بجٹ سازی کے دو مروجہ طریقے ہیں ایک متوقع آمدن کے مطابق اخراجات کا اور دوسرا متوقع/ طے کردہ اخراجات کے مطابق آمدنی کے حصول کا طریقہ۔ مہذب اقوام پہلا طریقہ اختیار کرتی ہیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہی عقل مندی کا تقاضا ہے اسی میں عافیت وفلاح ہے لیکن اکثر ترقی پذیر ممالک اخراجات کے مطابق، آمدن والے طریقے پر منصوبہ بندی کرتی ہیں اخراجات کیونکہ آمدن سے زیادہ ہوتے ہیں اس لئے ٹیکس لگا کر آمدنی کا حجم بڑھایا جانا مقصود ہوتا ہے جس کے باعث عامتہ الناس پر بوجھ پڑتا ہے۔ انکی زندگیاں مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔
ہم اکثر و بیشتر اخراجات کو سامنے رکھ کر آمدنی کا تخمینہ لگاتے رہے ہیں ہم نے اخراجات کم کرنے یا ان پر گرفت کرنے کے بجائے آمدنی بڑھانے کی ترکیب استعمال کی ہے ہمارے لئے آمدنی کا بڑا ذریعہ ٹیکس اور قرض رہا ہے اس لئے آج ہم اس مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں اخراجات پورے کرنے کے لئے انہی دو مدات کا سہارا لینا پڑ رہا ہے صورتحال تقریباً نا قابل برداشت ہو چکی ہے۔ عالمی قرضے ہوں یا اندرون ملکی قرضوں کا حجم، ہماری بساط اور اوقات سے ایک عرصہ ہوا تجاوز کر چکا ہے 130 ارب ڈالر سے زائد کے عالمی قرضے اور اسی قدر اندرونی قرضے، لاریب معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ میں دفاعی اخراجات جو کہ لازمی ہیں ان میں تخفیف و تفریق سر دست ممکن نہیں ہے۔ عالمی ساہوکار نے قرض کی اگلی قسط دینے سے انکار کر رکھا ہے ہم ایک عرصے سے اسکی شرائط کو مان کر اپنی معیشت کو انکی ہدایات کے مطابق لائن پر لانے میں مصروف رہے ہیں جس کے باعث ٹیکسوں میں ہوشربا اضافے نے عوامی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے قدر زر میں مسلسل گراوٹ کے باعث ڈالر کی قیمت اس قدر زیادہ ہو گئی ہے کہ اسکے ہماری معیشت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مہنگائی ہے کہ قابو میں نہیں ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے کلی اور جزوی معیشت کا ستیاناس کر دیا ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہد ہ نہ ہونے کے باعث ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں شدید بلکہ پریشان کن کمی واقع ہوچکی ہے ہم اپنے عالمی قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لینے کی صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں عالمی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے بھی ہمارے پاس مطلوبہ مقدار میں زرمبادلہ موجود نہیں ہے۔ امپورٹ بل ہماری اوقات سے بہت بڑھ چکا ہے ہم امپورٹ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری صنعت و حرفت کا پہیہ
رکنے لگتا ہے کیونکہ ہماری برآمدی صنعت کی روانی کا تعلق بھی امپورٹڈ خام مال سے ہے جب اس کی ترسیل متاثر ہوتی ہے تو صنعتی ترقی متاثر ہوتی ہے۔ ہم فی الحقیقت ایک ٹریپ میں پھنس چکے ہیں۔ یہ ٹریپ جان لیوا ہو چکا ہے۔
دوسری طرف عالمی معیشت بھی اضطراب اور گرداب کا شکار ہے پہلے تو کووڈ 19 کی تباہ کاریوں نے عالمی معیشت اور تجارت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ابھی دنیا اس سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کر پائی تھی کہ یوکرائن۔ روس جنگ نے عالمی معیشت کو جکڑ لیا ہے اس سے بھی اقوام عالم کے معاشی معاملات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کوئی ملک بھی اس قابل نہیں رہا کہ وہ حالات کا رخ پھیر سکے۔ عالمی سیاست شدید گرمی و اضطراب کا شکار ہے سیاسی اضطراب نے معاشی عدم استحکام کو جنم دیا ہے اور دونوں بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں مستقبل قریب میں بہتری کی کوئی بھی صورت نظر میں آ رہی ہے۔ دوسری طرف سے عالمی معیشت کا انجن، امریکہ گمبھیر حالات کا شکار ہو چکا ہے۔ ڈالر کی عالمی حیثیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان پڑ چکا ہے عالمی اور علاقائی سطح پر نئے نئے سیاسی اور معاشی اتحاد قائم ہو رہے ہیں امریکی معیشت کے دیوالیہ ہونے کی خبریں سنائی دے رہی ہیں امریکہ اسکی مسلسل تردید بھی کر رہا ہے لیکن امریکی عالمی برتری پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
ایسے حالات ہم پر، ہماری سیاست و معیشت پر منفی انداز میں اثر انداز ہو رہے ہیں خطے میں امریکی و چینی مفادات ٹکرا رہے ہیں چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ روز افزوں ہے ثمر آور ثابت ہو رہا ہے سی پیک نے بھی خطے کی سیاست اور معیشت میں تلاطم برپا کر رکھا ہے ہم سات دہائیوں سے امریکی حصار میں رہے ہیں اب ہمارے قومی و عوامی مفادات چین کے ساتھ مربوط ہو چلے ہیں لیکن ہم نے ابھی تک امریکی حصار سے نکلنے کا شعوری فیصلہ نہیں کیا ہے پاکستان کے جاری سیاسی دنگل اور بے یقینی کا تعلق بھی اس بات سے ہے اور ہماری معاشی بدحالی بھی اسی فکر و عمل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنی پوزیشن کا تعین نہیں کیا ہے ہم چینی گروپ کے ساتھ ہیں یا پہلے کی طرح امریکی اتحادی ہیں۔ ہم یہ بھی طے کر سکتے ہیں کہ ہم دونوں کے ساتھ برابری کی سطح پر دوست اور حلیف ہیں لیکن اس پالیسی کو اپنانے کے لئے جو بنیادی عوامل درکار ہوتے ہیں وہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی نئے ابھرتے ہوئے عالمی سیاسی و معاشی تناظرمیں طے کرنا ہو گی۔ ہمیں اپنی قومی ترجیحات اور مفادات کا جائزہ لے کر ابھرتے ہوئے نئے تناظر میں فیصلے کرنا ہونگے۔ ہم جس انداز میں چل رہے ہیں ہماری معیشت جس طرح قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے ہم عالمی ساہوکاروں کے ہاتھوں مسلسل بلیک میل ہو رہے ہیں اور آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار نہیں کر پا رہے ہیں۔ جس کے باعث ہمارے معاملات کسی بھی ٹریک پر چڑھتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں ہماری سیاست مکمل طور پر تباہی اور بربادی کی سمت جا رہی ہے قومی معیشت دیوالیہ ہونے کو ہے جبکہ شخصی/ عوامی معیشت پہلے ہی دیوالیہ ہو چکی ہے اب بجٹ 2023-24ء کی آمد آمد ہے جو اس بات کا اظہار ہوگا عملی اظہار کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اسحاق ڈار کی ذہانت اور معاشی حکمت کاری ہمیں کہاں لیجاتی ہے؟
ویسے امید یہی ہے کہ ہم بغیر آئی ایم ایف کے بجٹ بنا کر اپنی قومی سلامتی کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ ہم سے کئی گنا کمزور ممالک آئی ایم ایف یا دیگر عالمی ساہوکاروں کی مدد کے بغیر بھی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ہم سے کمزور ہونے کے باوجود ہم سے بہتر زندگیاں گزار رہے ہیں۔ کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ بجٹ 2023-24ء آزمائش ہے اور کامیابی کے لئے آزمائش شرط ہے۔