جناب محمد صادق کی محفل اور سپاہی کو خراج تحسین

دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر عہدے اور مرتبے کے اعتبار سے بڑے مقام پر متمکن رہنے والے افراد کا ذکر ہی ہوا کرتا ہے حالانکہ کسی بھی سرکاری محکمہ میں سپاہی اور چھوٹے ملازم اُس کا بڑا حصہ ہوتے ہیں جن کے بغیر کسی سرکاری محکمے کا نظام چلنا ممکن ہی نہیں مگر چھوٹے ملازم عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کے لحاظ سے ہمیشہ نظر انداز ہوتے ہیں۔ سی ایس پی کلاس کی تربیت کے ذریعے یا شاید سہولیات اور اختیارات کی بدولت انسان سے انسانیت کشید کر لی جاتی ہے کچھ اس طرح کہ اگر اس کا ماتحت دفتر کی راہداریوں میں سلام بھی کرے تو جواب دینا درکنار وہ سلام کرنے والے کی شکل بھی نہیں دیکھتا۔ یہ رویہ میں نے ان افسروں میں بھی دیکھا جن کے والد گرامی کبھی خود سلام کے جواب کے منتظر لوگوں کی لائن میں کھڑے پائے جایا کرتے تھے کچھ ماتحت جو کرپٹ افسران کے نزدیک رہتے ہیں پھر ان کا جو مزاج بگڑتا ہے!! الحفیظ الامان۔ چاہے اس کا اپنا والد ریلوے میں ترقی پا کر بمشکل حوالدار کے عہدے تک پہنچا ہو اور سلیوٹ مارنے کی عادت ایسی پکی ہو گئی ہو کہ عام گزرنے والوں کو سلیوٹ مارتا رہے کہ چلیں اگر صاحب نے اس کا کام کر دیا تو سو پچاس ہی دے جائے گا۔ سٹینو، یو ڈی سی، ایل ڈی سی، ہیڈ کلر ک کسی بھی محکمے کی بنیادی قوت ہوتے ہیں۔ یہاں بات مزاج کی ہو رہی ہے اگر یہ ترقی پا جائیں اور راہوں میں کرپٹ افسران کی قربت میسر آئے تو پھر ان کے اندر سے جو قارون برآمد ہوتے ہیں اس کا اندازہ اور تجزیہ بہت تکلیف دہ اور تجزیہ مشکل ترین ہے۔ اعمال نامہ جس کا تذکرہ ہمارے دین میں جا بجا ملتا ہے، انسان کے کیے ہوئے سب کے سب اعمال کو اس میں درج کیا جاتا ہے لیکن شاید انسانوں کو معلوم نہیں۔ معاشرت اور سوسائٹی بھی ان کا کھاتہ تیار کرتی رہتی ہے، روح پرواز کرنے سے لحد میں اترنے تک سب حالات زندگی میں دہرا دیے جاتے ہیں اور وہ معاشرتیں بھی ہیں جن میں لوگ ایک دوسرے کو زیادہ جانتے نہیں وہ بھی خاطر جمع رکھیں ہر معاشرت کے لوگوں کے کردار 90 فیصد ان کے چہروں پہ آ جاتے ہیں لہٰذا دنیا میں اعمال نامہ 90% چہرے کی صورت لیے پھرتے ہیں بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ حالانکہ آج اپنے قارئین کے ساتھ قبلہ محمد صادق صاحب کی محفل کا تذکرہ کرنا مقصود تھا۔ کردار، نیکی اور انسانیت کی تبلیغ کرنے کے لیے جن کو زبان کا استعمال کم سے کم کرنا پڑتا ہے۔ آج کل ڈائریکٹر جنرل کسٹم آئی پی آر ای ہیں۔ مجھے یاد ہے جب کلکٹر کسٹم لاہور تھے تو ان کے ماتحت افسران سے میٹنگ کے دوران چائے نہیں پیتے تھے اور نہ ہی پانی، یہ اکثر ہفتے میں دو تین دن ہوتا تھا اور جب دفتر کے اوقات ختم ہوتے تو معلوم ہوتا کہ قبلہ محمد صادق صاحب روزہ سے تھے، حالانکہ ماہ رمضان نہیں ہوتا تھا۔ یہ بات اُن کے گھر والے یا شاید ڈرائیور جانتا ہو بہرحال دفتر میں ان کے اردگرد بیٹھے ماتحت افسران کو جب میں دیکھتا تو مجھے آرمینیا کے شاعر کی چند باتیں بہت یاد آتیں۔ ”واعظ نصیحت کر رہا تھا مگر بھیڑیے کا دھیان بھیڑوں کی طرف تھا، گڈریے کو غم تھا ان بھیڑوں کا جن کو بھیڑیا کھا گیا اور بھیڑیے کو پچھتاوا تھا ان بھیڑوں کا جو بچ گئیں“۔ بہرحال قبلہ محمد صادق صاحب جو خوانین کے تنولی قبیلہ سے ہیں اور خوانین کی اولاد ہیں اپنے نام کے ساتھ خان صرف اس لیے نہیں لکھتے کہ اس کے ادا کرنے سے گردن میں ذرا سا تفاخر کے حوالے سے جھٹکا پیدا ہوتا ہے جو عجز و انکساری کی منزل میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ لاہور کلکٹریٹ میں جو لوگ گھات لگائے بیٹھے تھے قبلہ محمد صادق صاحب کی ٹرانسفر کے بعد انہوں نے کرپشن کی نئی تاریخ رقم کی۔ پیدل ارب پتی ہو گئے، سکی شاخ کرپشن کے موسم میں گیلی ہو گئی، کچھ افسران تو ایجنٹوں کے کاروباری شریک ہو گئے اور چند ایجنٹ افسران کے تبادلے کرانے لگے پھر ”چھٹتی نہیں ہے یہ کافر لگی ہوئی“ والا قصہ چل رہا ہے۔ چیف، ڈی جی اور اب شاید چیئرمین بھی لگ جائیں مگر ماتحت افسران ان ایجنٹوں کے ماتحت ہی ہوں گے۔ اس سلسلہ میں ایک مزید کالم جناب عرفان قادر کو مخاطب کر کے لکھنے کا ارادہ ہے کہ ضرب المثل قانون دان کے محکمہ سنبھالنے پر کچھ تو فرق محسوس ہو۔ مجھے جب کبھی روحانی معاملات اور صوفی ازم کی تڑپ اور تشنگی زیادہ بڑھ جائے تو میں قبلہ محمد صادق صاحب سے درخواست کر کے ان سے وقت لے کر دفتر چلا جاتا ہوں، اس بار وقت نہیں لیا تو ایک محفل میں اکھٹے ہو گئے۔ وہی پرانی بات کہ اگر کوئی انسپکٹر، یوڈی سی، سپاہی حتیٰ کہ چپڑاسی ریٹائر ہو جائے تو قبلہ محمد صادق صاحب اس کی حوصلہ افزائی اور خراج تحسین کے لیے ایک الوداعی تقریب کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔ اب کی بار ان کے دفتر میں کلکٹر کسٹم لاہور جناب منیب سرور جو ایک خوش خوراک اور خوش مزاج انسان ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ خوش خوراک لوگ خوش مزاج بھی ضرور واقع ہوئے ہیں خوش شکل اور خوش گفتار بھی ہیں۔ منیب صاحب ریٹائرڈ جسٹس جناب غلام سرور شیخ صاحب کے بیٹے ہیں، کے علاوہ میڈم بیلم رمضان ڈائریکٹر، آفتاب اللہ شاہ ایڈیشنل ڈائریکٹر، محترمہ شیلا سلیم مغل ڈپٹی ڈائریکٹر، خالد حسین بٹ ڈپٹی ڈائریکٹر، انتظار محمد خان پرسنل اسسٹنٹ ٹو ڈائریکٹر، سلمان حسین، نواب علی مہدی، رئیسہ سلطانہ، شہزاد حسین، علی فراز، عبدالرحمن، غلام سرور مہدی انسپکٹرز، نعمان چشتی ڈی ای او، سجاد حمید سپاہی، امانت سپاہی، اور پریونٹو آفیسر جناب مشتاق بھٹی کو قبلہ محمد صادق صاحب کے دفتر میں موجود پایا۔ میں نے اس گہما گہمی کی وجہ پوچھی تو لاہور کسٹم کے معروف سپاہی محمد یٰسین کی ریٹائرمنٹ تھی۔ معروف اس لیے کہ عموماً لوگ اعلیٰ افسران کے ساتھ ڈیوٹی کرنے میں مختلف حوالوں سے چوائس رکھتے ہیں۔ محمد یٰسین پہلوان ایسا سپاہی ہے جو افسران کی چوائس رہے جس کی وجہ ڈیوٹی، وفاداری، احساس، خدمت اور ذمہ داری پوری نوکری میں کوئی ایک بھی شکایت نہ ہونا خصوصاً ڈیوٹی اور اخلاق کے حوالے سے۔ کہنے کو تو سپاہی ہے مگر اس کے اندر ایک مطمئن انسان ہے جو اطمینان شاید کسی بڑے عہدے کو نصیب نہیں۔ محمد یٰسین کو خراج تحسین پیش کیا گیا، پھول پیش کیے گئے۔ وہ اس کی زندگی کا خوبصورت دن تھا حالانکہ ریٹائرمنٹ اداس دن ہوا کرتا ہے۔ بہرحال یہ باتیں تو ایسے ہی آ گئیں۔ قبلہ محمد صادق سے ملاقات ہو اور علم و تصوف کا قلزم نہ بہے یہ ممکن نہیں۔ قرآن عظیم کی چند آیات طیبہ کی تشریح احادیث مبارکہ سیاق و سباق کے تذکرے، صوفیا اکرام میں حضرت فرید الدین عطار نیشا پوری، ترکستان، قازقستان کے حضرت احمد موساوی، حضرت عبدالقادر بیدل، عمر خیام نیشا پوری کی تصنیفات اور خدمات کا تفصیل سے تذکرہ رہا۔ اس کو ایک کالم میں بند کرنا تو درکنار چھیڑا بھی نہیں جا سکتا، گاہے گاہے ذکر کرتا رہوں گا۔ میں نے سوچا کہ آج محمد یٰسین سپاہی کے لیے لکھتے ہیں مگر ان کی شناخت کے لیے محفل کا تذکرہ ضروری تھا۔ اقتدار یا عروج کی عاجزی زوال کے وقت کی ذلت سے بچاتی ہے۔ عجز و انکساری، انسان پروری اور حساسیت کسے کہتے ہیں یہ عربی، فارسی، انگریزی، عبرانی اور متعدد دیگر زبانوں پر ملکہ رکھنے والی شخصیت جناب قبلہ محمد صادق صاحب کے طرز عمل سے پتہ چلتا ہے۔ دنیا بھر کے صوفیا، ادیب اور ادب اور پھر دو آتشہ یہ کہ طرز زندگی بھی انسانیت کا بحر قلزم دکھائی دیتا ہے۔