نگران وزیر اعظم اور عزت بے عزتی کا کھیل

پاکستان کے 1973ء کے آئین کے تحت پہلے نگران وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی تھے۔ اُس وقت انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں نے غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیراعظم کے طور پر تسلیم کیا۔ اس کی منطقی دلیل یہی ہے کہ اُن تمام سیاسی جماعتوں نے غلام مصطفی جتوئی کی نگران حکومت کے تحت منعقد ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں آئی جے آئی کی حکومت برسرِاقتدار آئی جس کی قیادت میاں محمد نواز شریف کررہے تھے۔ انہوں نے 6 نومبر 1990ء کو وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ ان کی حکومت بنتے ہی اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات پر سوالات اٹھانا شروع کردیئے۔ دوسال پانچ ماہ بارہ دن بعد اُس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے کرپشن کے الزامات لگاکر نواز شریف کی حکومت 18 اپریل 1993ء کو برخواست کردی۔ گویا حالات و واقعات نے بعد ازاں غلام مصطفی جتوئی کی نگران وزارت عظمیٰ کے تحت ہونے والے 1990ء کے عام انتخابات کے نتائج کو مشکوک کردیا۔ دوسرے نگران وزیراعظم بلخ شیر مزاری تھے۔ بلخ شیر مزاری کی نگران وزارت عظمیٰ کو اُس وقت کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے تسلیم کیا لیکن اُن کے ماتحت عام انتخابات منعقد ہونے کی نوبت نہ آئی کیونکہ صدر غلام اسحٰق خان کے ہاتھوں نکالے گئے وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار میاں محمد نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس طرح وہ اپنے عہدے یعنی وزارت عظمیٰ پر بحال ہو گئے۔ تاہم سیاسی کھینچا تانی کے باعث 18 جولائی 1993ء کو اُس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان اور عدالتی فیصلے سے بحال ہونے والے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف دونوں اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔ تیسرے نگران وزیراعظم معین قریشی تھے۔ معین قریشی ورلڈ بینک میں نوکری کرتے کرتے براہِ راست نگران وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ اُن کے بارے میں دلچسپ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ نگران وزیراعظم کے طور پر اُن کے نام کا اعلان کردیا گیا مگر معین قریشی کے پاس پاکستان کی شہریت کا قومی شناختی کارڈ تک نہیں تھا۔ وہ جب پاک سرزمین کے ایئرپورٹ پر اترے تو تب اُن کا قومی شناختی کارڈ بنایا گیا۔ ایسے شخص کی نگران وزارت عظمیٰ کو بھی ہماری سیاسی جماعتوں نے بانہیں پھیلا کر سینے سے لگایا۔ معین قریشی کی زیرنگرانی عام انتخابات منعقد ہوئے اور حسبِ توقع پاکستان پیپلز پارٹی جیت گئی جس کی قیادت بینظیر بھٹو کررہی تھیں۔ حکومت بنتے ہی معین قریشی اور عام انتخابات پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ تین سال سترہ دن بعد اُس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات لگاکر بینظیر بھٹو کی حکومت 5نومبر 1996ء کو برخواست کردی۔ گویا حالات و واقعات نے بعد ازاں معین قریشی کی نگران وزارت عظمیٰ کے تحت ہونے والے 1993ء کے عام انتخابات کے نتائج کو مشکوک کردیا۔ چوتھے نگران وزیراعظم ملک معراج خالد تھے۔ ملک معراج خالد نگران وزرائے اعظم سمیت شاید پاکستان کے سب وزرائے اعظم میں سب سے زیادہ درویش صفت اور بے ضرر انسان تھے۔ شاید کوئی بھی ان کے کسی سیاسی لالچ کی کوئی نشاندہی نہیں کرسکتا۔ ایسے غیرمتنازع اور غیرجانبدار نگران وزیراعظم نے 1997ء میں عام انتخابات کرائے۔ ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل کی اور میاں محمد نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ حکومت بنتے ہی اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات پر سوالات اٹھانا شروع کر دیئے۔ دوسال سات ماہ پچیس دن بعد اُس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے
12اکتوبر 1999ء کو نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگا دیا اور برخواست کی گئی حکومت پر کرپشن، بدانتظامی اور سازش کے سنگین الزامات لگائے۔ گویا حالات و واقعات نے بعد ازاں ملک معراج خالد کی نگران وزارت عظمیٰ کے تحت ہونے والے 1997ء کے عام انتخابات کے نتائج کو مشکوک کردیا۔ پانچویں نگران وزیراعظم محمد میاں سومرو تھے۔ محمد میاں سومرو کا خانوادہ علم و دانش اور عزت و احترام میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ اُس وقت انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں نے محمد میاں سومرو جیسی محترم شخصیت کو نگران وزیراعظم کے طور پر تسلیم کیا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں آصف علی زرداری کی قیادت میں چلنے والی پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی۔ انتخابات کے فوراً بعد پیپلز پارٹی کی جنرل مشرف سے ڈیل کے باعث پڑنے والے ووٹ نے ان انتخابات پر سوالات کھڑے کردیئے۔ زرداری حکومت نے پانچ سال تک اپنی آئینی مدت تو مکمل کی لیکن کرپشن، بدانتظامی، اقربا پروری اور نااہلی کی مبینہ داستانیں مشہور ہوگئیں۔ گویا حالات و واقعات نے بعد ازاں محمد میاں سومرو کی نگران وزارت عظمیٰ کے تحت ہونے والے 2008ء کے عام انتخابات کے نتائج کو مشکوک کردیا۔ چھٹے نگران وزیراعظم جسٹس (ر) میرہزار خان کھوسو تھے۔ حسب روایت سب سیاسی جماعتوں نے جسٹس (ر) میرہزار خان کھوسو کی نگران وزارت عظمیٰ کو دل کھول کر تسلیم کیا۔ ان کی زیرنگرانی انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی اور میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔ اُن کے حکومت سنبھالتے ہی اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں سنگین دھاندلی کے الزامات لگانا شروع کر دیئے۔ چار سال ایک ماہ تیئس دن بعد 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔ اس کے بعد اُن پر کرپشن کے مقدمات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ باقی عرصے کو ملاکر ن لیگ نے پانچ سال کی اپنی آئینی مدت تو مکمل کی لیکن اپوزیشن نے ن لیگ پر دھاندلی اور کرپشن کے الزامات لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ گویا حالات و واقعات نے بعد ازاں جسٹس (ر) میرہزار خان کھوسو کی نگران وزارت عظمیٰ کے تحت ہونے والے 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج کو مشکوک کر دیا۔ ساتویں نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک تھے۔ اُن کی نگران حکومت کے تحت 2018ء کے انتخابات منعقد کئے گئے۔ حسب روایت تمام سیاسی جماعتوں نے جسٹس (ر) ناصر الملک کی ایمانداری، غیرجانبداری اور صلاحیتوں کی تعریف تو کی لیکن ان کی نگرانی میں ہونے والے عام انتخابات کو انتہائی مشکوک قرار دے دیا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ان کی نگرانی میں ہونے والے 2018ء کے انتخابات اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ٹی آئی کی حکومت کو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ دھاندلی والی اور دھونس سے بنائی گئی حکومت قرار دیا گیا۔ اب ایک مرتبہ پھر پاکستان میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں اور اس کے لیے اِن دنوں زورشور سے نگران وزیراعظم کے نام پر کام ہو رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں نگران وزرائے اعظم کے بارے میں سیاسی جماعتوں کی روایت کو دیکھتے ہوئے کچھ سوالات ذہن میں آتے ہیں۔ کیا ہارنے والی سیاسی جماعتیں پاکستانی سیاست میں ایسی صورتحال کی سابقہ روایت برقرار رکھتے ہوئے 2023ء کے عام انتخابات کے بعد نگران وزیراعظم پر انگلیاں اٹھانا شروع کردیں گی؟ کیا پہلے نگران وزیراعظم کو خوش آمدید کہنے اور انتخابات کے بعد انہیں تنقید کا نشانہ بنانے والی سیاسی جماعتوں کے مزاج میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ کیا پہلے نگران وزیراعظم بناکر انتخابات کے بعد اُن کی عزتیں اچھالنے والا تماشا کبھی ختم ہوگا؟ عزت اور بے عزتی کا یہ کھیل کیوں کھیلا جاتا ہے؟ یہ کیسے اور کب رکے گا؟