سپریم کورٹ کا فیصلہ، نواز شریف کی چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی امیدیں دم توڑ گئیں؟

اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے آئین کے خلاف قرار دیا ہے جس کے بعد نواز شریف کی چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی امیدیں دم توڑ گئیں۔

 

سپریم کورٹ نے فیصلے میں قرار دیا کہ ریویو آف ججمنٹ ایکٹ آئین سے متصادم ہے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 19 جون کو ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

 

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے 23 مارچ 2023 کو پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کر دیے تھے جو 30 اپریل بروز کو شیڈول تھے، اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ فیصلہ آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا گیا۔

 

فیصلے کے ردعمل میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے 25 مارچ کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

 

واضح رہے کہ پنجاب انتخابات کیس میں وفاقی حکومت کی جانب سے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ پیش کر کے کیس سننے والے بینچ پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے اور نئے قانون کے تحت عوامی مفاد کے مقدمات میں نظرثانی کی اپیلوں کو لارجر بینچ میں سننے کا قانون بنایا گیا تھا۔

 

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کیس کی آخری سماعت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل اور درخواست گزاروں نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔

 

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 26 مئی کو صدر مملکت عارف علوی کے دستخط کے بعد قانون بن گیا تھا جس کے بعد آرٹیکل 184/3کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ مذکورہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد پانچ مئی کو سینیٹ سے بھی منظورکر لیا گیا تھا۔

 

سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023، جو رواں برس مئی میں پاس کیا گیا تھا کے تحت سب سے اہم تبدیلی یہ کی گئی تھی کہ ازخود نوٹس پر فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا ہے، نئے ایکٹ کے تحت نظرثانی کا دائرہ کار اپیل جیسا ہی ہونا تھا۔

 

اس قانون کے تحت دوسری اہم تبدیلی یہ کی گئی تھی کہ نظرثانی کی اپیل کی سماعت اس بینچ سے بڑا بینچ کرے گا جس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی ہو۔قانون کے تحت اپیل کنندہ کو اپنا وکیل بھی تبدیل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

 

بل میں کہا گیا تھا کہ نئے قانون کے تحت کسی بھی فیصلے کے بعد 60 دن کے اندر نظرثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی تھی۔

 

ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ نئے قانون کے تحت ان افراد کو بھی اپیل کا حق حاصل ہو گا جن کے خلاف اس قانون کے نافذ العمل ہونے سے پہلے فیصلہ سنایا گیا ہو۔ تاہم ایسے افراد کو قانون نافذ ہونے کے 60 دن کے اندر اپیل دائر کرنا ہو گی۔

 

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کی سات شقیں تھیں

شق ایک کے تحت ایکٹ ’سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 کہلائے گا۔
شق دو کے تحت سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کے لیے بڑھایا گیا اور مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کو اپیل کے طور پر سنا جائے گا۔
شق تین کے مطابق نظر ثانی کی سماعت کرنے والے بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سے زیادہ ہو گی۔
شق چار کے مطابق نظر ثانی میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کر سکے گا۔
شق پانچ کے تحت ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184 تین کے پچھلے تمام مقدمات پر ہو گا۔
شق چھ کے تحت متاثرہ فریق ایکٹ کے اطلاق کے 60 دنوں میں اپیل دائر کر سکے گا۔
شق سات کے مطابق ایکٹ کا اطلاق ملتے جلتے قانون، ضابطے، یا عدالتی نظیر کے باوجود ہر صورت ہو۔

اعجاز الاحسنچیف جسٹسسپریم کورٹعمر عطا بندیالمنیب اخترنواز شریف