پچھلے چند روز سے دوبئی،متحدہ عرب امارات میں ہوں، فیملی کے ہمراہ ایک مصروفیت کے سلسلے میں اسی روز یہاں پہنچا تھا جس دن پاکستان میں وہ کچھ ہوا جس کا کبھی سوچا نہ تصور کیا تھا،جمہوری قوتوں نے دانستہ، نادانستہ طور پر اپنی اپنی انا اور اقتدار کی جنگ کے لئے ملک کے مستقبل کو داو پر لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،یہاں ہر ملنے والا مجھ سے پہلا سوال پاکستان اور اس کے موجودہ حالات کے بارے میں کرتا ہے،کوئی پوچھ رہا ہے کہ عمران خان کا قصور کیا ہے؟ پی ڈی ایم کیا کر رہی ہے؟ تو کوئی پاکستان کے مستقبل بارے پریشان دکھائی دے رہا ہے، یہاں پر مقیم پاکستانیوں کو پیارے ملک کی محافظ مسلح افواج کے بارے میں بھی سخت فکر مندی ہے، وہ پوچھ رہے ہیں ملکی وحدت کی زنجیر پاک فوج بارے ایسا رویہ کیوں؟میں ان سب ملنے والوں کے سوالات کے جواب تو دے رہا ہوں مگر اندر سے خود بھی شرمندہ ہوں،ایک صحافی اور لکھاری ہونے سے پہلے میں ایک پاکستانی ہوں اور سمجھتا ہوں پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں ہم سب ہیں،مجھے اس موقع پر منیر نیازی بہت یاد آئے، منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
میں جس ملک (کینیڈا)میں بیٹھا یہ سطور لکھ رہا ہوں،اس کے اداروں کو بنانے میں پاکستان کا اہم کردار ہے،اس کی جس ائیر لائن کو بنانے کے لئے ہماری ائیر لائن پی آئی اے نے تربیت دی تھی وہ ائیر لائن آج دنیا کی ٹاپ ائیر لائن ہے اور ہماری ائیر لائن کا شمار شاید نیچے سے ٹاپ پر ہے،آج دنیا کا روبار کے لئے دوبئی آ رہی ہے اور ہمارے ملک کے حالات یہ ہیں کہ جو غیر ملکی یہاں کاروبار کر رہے ہیں وہ بھی دل برداشتہ ہیں۔یوں تو ہمارے سیاسی معاملات کبھی کسی کی سمجھ میں نہیں آئے لیکن گزشتہ ایک برس سے جو صورت حال چل رہی ہے وہ دماغ کی چْولیں ہلا دینے کے لئے کافی ہے۔
مجھ سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہم کب تک اس ملک کے مقبول لیڈروں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے رہیں گے جو آج عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے اور ماضی میں دوسرے سیاستدانوں کے ساتھ ہوا؟ کچھ کہ رہے ہیں، عمران خان اگر کسی کیس میں گرفتار ہو گئے تو کیا کبھی کوئی سیاسی رہنما گرفتار نہیں ہوا؟ کیا ہمارے ملک کے سیاسی رہنما گرفتار نہیں ہوتے رہے؟ اور زیادہ عرصہ نہیں بیتا کہ خود عمران خان نے جیل بھرو تحریک شروع کی تھی۔ اس وقت جنہوں نے گرفتاریاں پیش کی تھیں، جو گرفتار ہوئے تھے وہ بھی تو پی ٹی آئی کے راہنما اور کارکنان ہی تھے،اب اگر کسی وجہ سے عمران خان گرفتار ہو گئے تھے تو اس میں اتنا رد عمل دکھانے والی بات کیا تھی؟ ہاں اس بات پہ احتجاج بنتا ہے اور عدالت سے رجوع کرنا بھی بنتا ہے کہ جس طرح انہیں گرفتار کیا گیا وہ عدالتی نارمز کے خلاف تھا اور ایسا ہی ہوا اور انہیں ریلیف بھی مل گیا۔
الیکشن آج ہوں یا تھوڑے عرصہ بعد،وہ ہونے ہی ہیں اس سے حکومت کتنا عرصہ اور بھاگے گی دوسری بات یہ کہ کوئی پوچھے عمران خان صاحب کو الیکشن کی اتنی جلدی تھی تو دو صوبوں کی حکومتیں اپنے ہاتھوں سے کیوں ختم کیں؟ جہاں تک آج انہیں لاحق خدشات اور خطرات کا تعلق ہے تو وہ اچھے خاصے مضبوط تھے دو صوبوں میں ان کی حکومت چل رہی تھی،پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتیں کیلے عمران خان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں مگر یہ سوال آج تک اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا بغیر کسی سیاسی وجہ کے محض اسمبلیاں توڑنا مناسب عمل تھا؟عمران خان صاحب(صفحہ 3پر بقیہ نمبر1)
کا بیانیہ آج بھی سب جماعتوں کے بیانیوں سے زیادہ طاقتور ہے مگر وہ ایک لمحے کے لئے سوچیں تو سہی کہ اگر آج پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں ہوتیں تو خان صاحب کو یہ دن دیکھنا پڑتے؟
بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت سے ڈلیور نہیں ہو پا رہا، مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہ ہو پانے کی وجہ سے ملک کے ڈیفالٹ کر جانے کے خدشات کا مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے، ملکی اقتصادی ماہرین اور بین الاقوامی مالیاتی ایجنسیاں بار بار کہہ رہی ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کی ڈیل نہ ہوئی تو ملک ڈیفالٹ کر جائے گا۔ ان حالات میں عمران خان اگر چند ماہ انتظار کر لیتے اور پارلیمنٹ کی آئینی مدت پوری ہونے پر عام انتخابات میں حصہ لیتے تو بھی ان کی جیت اور کامیابی یقینی تھی اور کوئی بعید نہیں کہ وہ دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے کامیاب ہو کر ایک بار پھر وزیر اعظم بن جاتے مگر ان کے ایک فیصلے کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک پورے تیرہ ماہ سے سیاسی بے یقینی کا شکار ہے اور کچھ بھی نہیں ہو پا رہا۔
9مئی سے اب تک ملک بھر میں جو کچھ ہوا اس کا خمیازہ حکومت نہیں عوام کو بھگتنا پڑے گا، اربوں روپے کے نقصان کا ملبہ بالواسطہ ملک کے عوام پر ہی گرنا ہے،دوسری طرف جمعرات کے روز عمران خان کو رہا کئے جانے پر جب حالات کے بہتر ہونے کی امید پیدا ہوئی تو صرف ایک دن میں نہ صرف روپے کی قدر بڑھ گئی بلکہ ملکی سٹاک ایکس چینج کی صورت حال بھی بہتر ہو گئی۔ کیا سوچنے والے یہ نہیں سوچتے کہ حالات کو یقینی پْرامن بنا کر اور سیاسی استحکام پیدا کر کے ملک کو کتنی ترقی دی جا سکتی ہے؟
حکمرانوں سے یہ کہنا ہے کہ جب ان سے حکومت نہیں چل رہی، عوام پر ٹیکس اور ٹیکس لگا کر گزارہ کیا جا رہا ہے تو ایسی حکومت کرنے کاکیا فائدہ؟ وہ کیوں نئے انتخابات نہیں کرا دیتے تاکہ سیاسی عدم استحکام ختم ہو اور پتا چلے کہ یہاں کس کی حکومت قائم ہے اور اس نے ملک کو کس سمت میں لے کر جانا ہے۔ اگر حکمران اس امید پر اگلا بجٹ پیش کرنے پر مْصر ہیں کہ لوگوں کے لئے اس میں مراعات کا اعلان کر کے وہ عوام میں مقبولیت حاصل کر لیں گے تو اسے انکی خام خیالی ہی قرار دیا جا سکتا ہے، اگلے تین چار ماہ میں تو ملک کے مالی حالات ٹھیک ہونے والے نہیں اور اگر کوئی سوچتا ہے کہ مہنگائی کی تیس فیصد شرح کے ساتھ لوگ حکمران اتحاد کو ووٹ ڈالیں گے تو اسے خود کو کسی سائیکاٹرسٹ کو دکھانا چاہئے۔
حالات بتاتے ہیں کہ سب اپنی اپنی انا کے غلام بنے ہوئے ہیں اور کسی کو درپیش چیلنجز یا عوام کو درپیش مسائل سے کوئی غرض نہیں، ضدوں، اناؤں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے عمل نے ماضی میں سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کو کچھ دیا نہ ہی اس سے اب انہیں کچھ ملنے والا ہے لہٰذا ملک، قوم، اداروں اور سیاست دانوں کی بہتری اسی میں ہے کہ افہام و تفہیم سے کام لیں اور ملک میں جو سیاسی ڈیڈ لاک کی کیفیت ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے اس کا کوئی حل نکالیں۔
محسن گورایہ