ایک گاؤں والوں کے پاس ایک ہی گائے تھی جس کے دودھ پر پورے گاؤں کا گزارہ چل رہا تھا ایک دن گائے نے ٹنکی میں سر پھنسا دیا اب ٹنکی بھی ایک تھی۔
لوگ پریشان ہوئے کہ گائے کو بچاتے ہیں تو ٹنکی توڑنا پڑے گی اور ٹنکی کو بچاتے ہیں تو گائے کا سر کاٹنا پڑے گا۔ساتھ والے گاؤں میں ایک شخص کی عقل مندی کے چرچے تھے فیصلہ ہوا کہ اسے بلایا جائے۔اسے لانے کے لیے خصوصی گھوڑا بھیجا گیا وہ شخص گھوڑے پر سوار ہو کر آیا۔
اس نے گاؤں والوں کو مشورہ دیا کہ گائے کا سر کاٹ دیا جائے سر کاٹ دیا گیا لیکن سر ٹنکی کے اندر گر گیا۔اب ٹنکی سے سر کیسے نکالا جائے؟اس نے مشورہ دیا ٹنکی توڑ دی جائے۔گائے بھی ذبح ہوچکی تھی اور ٹنکی بھی ٹوٹ چکی ہے۔وہ عقل مند صاحب تھوڑے سے فاصلے پر کھڑے روئے جا رہے تھے، لوگوں نے اسے حوصلہ دیا کہ آپ پشیمان نہ ہوں، کوئی بات نہیں، خیر ہے، گاؤں کے ایک بندے نے ہمت کر کے پوچھ لیا کہ ویسے آپ رو کیوں رہے ہیں؟
عقل مند صاحب نے جواب دیا میں رو اس لیے رہا ہوں کہ اگر میں نہ ہوتا تو تم لوگوں کا کیا بنتا؟قومی اسمبلی میں کرائے کے ارسطو اسحاق ڈار کی جذباتی تقریر سن کر مجھے وہ عقل مند شخص یاد آ جاتا ہے جسے ائیر فورس کے خصوصی جہاز میں سوار کر کے لایا گیا تھا اور آج اس پاکستانی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔مجھے پروفیسر جے۔پی چودھری کے الفاظ بڑی شدت سے یاد آ رہے ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ ”اگر ہم اپنے ملک اور پوری ملت اسلامیہ میں واقعی سوشلزم کا راستہ روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ملک اور سارے مسلمان ممالک میں خلافتِ راشدہ،حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے اسلام کا درج ذیل معاشی و اقتصادی پیٹرن/نمونہ فی الفور نافذ کر دیں:
1) اسلام میں چونکہ جاگیرداری اور سرمایہ داری حرام ہیں، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم پاکستان میں سارے ذرائع پیداوار،ذرائع ربوبیت اور سارے ذرائع رزق پر سے انسانی ملکیت اور انسانی قبضہ ختم کرکے سارے ذرائع پیداوار، ذرائع ربوبیت اور سارے ذرائع رزق اُس خدائے بزرگ و برتر کی ملکیت اور قبضے میں دے دیں جس کی کہ یہ حقیقت میں ملکیت ہیں (لہ ما فی السموات وما فی الارض)۔
2) اسلامی ریاست خدا کے سارے ذرائع پیداوار، ذرائع ربوبیت اور سارے ذرائع رزق کی نگران،تحویل دار،متوّلِی، منتظم اور کسٹوڈین ہوگی۔
3) اسلامی ریاست کی حدود کے اندر سارے لوگ گورنمنٹ/ ریاست کے ملازم ہوں گے۔ اسلامی ریاست اپنی حدود کے اندر سارے لوگوں کے نان و نفقہ کی ذمہ دار ہو گی۔ اور سارے لوگوں کی تنخواہیں اور اجرتیں اُن کی محنت کے برابر مہنگائی کے تناسب سے متعین ہوں۔
اگر پاکستان اور ملتِ اسلامیہ میں اسلام کا یہ معاشی اور اقتصادی پیٹرن/ نمونہ نافذ کردیا جائے تو میں بڑی ذمہ داری اور مکمل ہوش و حواس کے ساتھ یقین دلاتا اور اعلان کرتا کہ سوشلزم پاکستان اور ملتِ اسلامیہ کی طرف رخ نہیں کرے گا“۔اگر ہماری یہی صورت حال رہی تو روٹی کے ٹکڑے تک کوترسیں گے۔بقول رانا غلام محی الدین ثاقب
محل کی ریت، روایت سے تنگ شہزادی
بڑے سکون سے ہے میرے سنگ شہزادی
تو میری مان کبھی کاخِ خسروی سے اتر
تجھے دکھاؤں خدائی کے رنگ شہزادی
زمینِ دل میں گلِ آرزو تو کھلنے دے
مہک اٹھے گا ترا انگ انگ شہزادی
قدم قدم پہ ملیں گے سو احتیاط رہے
یہاں پہ تجھ کو ہوس کے نہنگ شہزادی
مرا نصیب کہ یک جا ہیں اس قلمرو میں
فرازِ مسندِ دل اور دبنگ شہزادی
شکست و فتح نہیں، بات اب بقا کی ہے
سو ہارنے کا نہیں میں یہ جنگ شہزادی
بہت دعائیں مری ہیر تیرے مسکن کو
ہرا بھرا رہے تیرا یہ جھنگ شہزادی
ہمارا عشق ہمیں تخت و تاجِ ہفت اقلیم
ہمارا فقر ہمیں نام و ننگ، شہزادی