پاکستان کی عدالتی تاریخ میں مصنوعی ذہانت کا استعمال

لاہور: (شعیب علی ) پاکستان کی عدالتی تاریخ میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) AI Chatbot GPT 4 کی مدد سے دیوانی مقدمے کا پہلا فیصلہ کر دیا گیا ہے. پھالیہ کی سیشن عدالت نے AI Chatbot GPT 4 سے مدد لینے کا تجربہ کامیاب قرار دے دیا. ایڈیشنل سیشن جج پھالیہ منڈی بہاؤالدین محمد عامر منیر نے اراضی کی ملکیت کے مقدمے میں سول عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل پر چیٹ بوٹ جی پی ٹی 4 کی صلاحیت کا تجربہ کیا.فاضل جج نے اپنے فیصلے میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) AI Chatbot GPT 4 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں عدالتوں اور ججوں کے لیے مصنوعی ذہانت کو فیصلہ سازی کے عمل میں اختیار کرنے کا ایک نیا موقع ہے،جو کہ بلاشبہ، پاکستانی قانونی نظام کے ساتھ اس کی مطابقت سے مشروط ہے۔ "کورٹ روم ٹیکنالوجی” جیسے روبوٹ ججز، الیکٹرانک فائلنگ، انٹرایکٹو آن لائن قانونی مدد اور چیٹ بوٹس وغیرہ سب مصنوعی ذہانت پر مبنی ہیں۔ فاضل جج نے فیصلے میں کہا یے کہ انھوں نے اپنے آزادانہ ذہن سے اس اپیل کو مسترد کرنے کی اپنی وجوہات بتانے کے بعد Chatbot GPT 4 کی صلاحیت کو آزمانے پر غور کیا ہے. جس کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ اس AI پروگرام کی موجودہ صلاحیت کتنی درست ہے کہ مستقبل میں اسے عدالتوں میں فیصلے کے لیے معاون سمجھا جائے. فاضل جج نے ChatGPT-4 سے سوال پوچھا ۔پاکستان میں دیوانی مقدمے میں حکم امتناعی دینے کے لئے اصول کیا ہیں؟ جس پرچیٹ جی پی ٹی 4 نے اپنے جواب میں کہا کہ حکم امتناعی جاری کرنے کے لئے عدالت کو چھ نکات کی تصدیق کرنی چاہیے. مقدمہ بادی النظر میں قابل بحث ہو، سہولت کا توازن ہو, ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہو, مدعی کی نیک نیتی ہو، مفاد عامہ کا سوال ہو اور مساوی تحفظات پر بھی غور کرنا چاہئے. عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ عدالتیں عمومی طور پر حکم امتناعی کی درخواست پر تین نکات وضع کرتی ہیں. جبکہ چیٹ جی پی ٹی 4 کے بتائے چھ میں سے تین نکات کا عدالت پہلے جائزہ لے چکی تھی. جن میں قابل بحث معاملہ، سہولت کا توازن اور ناقابل تلافی نقصان جیسے نکات شامل تھے. عدالت نے چیٹ جی پی ٹی فور کی تجاویز کو متاثر کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو مصنوعی ذہانت کے بتائے نکات نیک نیتی، مفاد عامہ اور مساوی تحفظات کو بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ ہمارے دیوانی قانون نے بھی عدالتوں کی ان جہتوں پر غور و فکر کی رہنمائی کی ہے. اسی طرح چیٹ جی پی ٹی فور کے تین نکات بھی ہمارے قوانین اور سالوں میں تیار کی گئی نظیروں کے دائرے میں ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی کوئی بھی تجویز ہمارے قوانین کے منافی نہیں بلکہ یہ معیاری فیصلے میں مددگار ہے۔ چیٹ بوٹ کی دیوانی اپیل میں دی گئیں تجاویز پاکستان کے ضابطہ دیوانی 1908 سے مکمل مطابقت رکھتی ہیں اور یہ تجاویز جج کو.معیاری فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں. عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت کی صلاحیت عام طور پر ذہین انسانوں سے وابستہ کاموں کو انجام دینے کے لیے استعمال کی جاتی یے. یہ روبوٹ ججوں کا وقت ہے۔ ہمارا پڑوسی چین 2017 سے عدالتوں میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہا ہے۔ ایک روبوٹ جج کو مخصوص مقدمات جیسے تجارتی تنازعات، ای کامرس کی ذمہ داری کے دعوے، اور کاپی رائٹ کی خلاف ورزیوں کی سماعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آج تک، چین میں ایک روبوٹ جج کے ذریعے 30 لاکھ سے زیادہ مقدمات نمٹائے جا چکے ہیں۔”مشرقی چین کے صوبہ بیجنگ کے دارالحکومت ہانگزو میں دعویٰ کرنے والا ایک وکیل چین کے قومی نشان کے نیچے سیاہ لباس پہنے ہوئے جج کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر رہا ہے۔ تاہم، یہ جج ایک آن اسکرین اوتار ہوتا ہے جو گوشت اور خون کے بجائے پکسلز پر مشتمل ہے۔ ہانگژو انٹرنیٹ کورٹ، اور بیجنگ اور گوگنزو میں 118,764 مقدمات ہیں، جو 2017 اور دسمبر 2019 میں متعارف ہونے کے بعد سے 88,401 تک پہنچ چکے ہیں۔ AI مشین سے چیٹ پروگراموں میں پوچھے گئے سوالات کے "عقلی” جوابات فراہم کرنے کے لیے قانونی ڈیٹا بیس استعمال کیے جا رہے ہیں۔ Openai.com ان میں سے سب سے حالیہ میں سے ایک ہے جس نے Chatbot GPT-4 لانچ کیا ہے. یہ چیٹ بوٹ” بطور ایک کمپیوٹر پروگرام جو مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کے سوالات کو سمجھنے اور انسانی گفتگو کی نقل کرتے ہوئے ان کے جوابات کو خود کار طریقے سے دیتا ہے۔ AI چیٹ بوٹ جتنی دیر تک کام کرتا ہے، اس کے جوابات اتنے ہی مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔ لہذا ایک AI چیٹ بوٹ حال ہی میں مربوط الگورتھم پر مبنی علم کے ساتھ چیٹ بوٹ سے زیادہ تفصیلی اور درست جواب دے سکتا ہے. دنیا میں اس وقت بہت سی تنظیمیں اور صنعتیں مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہی ہیں اور قانون بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ قانونی فرمیں پہلے سے ہی چیٹ بوٹس استعمال کر رہی ہیں حتیٰ کہ اپنے کلائنٹس کے لیے "معاہدے” تیار کرنے کے لیے۔ اس لئے کیوں نہ ہم، ججز بھی اس سے متعلقہ رہیں؟ کیوں نہ اس طاقتور انسانی دماغ کی صلاحیت کو AI "اسسٹنٹ” جیسے پرکھا جائے؟ جیسا کہ دیگر ممالک میں کیا گیا ہے، یقینی طور پر فیصلہ سازی کے کچھ حصے کو AI ٹولز اور روبوٹس کے ذریعے سنبھالنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اس سے عدالتوں اور انسانی ججوں پر بوجھ کم ہوگا۔ یہ اب ہے؛ یہ مستقبل ہے. فائدہ اٹھانے والا سائلین اور معاشرہ ہے. عدالت نے اپنے فیصلے کی نقول لاہور ہائی کورٹ قانون اور انصاف کمیشن کو بھجوانے کی بھی ہدایت کی ہے تاکہ مصنوعی ذہانت سے متعلق گفتگو پرقانون میں اصلاحات کی تجویز کے طور پر پر غور کیا جاسکے. یہ اپیل محمد اقبال نامی شہری نے دائر کرتے ہوئے سول جج پھالیہ وسیم افتخار کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا. جس کے تحت اس کی دعوی استقرار حق میں حکم امتناعی جاری کرنے کی درخواست مسترد کی گئی تھی. اپیل کنندہ کا موقف تھا کہ اس نے 2016 میں نوے لاکھ روپے میں مرحوم زیاد وغیرہ سے موضع مانو چک میں پٹرول پمپ اور دیگر تعمیرات پر مشتمل پانچ کنال دس مرلے اراضی بذریعہ اقرار نامہ خریدنے کا معاہدہ ہوا. معاہدے کے تحت بیس لاکھ روپے بیعانہ فوری ادا کر دیا گیا جبکہ بقایا رقم کی ایک سال میں ادائیگی کے بعد اراضی اس کے نام منتقل کروانا طے پا گیا. اپیل کنندہ کا کہنا تھا کہ مقررہ وقت پر اس نے مرحوم زیاد اور بعد ازاں اس کھ ورثاء کو متعدد بار بقایا رقم وصول کرنے اور اراضی اس کے نام منتقل کرنے کا کہا لیکن 2019 میں انھوں نے معاہدہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.لیکن سول عدالت نے حقائق نظر انداز کرتے ہوئے اس کی حکم امتناعی جاری کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے. اپیل کنندہ نے استدعا کی تھی کہ کیس کے فیصلے تک حکم امتناعی جاری کیا جائے. عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپیل مسترد کرتے ہوئے ماتحت عدالت کے فیصلے کو بحال رکھا. فاضل جج نے 21 صحفات پر مشتمل فیصلے میں قرار دیا کہ اپیل کنندہ اپنے موقف کو ثابت نہیں کر سکا. مبینہ اقرار نامے میں صرف رقبے کا ذکر ہے تاہم کسی کھیوٹ کھتونی کا ذکر نہیں ہے جس سے یہ پتہ لگ سکے کہ یہ معاہدہ اسی اراضی سے متعلق ہے. اس کے علاوہ الزام علیہان نے اپنے جواب میں بتایا ہے کہ یہ مشترکہ کھاتے کی جگہ ہے اور تقسیم سے متعلق معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے. ایسی صورت میں بھی یہ معاہدہ ناقابل عمل ہے. اس طرح اپیل کنندہ ایک بادی النظر میں ایک اچھا قابل بحث مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے. اگرچہ اپیل کنندہ اس جائیداد پر قابض ہے لیکن ابھی تک یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اسے یہ قبضہ فروخت کے معاہدے کے تحت دیا گیا ہے. عدالت نے اپیل مسترد کرتے ہوئے ماتحت عدالت کا فیصلہ بحال رکھا.