آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کا معاہدہ

آئی ایم ایف سے قرض مل گیا، چلو ایک اور سنگ میل عبور ہوا۔ قوم کا بال بال پہلے ہی قرضے میں ڈوبا ہوا ہے تین ارب ڈالر سے اوپر مزید بڑھ گیا۔ حکومت مبارکباد لے رہی ہے۔ اپنی کارکردگی میں اضافے کی ایک اور وجہ آئی ایم ایف سے قرض لینا بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ملک ڈوبتا جا رہا ہے اور ہمیں ہنسی مذاق اور ٹھٹھے سے فرصت نہیں مل رہی۔ کبھی سوچا کہ اتنا بڑا قرض کیسے اترے گا۔ مان لیا کہ ملک چلانے کے لیے قرض ضروری تھا لیکن اس سے پہلے جو قرض لیا گیا وہ کہاں خرچ ہوا اور اس کی مدات کیا تھیں اس پر ایک وائٹ پیپر شائع کرنے کا بندوبست کریں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں بدلہ لینے سے فرصت نہیں ملتی۔ میثاق جمہوریت کے بعد آصف علی زرداری نے میثاق معیشت کی بات کی ہے۔ یہ بات اس سے پہلے شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر کر چکے ہیں لیکن اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے اور ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے انہوں نے اپوزیشن سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ اب اسی اپوزیشن نے انہیں زمان پارک تک محدود کر دیا ہے۔ اس میں اپوزیشن سے زیادہ قصور خود ان کا ہے۔ کل ایک دوست کہہ رہا تھا کہ کیا وقت آ گیا ہے کہ زمان پارک بالکل سنسان پڑا ہے۔ کبھی یہاں میلہ لگا رہتا تھا اور مرشد ہماری ریڈ لائین ہے کے نعرے لگتے تھے۔ اب سارے مرشد کو چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ عمران خان کو انتظامی ہتھکنڈوں سے باہر کر دیں گے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت ہے یا کچھ اور، ایک بڑی تعداد اب بھی عمران خان کے ساتھ ہے۔ ضیاالحق کا مارشل لا پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کر سکا تھا اور پیپلزپارٹی مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی رہی۔ اگر عمران خان سیاست کے دائرے کے اندر رہ کر جدوجہد کرتا رہا تو ایک بار پھر سے ان کی جماعت ایوان اقتدار میں قدم جما سکتی ہے۔ بینظیر کی قیادت میں ایک بار پیپلز پارٹی صرف اٹھارہ قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کر سکی تھی لیکن انہوں نے جمہوری جدوجہد کو جاری رکھا میدان دوسروں کے حوالے نہیں کر دیا۔ عمران خان نے سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر مخالفین کے حوالے کر دیا۔ سارے سیاسی فیصلے غلط کیے۔ قومی اسمبلی سے استعفے دے کر باہر نکل آیا۔ دو بڑے صوبوں میں اچھی خاصی حکومتوں کو خود گرا دیا اور جلد انتخابات کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
بات آئی ایم ایف سے شروع ہوئی تھی۔ آئی ایم ایف نے نو ماہ تک اپنی قسط کو روک کر رکھا ہے باوجود اس کے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو پورا کر دیا تھا۔ چند دن پہلے ہی امریکہ کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا تھا کہ وہ پاکستان کو قرض دلوانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے سو اب انہوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ امریکی پاکستان کو مکمل طور پر چین اور روس کی گود میں نہیں
پھینک سکتے تھے۔ آپ کو شوکت ترین اور جھگڑا کی وہ گفتگو یاد ہے کہ آئی ایم ایف کو بتا دیں کہ پنجاب اور کے پی آئی ایم ایف پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پنجاب میں ان کی حکومت رہی نہ کے پی میں۔ شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ "گزشتہ 3 ماہ میں چین نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور ان تین چار ماہ میں ملک کو ڈیفالٹ نہ ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جبکہ سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر کا وعدہ کیا اس پر معاہدہ ہو چکا ہے اسی طرح متحدہ عرب امارات اور اسلامی ورلڈ بینک نے ایک ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔”
پاکستان کی معیشت چھ ارب ڈالر سے کہیں آگے ہے اور اس پیسے کو بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری لائی جاتی ہے تاکہ دوسرے کاروباری ادارے بھی پاکستان کے ساتھ اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو جاری رکھیں سو اس کے لیے آئی ایم ایف کی ہاں ضروری تھی۔ جو ممالک قرض لیتے ہیں لیکن کلی طور پر قرضوں پر انحصار نہیں کرتے۔ بھارت بھی آئی ایم ایف پروگرام میں شامل رہا ہے لیکن پھر وہ اس سے باہر نکل آئے، ترکیہ ایک عرصہ ہوا آئی ایم ایف کو خیر آباد کہہ چکا ہے لیکن پاکستان ابھی تک اس میں پھنسا ہوا ہے۔
اس سے چھٹکارہ ایک ہی صورت میں پایا جا سکتا ہے کہ ہم ملک میں سیاسی استحکام لانے پر توجہ مرکوز کریں۔ عمران خان کو بھی سیاسی دائرے میں لے کر آئیں اور پھر میثاق معیشت کریں۔ حکومتی اخراجات کم کریں اور اس کے ساتھ اضافی ذرائع آمدن تلاش کریں۔ ایسے شعبے چنیں جس کے ہنر مند باہر سے ڈالر کما سکیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے کہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ بھیجیں۔ اس وقت ملک میں بیروزگاری آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ کوئی ایسا پروگرام ضرور شروع کرنا چاہیے جہاں ان بیروزگاروں کی تربیت کا اہتمام ہو اور انہیں روزگار تلاش کرنے کے مواقع مل سکیں۔ گورنر سندھ نے اعلان کیا ہے کہ وہ کراچی میں ایسا پروگرام شروع کرنے جا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے بھی آئی ٹی سیکٹر میں اس طرح کے پروگرام شروع کیے ہیں، ان پروگرامز کو رزلٹ اورینٹڈ بنا دیں تو ہم بہت سے مسائل سے نکل سکتے ہیں۔ بیروزگار نوجوانوں کو ورک فورس میں تبدیل کرنے کا ہنر آزما کر دیکھ لیں امید ہے افاقہ ہو گا۔ یہ واویلا بھی کیا جارہا ہے کہ برین ڈرین ہو رہا ہے ایک طرح سے ٹھیک بھی ہے لیکن یہ لوگ باہر جا کر پاکستان کو زرمبادلہ بھیجیں گے تو ملک آگے بڑھے گا۔ بیرون ملک رہنے والوں کے لیے جامع پروگرام شروع کریں انہیں احساس دلائیں کہ وہ ملک کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ میں پہلے بھی مثال دے چکا ہوں کہ فلپائن نے شعبہ نرسنگ میں اپنی ورک فورس کو تیار کیا اور پھر اسے دنیا بھر میں بھیجا لیکن محض اتنا کام نہیں کیا بلکہ ان کے اہل خانہ کو مکمل تحفظ فراہم کیا۔ یہی وجہ ہے فلپائنی نرسز بیرون ملک کام کر کے اپنے ملک کو زرمبادلہ بھیج رہی ہیں۔ بھارت نے آئی ٹی میں سرمایہ کاری کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ٹی کی ایکسپورٹ پاکستان کی مجموعی ایکسپورٹ سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش نے آئی ٹی سیکٹر اور ٹیکسٹائل کی ویلیو ایڈیشن پر فوکس کیا آج پاکستان سے کپاس بنگلہ دیش جاتی ہے اور وہاں کی گارمنٹ فیکٹریوں کا پہیہ چلتا ہے۔ اس طرح برآمدات کو بڑھانے اور ویلیو ایڈیشن کی طرف توجہ دیں۔
خدا کرے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ یہ آخری پروگرام ہو۔ آئی ایم ایف اور بیرونی قرضے اس وقت بہتر طور پر واپس ہو سکیں گے جب ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔ جب پاکستان کا روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مضبوط ہو گا۔ ایک وقت تھا کہ ہمیں ڈالر کے بدلے میں پچاس ساٹھ روپے ادا کرنا پڑتے ہیں اب ایک ڈالر کی واپسی کے لیے تین سو روپے دینا ہیں اور اس کا اثر پاکستان کی معیشت پر پڑتا ہے۔ خوشی کے شادیانے بجانے کی بجائے مل بیٹھ کر ملک کو آگے بڑھانے کی راہ نکالیں۔ سیاست بہت ہو چکی اب معیشت کو بہتر کرنے کی ترکیب سوچیں۔