چودھری پرویز الٰہی کو ”پاکستان تحریک انصاف“ کا صدر کہنا کچھ عجیب سا لگتا ہے ، شاید اس لئے کہ وہ برس ہا برس سے مسلم لیگ قاف کا حصہ تھے ، اب قاف لیگ میں اپنے حصے کو انہوں نے پی ٹی آئی میں ضم کر دیا ہے ، اس کے بعد خان صاحب نے انہیں پی ٹی آئی کا صدر بنا دیا ہے ، بشمول فواد چودھری ان کی پارٹی کے اکثر راہنماؤں نے خان صاحب کے اس فیصلے کو بادل نخواستہ ہی قبول کیا، پی ٹی آئی کے کئی پرانے اور مخلص راہنماؤں کو چودھری پرویز الٰہی سے کئی خطرات و خدشات لاحق ہیں ، ایک خطرہ یہ ہے آئندہ الیکشن (اگر ہوئے تو) میں پی ٹی آئی کی پنجاب میں یقینی کامیابی کی صورت میں پنجاب کا وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو بنایا جائے گا ، ممکن ہے خان صاحب اب کسی اور آرمی چیف کی سفارش کو رد کرنے کی ہمت نہ کریں ، البتہ یہ الگ بات ہے اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے پیش نظر پرویز الٰہی خود ہی وزیراعلیٰ بننے سے معذرت کر کے اپنے صاحبزادے مونس الٰہی کو آگے کر دیں ، اپنی حرکتوں اور عمر کے اعتبار سے مونس الٰہی ویسے بھی خان صاحب کے زیادہ قریب ہے، مونس الٰہی کو اگر واقعی وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا کم از کم بزدار سے تو وہ ہزار درجے بہتر ثابت ہوگا ۔ بزدار کو وزیراعلیٰ بنا کر خان صاحب نے نہ صرف خود کو بلکہ اپنی جماعت کو بھی گندہ اور ننگا کیا ۔ اگر علیم خان کی طاقت صلاحیت و دولت سے وہ اتنے ہی خوفزدہ تھے جس کی بنیاد پر وہ انہیں وزیراعلیٰ نہ بنانے پر بضد تھے تو پی ٹی آئی میں بے شمار اور لوگ بزدار سے ہزار درجے بہتر تھے ۔ اگر کسی نکمے شخص کو ہی وزیراعلیٰ بنانا تھا کسی کم نکمے شخص کو بنا دیا ہوتا، مگر خان صاحب نے شاید معیار یہ مقرر کیا تھا ”نکما ھونے کے ساتھ ساتھ کرپٹ اور تابعدار بھی رج کے ھونا چاہئیے“ ، اس اعتبار سے میرٹ واقعی بزدار کا ہی بنتا تھا ، چودھری پرویز الٰہی سے پی ٹی آئی کے کچھ راہنماؤں کو دوسرا خطرہ یا خدشہ یہ ہے کہ اس ملک کے ”اصلی مالکان“ نے پی ٹی آئی میں ”مائینس ون“ کا فارمولا لاگو کرنے کا اگر فیصلہ کیا ایسی صورت میں اصل مالکان کے لئے پی ٹی آئی کے سربراہ کے طور پر پرویز الٰہی سے بہتر کوئی چوائس شاید نہیں ہوگی ۔ ان حالات میں بشمول شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی کے جو راہنما یہ امید لگائے بیٹھے ہیں مائینس ون کی صورت میں پی ٹی آئی کی قیادت وہ سنبھالیں گے ان کے لئے پرویز الٰہی کی پی ٹی آئی میں شمولیت مسلسل درد سر بنی ہوئی ہے۔ اوپر سے ان کی مقبولیت کے جو تازہ اقدامات کئے جارہے ہیں پی ٹی آئی کے بیشمار پرانے اور مخلص راہنماؤں کے لئے وہ بھی پریشان کن ہیں ، چند روز قبل ان کے گھر پر اینٹی کرپشن اور پولیس نے مشترکہ طور پر جو تماشا لگائے رکھا اس سے ان کی سیاسی مقبولیت میں یکدم اضافہ ہوگیا ۔ اس موقع پر جس طرح ان کے گھر کا گیٹ توڑا گیا ۔ جس طرح پولیس ملازمین اور اینٹی کرپشن کے لوگ ان کے گھر میں داخل ہوئے ، ان کے ملازمین کو گرفتار کیا اور اس کے بعد ان کی گرفتاری میں جس طرح ناکامی ہوئی، اس کے پیچھے کیا مقاصد تھے ؟ اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے ۔ دلچسپ واقعہ یہ ہے ان کے گھر سے ان کا ملازم سمجھ کر ایک ایسے شخص کو بھی گرفتار کر لیا گیا جو بعد میں پتہ چلا یہ ان کا نہیں پولیس کا اپنا ملازم ہے ، اس پر مجھے ایک سابقہ آئی جی سعادت اللہ خان یاد آگئے ۔ ایک روز مال روڈ سے گزرتے ہوئے ایک بینک کے باہر ایک”پولیس ملازم“کو انہوں نے کھڑے دیکھا ،اپنے سکیورٹی سٹاف سے کہا ”اسے اٹھاؤ اور میرے دفتر لے آو“، دفتر پہنچ کر انہوں نے اسے اس بات پر سخت برا بھلا کہا کہ تم نے وردی صحیح رنگ کی نہیں پہنی ہوئی ، وہ بولا ”سرجی میں پولیس ملازم نہیں ، میں تو بینک کا گارڈ ہوں ، آپ مجھے پولیس ملازم سمجھ کر اٹھا لائے ہیں “۔۔ چودھری پرویز الٰہی کے گھر سے ان کے ملازم سمجھ کر کچھ ایسے لوگوں کو اٹھا لیا گیا جو اصل میں کسی اور کے ”ملازم“تھے۔۔یہ بھی پتہ چلا چھاپے کی خبر ان تک پہلے پہنچ گئی تھی ، کچھ لوگوں کے مطابق یہ خبر بذریعہ پولیس ان تک پہنچی تھی ، ہمارے ہاں ہر الٹا سیدھا الزام بے چاری پولیس پر لگا دیا جاتا ہے ، جبکہ ”نامعلوم افراد“ہر معاملے میں ”معصوم“اور بے قصور قرار پاتے ہیں ، میری معلومات کے مطابق پرویز الٰہی کو چھاپے کی قبل ازوقت اطلاع ”غیر پولیس ذرائع“ سے ملی تھی ، البتہ دوران چھاپہ ان کے بھانجے ، وفاقی وزیر چودھری سالک حسین سے جو بدسلوکی کی گئی وہ انتہائی افسوس ناک ہے ، اس موقع پر کس نے کس کو تھپڑ مارا ؟ چودھری سالک حسین زخمی کیسے ہوئے ؟ یہ تفصیلات مکمل طور پر میڈیا پر ابھی نہیں آئیں , چودھری سالک حسین کی ہمت ہے انہوں نے یہ سب برداشت کر لیا ، ممکن ہے اپنی حکومت کی عزت رکھنے کے لئے ، یا اپنی وزارت رکھنے کے لئے وہ خاموش رہے ہوں، اس واقعے پر جس شرافت کا مظاہرہ انہوں نے کیا ان کے حوصلے کی داد دینی چاہئیے، کوئی غیرت مند شخص یہ سب برداشت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔ کچھ لوگوں نے اس چھاپے کی ناکامی لاہور پولیس کے کھاتے میں ڈالنے کی ناکام کوشش بھی کی ، بے چاری پولیس کو جتنا کام اس روز سونپا گیا تھا وہ اس نے انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دیا ، اس سے زیادہ ان بے چاروں میں ہمت ہے نہ صلاحیت ہے ، پولیس بے چاری بڑے لوگوں کے بس گیٹ شیٹ ہی توڑ سکتی ہے ، یا زیادہ سے زیادہ گھر کے اندر داخل ہو کر بڑے لوگوں کے کچھ ملازموں پر تشدد کر کے انہیں گرفتار کر سکتی ہے ، سنا ہے ایک ملازم نے بتایا چودھری پرویز الٰہی گھر میں ہی موجود ہیں تو موقع پر موجود ایک سول افسر نے دو زناٹے دار تھپڑ اس ملازم کے منہ پر مارے کہ تم ہوتے کون ہو ہمیں یہ بتانے والے ؟۔۔ جہاں تک ہماری تھکی ہاری اور”درداں ماری“ پولیس کا معاملہ ہے وہ بے چاری اپنے افسروں کے ناجائز احکامات پر غلط کام کر کر کے غلط کاموں کی اتنی عادی ہو چکی ہے اب غلط کام اسے صحیح اور صحیح کام غلط لگتے ہیں ، محکمہ پولیس کی جب از سر نو بحالی ہوگی پولیس ملازمین کو صحیح کاموں کے باقاعدہ کورسز کروانے پڑیں گے ، انہیں بتانا پڑے گا رولز کے مطابق آپ کے اصل اور صحیح یہ ہوا کرتے تھے۔۔ چودھری پرویز الٰہی کی گرفتاری کو عمران خان کی گرفتاری جتنا مشکل بنا کر چودھری پرویز الٰہی کو عمران خان کے مقابلے کا لیڈر بنا دیا گیا ہے، جس طرح خان صاحب کی ضمانتیں ہو رہی ہیں اسی طرح پرویز الٰہی کی بھی ہو رہی ہیں ، ”نامعلوم افراد“کے اپنے ہی کھیل اپنے ہی تماشے ہیں ، کل تک جو کچھ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوتا رہا اب پی ٹی آئی اور خان صاحب کے ساتھ ہو رہا ہے ، تو کیا یہ ممکن نہیں آج جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے وہی کچھ کل ایک بار پھر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونا شروع ہو جائے ؟ پاکستان بننے سے لے کر پاکستان تباہ ہونے تک بلی چوہے کا کھیل مسلسل جاری ہے ، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دیکھانے کے ہمیشہ اور رہے ہیں ،کچھ لوگوں میں اٹ کتے کا بیر اس حد تک بڑھ گیا ہے سمجھ ہی نہیں آتی اینٹ کون ہے کتا کون ہے ؟ ؟ ؟