معدنی دولت سے مالا مال صوبہ بلوچستان کئی عشروں سے بدامنی کا شکار ہے یہ بدامنی ہی دراصل معدنی دولت کے استعمال میں ایک بڑی رکاوٹ اورپس ماندگی کی اہم وجہ ہے اسی بناپر علاقے میں احساس محرومی،مسائل،افلاس،بے روزگاری اور لاقانونیت ہے جہاں اِتنے مسائل ہوں وہاں بغاوت کی فصل کاشت کرنا نہایت آسان ہوتی ہے دشمن طاقتوں کی مکاری و عیاری سے ایسا ہوچکا،لیکن یہ بھی درست ہے کہ بلوچستان بدامنی میں ملوث کرداروں کوبیرونی مالی و تکنیکی سرپرستی حاصل ہے کیونکہ وہ بلوچوں کو پریشر گروپ کے طورپر استعمال کرناچاہتے ہیں لیکن ہمارے اِداروں کے بہادرسپوت جان پر کھیل کر بیرونی سازشوں کو ناکام بناکرمادرِ وطن کے دفاع کا فرض نبھارہے ہیں اِس حقیقت کو بھی کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ باغی بلوچ سرداراپنے لوگوں کی محرومیوں کی وجہ سے نہیں دولت کی چمک سے اغیارکے آلہ کاربنے اوراپنے مذموم مقاصد کے لیے عام نوجوانوں کو وطن سے برگشتہ کیا مگر ہمارے اِداروں نے ہمیشہ راہ بھٹکے نوجوانوں کو نرمی اور پیار و محبت سے راہ راست پر لانے کی کوشش کی جس کا نتیجہ ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی و کاروباری سرگرمیاں فروغ پارہی ہیں قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے ذمہ دار اِداروں کو ایک بڑی کامیا بی گزشتہ ہفتے کالعدم تنظیم بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے) کے بانی و سربراہ پینتالیس سالہ گلزار امام شمبے کی گرفتاری کی صورت میں ملی یہ تنظیم بلوچستان میں امن و عامہ کی صورتحال خراب کرنے میں کئی برس سے پیش پیش ہے میڈیا کے روبروگرفتار دہشت گرد گلزار امام شمبے نے ریاستِ پاکستان کے ساتھ بلوچ عوام سے معافی طلب کرتے نہ صرف رحم کی اپیل کی بلکہ اعتراف کیا کہ مسلح جنگ سے مسائل مزید گمبھیر ہوتے ہیں لہٰذا حقوق کی جنگ سیاسی و آئینی جدوجہد سے ہی ممکن ہے نیز بلوچ نوجوانوں کی مسلح کارروائیوں سے بلوچستان کے حالات مزید خراب ہوئے جس سے نقصان بھی بلوچوں کا ہی ہورہا ہے یہ اعتراف بدلتے حالات کی طرف واضح اشارہ ہے۔
کالعدم تنظیم کے سربراہ کی گرفتاری پر ایجنسیاں لائقِ تحسین ہیں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے گلزار امام کی گرفتاری کو آئی ایس آئی کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بحالی امن کے لیے سکیورٹی فورسز کی انتھک کوششیں گراں قدر ہیں گرفتاری کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی سراہا گیا پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آرنے پریس ریلیزکے ذریعے اہم گرفتاری سے عوام کو آگاہ کیا مگر گرفتار دہشت گرد کی طرف سے معافی ور رحم کی اپیل سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاست اب بھی غیرضروری رحمدلی کی روش پر گامزن ہے جو کسی صورت لائق ِ تحسین یا قابل قدر نہیں ایک ایسے شخص کو معافی دینا جس نے جانے کتنے سکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا اور عام شہریوں کو رزقِ خاک بنایا غلط فیصلہ ہو گا ایک دہشت گرد کو معافی دینا اگرریاست کے لیے ضروری ہے تو ایساکوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل بہتر ہے وطن کی سالمیت پر قربان ہونے والوں کا قصور بتادیاجائے کیونکہ ریاست کے تحفظ کا مشن پورا کرتے ہوئے جانیں قربان کرنے والوں کویکسر نظراندازکردینا دانشمندی نہیں لہٰذا بہترہے غوروخوض سے اثرات و مضمرات کا جائزہ لیکر فیصلہ کیاجائے یہ درست ہے کہ ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے لیکن اگر ایک فرزند بے گناہ بھائیوں کا خون بہانے لگے تو ماں کی بھی ذمہ داری ہے کہ رحمدلی کے بجائے ایسا انصاف کرے تا کہ دیگر شرپسند عبرت حاصل کریں معمولی جرائم کی معافی کی وجہ تو سمجھ آتی ہے کہ ایسا کرنے میں باغیوں کو قومی دھارے میں لانے کی سوچ کارفرماہے مگرایک دہشت گردکو معافی ناقابلِ فہم اور ناقابلِ قبول ہے۔
کالعدم تنظیم کے گرفتار سربراہ کو 23مئی منگل کے روز میڈیا کے سامنے لایا گیا اسی پیر اور منگل کی درمیانی شب ہنگو منجی خیل میں گیس کمپنی کے ویل پلانٹ پر ایک بڑی دہشت گردانہ کارروائی میں پندرہ سے بیس افرادحملہ آور ہوئے اور جدید ترین ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے ہوئے ایف سی کے چار جوانوں سمیت سکیورٹی پر مامور چھ افراد کو موت کی نیند سُلا دیا کارروائی کے بعد حملہ آور پہاڑی راستوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے یہ حملہ بظاہر گرفتاری کا جواب ہے اب اگر ریاست تمام ترمالی و جانی نقصان کے باوجود معافی نامے جاری کرنا شروع کر دے گی یہ عمل دہشت گردعناصر کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہو گا اِس طرح مزید نوجوانوں گمراہ ہو سکتے ہیں علاوہ ازیں پُرتشددکارروائیوں میں ملوث ہونے کے باوجود معافی نامے جاری کرنے سے یہ پیغام جائے گا کہ ریاست نے دہشت گرد عناصر کے آگے سرنڈر کر دیا ہے حالانکہ ہمارا ملک دنیا کی ایسی ساتویں جوہری طاقت ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف نہ صرف طویل جنگ لڑی بلکہ کئی محاذوں پر دشمن کے کاری وار ناکام بنائے اب اچانک نرمی، رحمدلی سے دشمن قوتوں کو کمزوری کا تاثرملے گا یہ وقت کسی قسم کی نرمی دکھانے کا نہیں بلکہ پوری قوت سے باغی عناصر کو پاش پاش کرنے کا ہے اِ س دوران امن پسند مکاتبِ فکر کو سکیورٹی اِدارے اعتماد میں لیکر چلیں تاکہ ایک طرف دشمن کی سرمایہ کاری ضائع ہو اور دہشت گرد عناصر پر ریاستی خوف طاری ہو حالیہ گرفتار دہشت گرد بارے ایسے شواہد ہیں کہ انڈیا اور افغانستان کے دورے بھی کرتا رہا ہے اِس لیے معافی دینے کے بجائے ایجنسیاں مکمل چھان بین کریں کہ یہ کہیں اب بھی دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ روابط میں تو نہیں؟ اور پھر انصاف پر مبنی ایسا فیصلہ کیاجائے جس سے شہداکے ورثا زخموں پر ٹھنڈا مرہم محسوس کریں۔
اِس میں ابہام نہیں کہ دشمن قوتوں نے دولت کی چمک سے تین چار بلوچ سرداروں کو ہم خیال بنایا جنھوں نے علاقے کے غریب نوجوانوں کو ہتھیار اُٹھانے پر مجبورکیا حالانکہ سچ یہ ہے کہ صرف بلوچستان ہی محرومیوں کا شکار نہیں بلکہ پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں بھی کافی ایسے علاقے ہیں جو آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں لیکن شہریوں نے نفرت کرتے ہوئے کبھی ریاست کے خلاف ہتھیار نہیں اُٹھائے بلکہ پُر امن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ریاستی وسائل سے حصہ طلب کیا مگر بلوچستان میں صورتحال عجیب ہے ریاستی اِداروں سے برسرِ پیکار نچلے درجے کے اہلکاروں کی کارروائیوں کے عوض ملنے والی رقوم سے غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کاربلوچ سردار خود تو یورپ و دیگر ممالک میں عیش کی خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ عام اور غریب بلوچ ایک بے مقصد جنگ کا ایندھن بن کر بلوچستان کی پس ماندگی دورکرنے میں رکاوٹ ہیں اِس سوچ کی وجہ سے گلزار امام جیسے کئی لوگ پچھتاوے کی حالت میں ہیں مگر قاتل اور مجرموں کو محض پچھتاوے کی بنا پر معاف کر دینا انصاف کی موت ہو گا۔
گلزار امام نے 1978میں بلوچستان کے ضلع پنچگورمیں جنم لیا اور 2002 میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ذریعے طلبہ سیاست میں قدم رکھا بی ایس اوکے کئی دھڑوں نے جب باہم ضم ہو کر مشترکہ جدوجہد شروع کی تو گلزار امام کی اہمیت بھی مزید بڑھ گئی 2006 میں اُسے بی ایس او آزاد پنجگور کا صدر بنا دیا گیا وہ بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل اے)اور بلوچ لبریشن آرمی سے بھی منسلک رہا اورکئی اہم اور کلیدی عہدوں پر کام کیا جب اِداروں نے سختیاں کیں تو یہ کچھ عرصہ روپوش بھی رہا بعدازاں برہمداغ بگٹی کی قیادت میں برسرِ پیکارتنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی (BRA) میں شمولیت اختیار کر لی اور برہمداغ کے نائب جیسے اہم منصب پر کام کرتا رہا دہشت گردانہ کارروائیوں میں مہارت کی بناپر جلد ہی تنظیم کے آپریشنل کمانڈر کے درجے پر فائز ہو گیا اِس تنظیم نے 2016 اور2018 کے دوران دیگر دوگروپوں بلوچ لبریشن آرمی جس کا سربراہ حیربیارمری ہے اور یونائٹڈ بلوچ آرمی جس کی سربراہی مہران مری کے پاس ہیں کے ساتھ کئی مشترکہ پُرتشدداورخونریز کارروائیاں کیں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ بے دریغ انسانی خون بہایا گیا جنیوا جیسے بیرونِ ملک کئی شہروں میں آزاد بلوچستان کے حق میں مہم چلائی گئی ممکنہ طور پر اِس دوران ہی یہ اِداروں کے روابط میں آیا مگر یہ روابط خفیہ نہ رہے علم ہوتے ہی بی آر اے نے گلزار امام کے خلاف الزامات پر مبنی بیان جاری کیا ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیم کے اہم رہنما سے گرفتاری کے عوض معاف کرنے کا وعدہ کیا گیاجس کی وجہ سے گرفتاری ممکن ہوئی مگر وہ وعدہ جس سے شہدا کے ورثا اپنے زخموں پر نمک پاشی محسوس کریں ایفا کرنے کے بجائے توڑ دینا ہی ریاست کے لیے بہتر ہے۔