی آخری انتہا پر جاکر پشت پناہی، حوصلہ افزائی کی ہے۔ تعلیمی انتظامیہ، اساتذہ اور طالب علموں کی بڑی تعداد وہ ہے جو مذکورہ پلاسٹک سرجری دور کی پیداوار ہے۔ سیکولر، لبرل، دین دشمن۔ تعلیم یا ملکی ترقی کا غم ان کے ایجنڈوں میں کسی ترجیح کی حامل نہیں۔ 2001ءکے بعد پرویزمشرف کے روشن خیال ایجنڈے کے تحت نوجوانوں کو شوبز، فیشن انڈسٹری، کھیلوں، کوک سٹوڈیو، ویٹ (Veet )مقابلہ ہائے حسن، ماڈلنگ، ڈراموں میں مصروف کیا گیا۔ بڑے فارم ہاو¿سز میں عیش وطرب، منشیات (جو اب یونیورسٹیوں میں رواں دواں ہیں اعلیٰ سطحی انتظامیہ اور اساتذہ کرام کی سہولت کاری سے!) مخلوط پارٹیاں رچائے جانے، موبائلوں پر بھڑکائی رنگ برنگی دوستیوں کی آگ نے تباہی مچائی ہے۔ عورت تباہ، خاندان برباد!
مسلم نوجوانوں کی بہت بڑی آبادی کو (Deradicalize) کرنے، انتہاپسندی (یعنی اسلام) سے دور رکھنے کے لیے یہ سبھی اسباب فراواں کیے گئے۔ اسے یقینی بنانے میں ٹی وی چینلوں کی بھرمار، انسٹاگرام، فیس بک کی ایک وسیع ترین دنیا نوخیز لڑکوں لڑکیوں کی دسترس میں آگئی۔ کم عمری میں اختلاط کے فراواں مواقع نے جو طوفان برپا کیے، کتنے گھر اجڑ گئے، کتنی لڑکیاں عالمِ شوق میں روندی گئیں۔ بے ضرر دوستی باور کرواکر رگید ڈالی گئیں، اعداد وشمار سامنے لائے کب جاتے ہیں۔ یہ پنڈورا باکس اچانک کھل گیا ورنہ گھٹ گھٹ مرنے کا حال تھا۔ بچیوں کو اقبال والی ’ایک مکڑی اور ایک مکھی‘ تک نہ پڑھائی کہ ہوش کے ناخن لینا سیکھتیں۔ اپنے تحفظ کی فکر ہوتی۔ سبھی شریکِ جرم ہیں۔ صرف بدکردار مردوں کو مطعون کرنا لاحاصل ہے۔ دوردراز شہروں کے غیرمحفوظ ہوسٹلوں میں کم عمر ناتجربہ کار بچیاں پھینک دینی؟ بلامبالغہ ہر جگہ راقمہ نے باپوں کو ذمہ دار پایا۔ اعلیٰ تعلیم بیٹیوں کو دلوانے کا ہیضہ انہی کو ہوا۔ ماو¿ں نے شکایت کی کہ کم عمری میں بچوں بچیوں کو موبائل لے کر دینے میں بھی انہی کا حصہ تھا۔ ترقی پسندی کے شوق نے یہ دن دکھائے۔ چرب زبان، کتابوں سے دور، ایمان، تاریخ، ملک وقوم کے لیے دردمندی سے بے بہرہ میڈیا والوں کی عقل بے مایہ سے رہنمائی لیتے ہم نے یہ دن دیکھے۔ پیسے کی خدائی، حبِ دنیا کی حرص وہوس نے لوٹ لیا۔ مشرف کی شتر بے مہار لبرلزم کے بعد اسی کے پروردہ مشیر، وزیر، تعلیم کار عمران خان دور میں ڈی جے اور خان کے دو آتشے سے لیس، اقدار بھسم کرنے آن پہنچے۔ زبان وبیان، سوشل میڈیا، لڑکے لڑکیاں بازو لہراتے ٹھمکتے۔ رہی سہی کسر نکالتے ’اسلامی ٹچ‘ دینے کو دھول جھونکی شرعی اصطلاحات کا دھوکا ہمراہ رہا۔ یہاں تک کہ 9مئی کو سبھی کی آنکھ کھل گئی۔ اب آئی ایم ایف کے لارے لپے، سیاسی گھمن گھیریاں ہیں اور عوام کا مہنگائی کے تھپیڑوں سے حشرنشر ہے۔ لبرل تو موجودہ حکمران بھی اتنے ہی ہیں۔ ملک بنا تھا الٰہِ واحد کی حکمرانی کے کلمے پر، مگر آج سیاست (ہمیشہ سے بڑھ کر) گورے کی غلامی کی مشتاق ودلدادہ بلکہ بھکاری ہے۔ اب تو اسے بیک وقت امریکا، یورپ، روس، چین، مالدار عرب حکمران سب ہی کو (عروسِ ہزار داماد بنے) خوش رکھنا ہے۔ (بصد معذرت)۔ اخلاقیات پر مٹی ڈال کر یہ بہت جلد آگے چل دیں گے۔ مفلسی میں گیلے آٹے والی قوم کے پاس یہ لگژری کہاں کہ وہ مغربی اخلاقیات سے لڑائی مول لیں اور سافٹ امیج خراب کریں۔ یونیورسٹیاں رشکِ امریکا ویورپ ہوگئی ہیں۔ بچے بچیاں چینی کورین ڈرامے کورین بینڈ کے عاشق ودیوانے ہوئے پھر رہے ہیں۔ (پانچویں جماعت سے یونیورسٹیوں تک کتے کھانے والی قوم کے دھت ہوکر ناچنے والوں پر فدا ) BTS بینڈ کی تصاویر، بیج وغیرہ اسکول کالج کی بچیوں کے بستوں میں پائی جاتی ہیں۔اپنے گھر، نسل کی دنیا آخرت کی فکر کریں۔
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا!