کیا لوگ تھے!!

عید کی چھٹیوں سے ایک دن پہلے دفتری کام سمیٹ رہی تھی جب ایک پارسل موصول ہوا۔ لفافہ کھول کر دیکھا تو سعدیہ قریشی کی کتاب ”کیا لوگ تھے“ سامنے تھی۔ قلم فاؤنڈیشن کے سربراہ برادرم علامہ عبدالستار عاصم کی مہربانی کہ وہ جب بھی کوئی کتاب چھاپتے ہیں تو ارسال فرماتے ہیں۔ سعدیہ قریشی معروف کالم نگار، صحافی اور شاعرہ ہیں۔ مجھے شاعری میں دلچسپی ہے۔تاہم مجھے سعدیہ کی شاعری پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ البتہ ان کے کالم میری نگاہ سے گزرتے رہتے ہیں۔مختلف موضوعات پر سادہ اور عام فہم انداز میں لکھے یہ کالم قارئین میں مقبول ہیں۔ آج کے زمانے میں بہت سے معاملات کی اطلاع سوشل میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچتی ہے۔ مذکورہ کتاب کا ذکر بھی سوشل میڈیا کے ذریعے مجھ تک پہنچا۔ یہ کتاب سعدیہ کے ان کالموں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مختلف مشاہیر پر تحریر کئے۔مصنفہ نے اس کتاب میں ان معروف شخصیات کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کئے ہیں جن سے بطور صحافی ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ کچھ شخصیات ایسی بھی ہیں جن سے ان کی سرسری ملاقاتیں ہوئیں۔ یاوہ شخصیات جن سے وہ ملیں تو نہیں، لیکن میڈیا کے توسط سے انہیں پڑھا اور سنا۔ جیسے نیلسن منڈیلا، بے نظیر بھٹو وغیرہ۔
معروف شخصیات کی تحریرکردہ یاداشتیں اور خود نوشت پڑھنا مجھے پسند ہے۔ مختلف شخصیات پر لکھے خاکے اور ان سے جڑے قصے کہانیاں پڑھنے میں بھی مجھے دلچسپی ہے۔ عید کی چھٹیوں میں یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب پڑھنا مجھے اس لئے بھی اچھا لگا کہ اس کتاب میں جن شخصیات کا تذکرہ ہے، ان میں سے بیشتر سے میری بھی ملاقاتیں تھیں۔ سو ان کا تذکرہ پڑھتے ہوئے میں ماضی میں کھو گئی۔ میں خود بھی ان میں سے کچھ شخصیات کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے پر کالم تحریر کر چکی ہوں۔ سعدیہ کی کتاب پڑھتے مجھے وہی خیال آتا رہا جو کسی شخصیت کی وفات پر کالم تحریر کرتے آیا کرتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ کاش ہم ان شخصیات کی زندگی میں انہیں خراج تحسین پیش کریں تو انہیں کتنا اچھا لگے۔ کتاب میں صحافت، سیاست، فن اور ادب سے جڑی نامور شخصیات کا ذکر ہے۔ کچھ شخصیات ایسی ہیں جو عام آدمی کے لئے تو غیر معروف ہیں۔ لیکن اپنے شعبے سے جڑے لوگوں اور دفتری حلقے میں نامور ہی کہلاتی ہیں۔ جیسا کہ کتاب کا پہلا کالم سینئر صحافی آزاد کوثری پر لکھا گیاہے۔
مشاہیر کا تذکرہ کرتے سعدیہ نے کچھ نہایت دلچسپ واقعات بیان کئے ہیں۔ مثال کے طور پر سینئر صحافی ارشاد احمد حقانی پر لکھے کالموں میں وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح حقانی صاحب انتقال سے قبل اپنے دفتری کام سمیٹنے میں مصروف رہے۔ اپنی کتابیں تک اپنے دوست احباب میں تقسیم کرتے رہے۔ یہ بات پڑھنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ حقانی صاحب کو احساس ہو گیا تھا کہ ان کی رخصتی کا وقت قریب ہے۔ سعدیہ لکھتی ہیں کہ”حقانی صاحب اپنی سوانح حیات نصف صدی کا قصہ مرتب کرنے میں مصروف تھے۔۔۔ اس کتاب کو وہ ستمبر 2009 میں اپنے جنم دن کے موقع پر لانچ کرنا چاہتے تھے۔ پھر ان کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ کچھ دن کی غیر حاضری کے بعد وہ دفتر آئے۔ میں ان سے ملنے گئی تو وہ اپنا کالم لکھوانے میں مصروف تھے۔۔۔۔۔ میں نے کتاب کی بابت دریافت کیا تو بولے ”کتاب تو اگلے سال ستمبر سے پہلے نہیں آسکتی۔۔ میری زندگی میں کتاب نہیں آئے گی کیونکہ میں مارچ2010 سے پہلے اس دنیا سے چلا جاوں گا“۔۔۔۔پھر وہ واقعی 2010 کا مارچ آنے سے پہلے ہی 24 جنوری کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے“۔
علم نجوم اور اعداد و شمار کے ماہر یسین وٹو صاحب پر لکھے کالم میں بھی چند دلچسپ قصوں کا ذکر ملتا ہے۔ لکھتی ہیں کہ ان کے دفتر کی ایک کولیگ وٹو صاحب سے ملنا چاہتی تھی۔ ایک دن ملاقات ہوئی تو وٹو صاحب نے ان خاتون سے پوچھا کہ آپ کا کمرہ کدھر ہے؟ بشریٰ مسکراتے ہوئے بولی کہ یہ میرا ہی کمرہ ہے جہاں آپ بیٹھے ہیں۔ وٹو صاحب اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے کہ یہ آپ کا کمرہ نہیں ہے۔ میں آپ کو یہاں بیٹھا ہوا نہیں دیکھ رہا۔۔۔۔سعدیہ لکھتی ہیں کہ حیرت انگیز طور پر میری دوست نے اس واقعے کے تیسرے روز بوجوہ اپنی ملازمت سے استغفیٰ دے دیا۔ اس وقت وہ ٹیوٹا میں گریڈ انیس میں کام کر رہی ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پر لکھے کالم میں بیان کرتی ہیں کہ ”یہ منظر کون بھول سکتا ہے جب راولپنڈی کے جنرل ہسپتال میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، محترمہ بے نظیر کے جسد خاکی کو دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رو دیے۔ پھر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ وہ واحد سیاستدان ہیں، جنہوں نے اس موقعے پر محض ایک سیاستدان کی بجائے ایک ہمدرد دل رکھنے والے انسان کا کردار ادا کیا۔”عبدلستار ایدھی پر بھی ایک عمدہ کالم اس کتاب کا حصہ ہے۔ لکھتی ہیں کہ“ ایک منظر مجھے یاد آتا ہے۔ لاہور کی مال روڈ کے فٹ پاتھ پر خاکی رنگ کے سوتی کپڑوں میں ملبوس، سر پر جناح کیپ رکھے ایک بوڑھا شخص جھولی پھیلا کر بیٹھا تھا اور لاہور کے تاجر اس کی جھولی میں لاکھوں روپے ڈالتے جا رہے تھے۔ یہ عبد الستار ایدھی تھے۔ سائیکلوں، موٹر سائیکلوں پر گزرتے ہوئے عام لوگوں کو جب خبر ہوئی کہ ایدھی صاحب کسی فلاحی مہم کے لئے شہر کے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہیں تو وہ اپنی سواری روکتے اور ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حسب توفیق اپنا حصہ ڈالتے جاتے۔۔۔۔۔ کیا کمال اور نایاب شخص تھا کہ جاتے ہوئے بھی اپنی آنکھیں عطیہ کر گیا۔ میں سوچتی ہوں کہ جس شخص کو ایدھی کی آنکھ کا ریٹنا لگے گا، وہ دنیا کو کس نظر سے دیکھے گا!“
کتاب میں منو بھائی، ڈاکٹر اجمل نیازی، عارف نظامی، مسعود اشعر،نیلسن منڈیلا، بلقیس ایدھی، سید علی گیلانی، منیر نیازی، احمد فراز، بانو قدسیہ، بشریٰ رحمن، روحی بانو، طارق عزیز، ضیا محی الدین سمیت بہت سی اہم شخصیات پر لکھے کالم موجود ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت پر محترمہ سعدیہ قریشی کو مبارک باد۔ تاہم قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں برادرم عبدلستار عاصم خصوصی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں کتاب چھپوانا بیشتر لکھاریوں کی پہنچ سے باہر ہو چلاہے۔ ان مشکل حالات میں برادرم عاصم صاحب نہایت تسلسل کے ساتھ مختلف موضوعات پر کتابوں کی اشاعت میں مصروف ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ان کے کا م میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔