پولیس کسی کی نہیں؟

اب بھلا کوئی شک رہ گیا ہے کہ پاکستان ایک پولیس اسٹیٹ ہے ، ایک ایسی ریاست جہاں گورے کے جانے کے بعد ’کالے‘ حکمرانوں کے ہاتھ پولیس ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مخالفین سمیت عوام کا قبلہ دُرست رکھتی ہے۔ پولیس کی داستان ظلم اس قدر طویل ہے کہ رہے رب کا نام ۔ اسے کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں؟فیصلہ کرنا اسقدر آسان نہیں ۔ کسے معلوم نہیں کہ یہ نظام گورے نے برصغیر پاک و ہند میں کیوں لاگو کیااور آج بھی اپنے دیس برطانیہ کو اس سے کوسوں دور رکھا۔ چلیں اگر نہیں معلوم تو ہم اس پر تھوڑی روشنی ڈال دیتے ہیں ۔ بنیادی طور پر لگ بھگ پونے دو سو سال قبل یہ نظام آئرلینڈمیں لاگو پولیس کے نظام کی طرز پر برصغیر پاک و ہند میں لاگو کیاگیا جس کی بنیاد پر مقامی آبادی کو قابو میں رکھ کر انہیں ہر وقت باور کرواتے رہنا تھا کہ وہ گورے حکمران کے غلام ہیں جس کے ایک اشارہِ ابرو پر ان کے تمام بنیادی حقوق غصب کیے جاسکتے ہیں بلکہ گرفتاری کے ساتھ انہیں ان کے مال و متاع ، حتیٰ کہ زندگی جیسی قیمتی شے سے بھی محروم کیا جا سکتا ہے۔ یعنی وہ جب چاہتا اور جسقدر چاہتا مقامی آبادی کا استحصال کرتا۔ پولیس اس عمل میں اس کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار بنی رہی ۔ آزادی کے بعد گورا تو چلا گیا لیکن اقتدار ’کالے‘ حکمرانوں کے ہاتھ آگیا۔ گزشتہ 70سال سے زائد عرصہ کے دوران چند کو چھوڑ کر لگ بھگ سبھی حکمرانوں نے اپنے مخالفین اورعام پاکستانیوں کی پولیس کے ہاتھوں خوب درگت بنائی اور استحصال کیا ۔حکمرانوں کی جانب سے پولیس کا قبلہ دُرست کرنے کے دعوے بھی تسلسل کے ساتھ کیے جاتے رہے۔ کئی کمیشن بنے ۔2002کی پولیس اصلاحات لائی گئیں تاہم نتیجہ وہی صفر ۔ پولیس کے لیے کسی بھی وقت کسی عام پاکستانی کی چادر کی پامالی اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی ایک ایسا معمول کا عمل بن چکا ہے جسے معاشرہ غالباً ذہنی طور پر قبول کرچکا ہے۔الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات آئے روز ناجائز چھاپوں، گرفتاریوں ، حبس بے جا میں رکھنے اور ٹارچر سمیت جعلی پولیس مقابلوں کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں تاہم پولیس کا نظام دُرست ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ اُلٹا ہر سال تسلسل کے ساتھ پولیس کے بجٹ میں اربوں روپے کا اضافہ کیا جارہا ہے۔ عام شہریوں کی بات تو ایک طرف عزت دار شہری سمجھے جانے والے افراد کا جنازہ نکالنا بھی پولیس کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا پھر مسلم لیگ نواز یا پھر پاکستان تحریک انصاف ، سبھی پارٹیوں کی قیادت نے حکومت میں آنے سے قبل پولیس نظام میں بہتری لانے کے بلندو بانگ دعوے کیے تاہم جیسے ہی انہیں اقتدار ملا انہوں نے پولیس کو اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کیا اور یہ یکسر بھول گئے کہ انہیں کسی دن اقتدار چھوڑ کر اپوزیشن میں بھی آنا ہے۔ آصف علی زرداری کو ماضی کے ایک بدنام زمانہ انسپکٹر نوید سعید جس نے جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے خاصی شہرت پائی تھی اور بعد ازاں اپنے ہی مخالفین کے ہاتھوں قتل ہوا ، کے بیہمانہ تشدد سے بچنے کے لئے دوران حراست اپنی زبان کاٹنی پڑی ۔یہ انسپکٹر نواز شریف کے دور اقتدار میں اکثر و بیشتر 180ایچ ماڈل ٹاﺅں میں دیکھا جاتا رہا۔نواز شریف کے دوِراقتدار کے دوران پولیس افسر چوہددری شفقات احمد نواز شریف کے مرحوم والدِ محترم میاں شریف کے قریب ہونے میں خاصے کامیاب رہے ۔ یہ پولیس افسر ہر لمحہ میاں شریف کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہتے تھے اور میاں شریف کو اپنے والد کا درجہ دیتے تھے تاہم نواز شریف کے اپوزیشن میں آتے ہی میاں شریف گرفتار ہوئے اورانہیں گرفتاری کے وقت پولیس وین میں اٹھا کر پھینکنے والے یہی پولیس افسر چوہدری شفقات ہی تھے۔مشرف دور میں پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بنے تو چوہدری شفقات انکی بھی اسی طرح خدمت کرتے رہے ۔ پولیس کے ذریعے ہی پرویز الٰہی نے اپنے بہت سے مخالفین کی وفاداریاں تبدیل کروائیں اور اس کے صلے میں منظور نظر پولیس افسران پر عنایات کی بارش کر دی۔ عمران خان اپوزیشن میں تھے تو پولیس کو ’گلو بٹ‘ کا خطاب دیتے تھے ۔تاہم اقتدار میں پہنچتے ہی وہ بھی پولیس میں اصلاحات لانے کے عوام سے کیے جانے والے وعدوں سے دستبردار ہوگئے ۔پولیس نے کچھ عرصہ قبل جب عمران خان کی غیر موجودگی میں انکے گھر کا دروازہ توڑا وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ تاہم پرویز الٰہی کی شخصیت دیگر تمام سیاستدانوں سے مختلف رہی انہوں نے ہر دور میں اقتدار کی سیاست اس خوش اسلوبی سے کی کہ ان کے بارے میں یہ عام تاثر رہا کہ اس خاندان کی سیاست کو کبھی زوال نہیں ہوگا ۔یہ اسٹیبلمشنٹ کے منظور نظر افراد ہیں جنہوں نے محکمہ پولیس کو ہر دور میں اسقدر نواز ا ہے کہ پولیس افسران و اہلکار ان کے اشارہ ِ ابرو پر جان دینے کو تیار ہیں ۔ تاہم جو کچھ انٹی کرپشن کے چھاپے کے دوران پولیس نے پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت کے گھروں میں کیا ہے وہ یقینا ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہوگا۔ پرویز الٰہی کے بہت سے ہمدرد یہ گلا برملا کرتے نظر آتے ہیں کہ پولیس کو یہ سلوک پرویز الٰہی کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے تھا وہ تو ان کے بہت بڑے ہمدرد تھے انہوں پولیس فورس کو بہت سے مراعات اور فوائد لیکر دیے ۔اسکا بجٹ اربوں روپے تک پہنچایا ۔ پرویز الٰہی خاندان کی عورتوں کے چہرے آج تک کسی نے نہیں دیکھے تھے ۔ یہ بہت بڑا ظلم اور زیادتی ہوئی ہے ۔ جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو کلیدی عہدوں پر موجود اسکی تمام اہم شخصیات اس آپریشن سے اپنی برآت کا اعلان کرچکے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ اس آپریشن کا حکم کس نے دیا۔ اگر ایسا ہے تو یہ اس سے بھی زیادہ سنگین معاملہ ہے۔ یعنی پولیس کو کنٹرول کون کر رہا ہے؟ اس بحث سے قطع نظر کہ یہ حکم کس نے دیا۔ تمام جماعتوں کے قائدین کو جان لینا چاہیے کہ پولیس کسی کی نہیں ، محکمہ پولیس میں اصلاحات لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔اگر عام پاکستانی کی چادر اور چادر دیواری اسی طرح پامال ہوتی رہے گی اور اسکی عورتوں کی پولیس کے ہاتھوں تذلیل جاری رہے گی توسیاستداں یا حکمران اور انکے اہل خانہ بھی پولیس کی درندگی کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں ۔ یہ ہاتھ کس وقت ان کے گریبان تک پہنچ جائے کچھ بعید نہیں۔