ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا!

پاکستانی قوم کی بدقسمتی صرف بیروزگاری، غربت، لاقانونیت، بھوک، افلاس، لوڈشیڈنگ اور تعلیم اور علاج جیسی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی تک محدود نہیں بلکہ اسے اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان سب مسائل کی ماں ہے لالچی، خود غرض اور بے حس سیاسی قیادت اور افسر شاہی، جس نے آج تک اپنے ذاتی مفاد سے آگے کچھ سوچا ہی نہیں اور اپنے مفادات کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ بھی نہیں کی۔ اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ ایسے حالات میں جب ملک ایک انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے ہماری تمام تر سیاسی قیادت ملکی مفاد میں ایک اجتماعی سوچ قائم کرنے کے بجائے اقتدار کے حصول کی خواہش میں کسی بھی حد کو پھلانگنے کے لیے تیار ہے۔
یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہمارے ذہین سیاستدان اور افسر شاہی ذاتی سطح پر تو لوٹ مار کا بازار گرم رکھتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی عوام کو دھوکا دینے کے لیے نورا کشتی بھی شروع کر دیتے ہیں تاکہ میڈیا اور عوام کی تمام تر توجہ ان کی ڈرامہ بازی کی طرف رہے اور یہ لوگ باریاں بدل بدل کر عوام کو لوٹتے رہیں۔
ملکی سیاست میں چند سال پہلے تک تو معاملہ دو پارٹیوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کا تھا اور انہوں نے میثاق جمہوریت کے نام سے ایک معاہدہ بھی کر لیا تھا جس میں ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ دینے کے علاوہ اقتدار کی باریاں لینا بھی طے تھا۔ لیکن ان کی بدقسمتی کہ اقتدار کے حصول کی اس جنگ میں پہلے تحریک انصاف اور پھر استحکام پاکستان پارٹی بھی کود پڑے۔ ویسے تو ان پارٹیوں کا بھی عوامی مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن ان کی انٹری سے باریوں کی ترتیب ضرور متاثر ہوئی ہے۔
ملک میں ایک مرتبہ پھر سے الیکشن کا موسم آیا چاہتا ہے اور اگر تمام معاملات کنٹرول میں رہے تو یہ کہا جا سکتا ہے ملک میں ایک نئی سیاسی جنگ کا آغاز ہو نے کو ہے۔الیکشن مہم کے دوران پیدا
ہونے والی سیاسی کشمکش کے نتیجہ میں یہ نام نہاد سیاسی راہنما اور قومی لیڈر اگر حقیقت میں ایک دوسرے کے دست وگریباں ہوں، ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑیں اور ایک دوسرے کے سر میں خاک ڈالیں تو پھر تو ٹھیک ہے لیکن افسوس یہ لوگ خود تو اندر سے ایک ہی ہوتے ہیں لیکن سیاسی محاذ جنگ پر یہ عوام کو پیادوں کے طور پر میدان جنگ میں اتار دیتے ہیں۔
ہمارے عوام تو ہیں ہی سدا کے بیوقوف نمبر ون جو بار بار ڈسے جانے کے باوجود ان سیاستدانوں کے لیے اپنا جان،مال اور وقت برباد کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ بالکل صحیح فرمانا ہے ہمارے ایک مرحوم دوست نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ کا لیڈر بے ضمیر اور عوام بے وقوف‘۔
پاکستان میں اقتدار کے حصول کے لیے بے چینی، بے قراری اور بے صبری دیکھ کراس تاثر کی نفی ہوتی چلی جاتی ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ اگرواقعی ایسا ہوتا تو یہ نام نہاد لیڈریہاں اقتدار کے حصول کے لیے اس قدر دیوانے نہ ہو رہے ہوتے۔
یہ بات تو ماننے کی ہے کہ ہمارے عوام شعور کے معیار کی ابتدائی سیڑھی پر ہی ہیں لیکن پھر بھی کم از کم عوام کے شعور میں کسی حد تک ہی سہی اضافہ کرنے کی کوشش پر ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو داد تو دینا ہی پڑے گی۔ لوگ چاہے ڈکٹیٹر کے بارے میں جو بھی کہیں یا رائے رکھیں یہ بات تو حقیقت ہے کہ میڈیا بالخصوص الیکڑانک میڈیا کے فروغ میں اس کا کردار قابل ستائش ہے اور اسے نہ سراہا جانا زیادتی ہو گی۔ میڈیا میں بھی لاکھ کمی کوتاہی ہو گی لیکن اس نے کسی حد تک ہمارے عوام کے شعور اور سوچنے کی صلاحیت میں ضرور اضافہ کیا ہے۔اگر ہمارا میڈیا LOBBIST کا کردار ادا نہ کرے تو عین ممکن ہے کہ ان انتخابات میں ہم بہت اچھے لوگوں کو اپنی اسمبلیوں کے لیے منتخب کر سکیں۔
اگر گوگل میں لفظ LOBBYISTکو سرچ کیا جائے تو امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں کام کرنے والی ہزاروں فرموں کے نام سامنے آ جائیں گے۔ یہ LOBBYISTوہ جادو گر ہوتے ہیں جو دنیا بھر میں میڈیا کے علاوہ پڑھے لکھے، ذہین افراد اور ماہرین نفسیات اور دانشوروں کے ذریعے کسی بھی مسئلہ، شخصیت یا حتیٰ کہ کسی مملکت کا مثبت یا منفی پہلو اس طرح اجاگر کرتے ہیں کہ عام آدمی کو تو سمجھ تک نہیں آتی کہ کس طرح ایک پلاننگ کے تحت اس کے ذہن کو تبدیل کیا جارہا ہے یا تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں پہلے تو مقابلہ نہ ہونے کے برابر تھا یعنی برسراقتدار پارٹی عوام کو اس قدر ستاتی تھی کہ اگلی مرتبہ وہ دوسری پارٹی کو منتخب کر لیتے تھے اس طرح باریاں لینے کا یہ سلسلہ کسی معاہدے کے بغیر بھی چلتا رہا لیکن اب پاکستان تحریک انصاف اور استحکام پاکستان پارٹی کی انٹری کی وجہ سے یہ سلسلہ تو شاید برقرار نہ رہ سکے۔ ویسے تو عوام کو دینے کے لیے ان تمام پارٹیوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ ماننا پڑے گا کہ یہ لوگ اس حد تک ایماندار بھی ضرور ہیں کہ یہ عوامی مسائل کے حل کی کبھی بات بھی نہیں کرتے۔
بات تھی LOBBYISTSکے کردار کی تو لگتا یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں نے بھی اقتدار کی دوڑ میں آگے نکلنے کے چکر میں LOBBYISTS کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ اپنی سیاسی مہم کو بہتر انداز میں چلانے کا حق تو خیر ہر سیاسی پارٹی کا ہے لیکن الیکشن مہم کے جنون میں انہیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ ان کی جانب سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور شرمندگی سے دوچار کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ یہ بات تسلیم کریں کہ سیاست دان سوائے کرپشن کے کچھ بھی کامیابی سے کرنے کے قابل نہیں ہیں اور موجودہ سیاسی نظام بالکل فیل ہو چکا ہے۔ملک اس وقت شدید قسم کی افواہوں کی زد میں ہے لیکن پھر بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔ اگر نواز شریف،شہباز شریف، آصف زرداری، جہانگیر ترین اور عمران خان کوواقعی اس ملک کے سیاسی نظام کو بچانے کی کوئی فکر ہے تو انہیں چاہیے کہ آپس میں سینگ پھنسانے کے بجائے اس ڈی ریل ہوتی ہوئی جمہوریت کو بچانے کے لیے مل جل کر کام کریں۔ ورنہ تو یقینا لڑتے لڑتے ہوجائے گی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم اور تیسرے کی ہو جائے گی ٹنڈ۔