دیدهٔ عبرت نگاہ

تحریک انصاف کے چیئرمین کی توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا پر گرفتاری کے بعد ظاہر ہے کہ سیاسی نقطہ نظر سے ہی لکھنا تھا لیکن میڈیا پر کسی چینل کے نیوز اینکر نے جب یہ کہا کہ اٹک جیل میں تحریک انصاف کے چیئر مین کو اسی بیرک میں رکھا گیا ہے کہ جس میں تحریک انصاف کے دور میں میاں نواز شریف کو رکھا گیا تھا تو ذہن چودہ صدیوں کا سفر طے کرتا ہوا پلک جھپکتے ہوئے کوفہ کے دارالامارہ پہنچ گیا۔ 61ہجری عبید اللہ ابن زیاد کا دربار تھا اور سانحہ کربلا کے بعد نواسہ رسول کا کٹا ہوا سر ایک طشت میں ابن زیاد کے سامنے رکھا ہوا تھا۔چند سال بعد 66ہجری اسی دارالامارہ میں تخت پر مختار ثقفی تھے اور سر حسینؓ کی جگہ پر عبید اللہ ابن زیادہ کا سر تھا۔ ایک سال اور چندماہ بعد67ہجری اسی دارالامارہ کے تخت پر معصب بن زبیر بیٹھے تھے اور پتھر کے اسی چبوترے پر مختار ثقفی کا سر تھا۔ چند سال بعد اسی دارالامارہ میں تخت پر اموی خلیفہ عبد المالک بن مروان بیٹھا تھا اور اس کے سامنے مصعب بن زبیر کا سر رکھا ہوا تھا۔ دربار میں ایک بوڑھے شخص نے جب عبد المالک بن مروان کو گذشتہ چند برس کی تاریخ بتائی تو اس نے اس ڈر سے کہیں چند سال بعد اس کا کٹا ہوا سر بھی اسی جگہ پر رکھا ہوا ہو، اس نے حکم دیا کہ اس دارالامارہ کو گرا کر کسی اور جگہ نیا دار الامارہ تعمیر کیا جائے۔
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہو
تاریخ سے سبق سیکھنے کے حوالے سے ہم پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ کاش تحریک انصاف کے چیئر مین ہی تاریخ سے سبق سیکھتے اور اپنے دور میں انتقامی کارروائیاں نہ کرتے تو آج انھیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتے لیکن انھوں نے تو اپنے دور میں تقریروں کے علاوہ ایک ہی کام کیا تھا کہ کوئی مخالف جیل جانے سے بچ نہ پائے۔ تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد بھی جب سہولت کاری جاری رہی اور ٹھوس شواہد والے کیسز میں بھی جب قانون کو راستہ بنانے کی مہلت نہیں دی گئی تو پھر خبط عظمت کا یہ عالم ہو گیا کہ توشہ خانہ کیس میں 44پیشیوں پر فقط تین مرتبہ عدالت گئے اور اس میں سے بھی ایک بار گاڑی میں بیٹھ کر ہی حاضری لگوا کر واپس آ گئے اور سب سے زیادہ قانون کی عمل داری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے تحریک انصاف کے چیئر مین کا اپنا یہ حال ہے کہ عدالت کے بار بار طلب کرنے کے باوجود بھی عدالت نہیں جاتے تھے اور جس دن سزا سنائی گئی اس دن بھی عدالت نے طلب کر رکھا تھا لیکن صاحب بہادر لاہور میں اپنے گھر بڑے مزے سے براجمان تھے اور انھیں پورا یقین تھا کہ انھوں نے جس طرح دو مرتبہ اپنی گرفتاری اور گرفتاری کے خدشہ پر جو فلمیں چلائی تھیں اس کے بعد کس مائی کے لال میں جرأت ہو گی کہ ان کی گرفتاری کا سوچ بھی سکے لیکن عدالت کے فیصلے کے بعد جس سرعت سے گرفتاری ہوئی اس سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ ریاست بے شک اپنی مرضی سے 21گھنٹے مار کھاتی رہے لیکن اگر وہ چاہے تو بڑے سے بڑے طرم خان کو بھی گرفتار کرنے میں اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
جس وقت یہ تحریر قارئین تک پہنچے گی تو اسلام باد ہائیکورٹ میں سیشن عدالت نے چیئر مین تحریک انصاف کا جو حق دفاع ختم کر دیا تھا اس پر سماعت ہو گی اور اس میں کچھ بھی فیصلہ ہو سکتا ہے سزا کالعدم اور حق دفاع بحال کر کے کیس واپس سیشن عدالت کو بھیجا جا سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلے کو من و عن برقرار رکھا جائے۔ ایسی صورت میں چیئر مین تحریک انصاف کی مشکلات کا ایک دور شروع ہو سکتا ہے اس لئے کہ فارن فنڈنگ اور 190ملین ڈالر کا کیس اور سب سے اہم 9مئی کے حوالے سے سنگین نوعیت کے الزامات کا سامنا ہے اور اس حوالے سے صمصام بخاری صاحب کی بھی ایک آڈیو منظر عام پر آ گئی ہے۔ جو سزا ہوئی ہے اس پر تحریک انصاف کی جانب سے جس میں گرفتاری سے پہلے خود چیئر مین تحریک انصاف کے وڈیو پیغام میں اور گرفتاری کے بعد شاہ محمود قریشی کے پیغام میں احتجاج کی کال کے باوجود بھی پورے ملک سے کہیں بھی کوئی احتجاج نہیں ہوا۔
تحریک انصاف والے جب یہ کہتے ہیں کہ ان کے چیئر مین کو فیئر ٹرائل نہیں ملا توہمیں وہ عورت یاد آ جاتی ہے جو بارہ بچوں کے بعد بھی کہتی تھی کہ اسے شوہر سے سچا پیار نہیں ملا۔ عمران خان تو پھر بڑے خوش قسمت ہیں کہ عدالتی محاذ پر ایک تو انھیں بہت زیادہ سہولت کاری حاصل رہی اور دوسرا انھیں قانون کے مطابق نچلی سطح سے ماتحت عدلیہ سے انصاف ملنا شروع ہوا ورنہ تو ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ براہ راست لاہور ہائیکورٹ میں شروع ہوا جبکہ یوسف رضا گیلانی کو سیدھا سیدھا سپریم کورٹ سے پانچ سال کے لئے نا اہل کیا گیا اور میاں نواز شریف کو سزا تو ماتحت عدالت سے ہوئی لیکن انہیں بھی نا اہل سپریم کورٹ سے کیا گیا اور کوئی اپیل کا حق بھی نہیں تھا جبکہ تحریک انصاف کے چیئر مین کے پاس تو ابھی اسلام آبا د ہائیکورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق موجود ہے اور ایک ریویو کی گنجائش بھی ہے۔2018میں میاں نواز شریف کو پارٹی قیادت کے لئے نا اہل قرار دیا گیا تھا اور آج اسی مقام پر چیئر مین تحریک انصاف کھڑے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے بغیر جس کارکردگی کا مظاہرہ ن لیگ نے کیا تھا ان کی نا اہلی کی صورت میں تحریک انصاف کس طرح کی کارکردگی دکھا پائے گی۔