مطلب نکل گیا ہے تو”پشانتے“ نہیں!

پچھلے دنوں میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں ”سرکاری اپوزیشن لیڈر“ راجا ریاض احمد کے اْن وفاقی حکمرانوں کے بارے میں گلے شکوے و آہ و زاریاں سْن رہا تھا جنہوں نے اپنی حکومت بنانے کے لئے اْنہیں بطور ہتھیار استعمال کیا، کون سے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا؟ میں یہ بتانے سے قاصر ہوں مگر راجا ریاض یقینا جانتے ہیں، اسی لیے وہ یہ سمجھتے ہیں بطور”سرکاری اپوزیشن لیڈر“ کے جو مقام یا عہدہ اْنہیں ملنا چاہئے تھا ابھی تک نہیں ملا، حتی کہ اْنہیں وفاقی وزیر تک نہیں بنایا گیا، جس طرح کے وہ اپوزیشن لیڈر ہیں اْسی طرح کا وفاقی وزیر بننا اْن کا حق بنتا تھا، جس طرح کی وہ اہلیت و قابلیت رکھتے ہیں بہتر تھا اْنہیں وفاقی وزیر تعلیم بنایا جاتا، افسوس یہ عہدہ اْن کے بجائے رانا تنویر احمد کو دے دیا گیا، حکومت کو شاید یہ پیغام دینا مقصود تھا وزیر تعلیم کے لئے صرف جاہل ہونا نہیں چول ہونا بھی ضروری ہوتا ہے، ”چول“ کیا ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت ہمارے محترم شاعر و کالم نگار دوست خالد مسعود خان اپنی ایک نظم میں تفصیل سے کر چکے ہیں، اْس کے بعد پاکستان میں ہر شخص کا خود کو”چول“ سمجھنا اْس کا بنیادی حق بنتا ہے، البتہ اس سے بڑا چول پن کوئی نہیں ہو سکتا کسی شخص کو بطور وزیر تعلیم ایک اعلیٰ درس گاہ کے کانوکیشن میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جائے اور وہ وہاں طلباء و اساتذہ کی موجودگی میں کْھلے عام گالی دینے کی اپنی عادت پر قابوہی نہ پا سکے، ویسے جس طرح کا پاکستان میں اب سیاسی ماحول بن گیا ہے، جہاں بے شمار نئے نئے محکمے بن رہے ہیں، ایک محکمہ‘”گالم گلوچ و ہاتھا پائی“ کا بھی ہونا چاہئے، اْس کے وزیر کا کام حکومت کے ہر مخالف کو گالیاں دینا اور حسب ضرورت یا حسب توفیق اْس کی ٹْھکائی وغیرہ کرنا ہو، یہ محکمہ اگر بنے تو اس کے سب سے زیادہ حق دار رانا تنویر ہوں گے، تعلیم کے ساتھ ساتھ مزید ایک”بیکار محکمے“ کے وزیر بن کر اگلے الیکشن میں وہ اپنے حلقے کے عوام کو یہ بتا سکتے ہیں ”وہ ایک نہیں دو دو بیکار محکموں کے وزیر رہے ہیں“، وزیر برائے گالم گلوچ و ہاتھا پائی کے لئے دوسری بہترین چوائس فردوس عاشق اعوان ہو سکتی ہیں، وہ بیچاری آج کل تقریبآ فارغ بیٹھی ہوئی ہیں، اْن سے بذریعہ خواجہ آصف رابطہ کر کے اْنہیں ن لیگ میں شامل کروا کے یہ وزارت اْن کے”سپرد خاک“ بھی کی جاسکتی ہے، وہ صرف زبانی کلامی نہیں عملی طور پر بھی یہ ثابت کر چکی ہیں وزارت گالم گلوچ و ہاتھا پائی“کے لئے اْن سے زیادہ موزوں اور کوئی نہیں ہو سکتا، میں حیران ہوں اس کام کے لئے ایک موزوں ترین خاتون کو خان صاحب نے اپنی قْربت سے فارغ کیوں کر دیا؟ کیا لڑائی جھگڑے و ہاتھا پائی وغیرہ کے لئے اْن کے پائے یا سری پائے کی کوئی اور عورت اْن کی جماعت میں ہے؟ آج وہ اگر تحریک انصاف میں فعال ہوتیں رانا ثناء اللہ یا طلال چودھری کی بولتی بند کروا دیتیں، تحریک انصاف نے شہباز گل کو اْن کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی پوری کوشش کی، مگر اس سے پہلے کہ شہباز گل، خان صاحب کے مخالفین کے ساتھ بدزبانی کرتے کرتے اْن کی ٹْھکائی کرنا بھی شروع کر دیتے اْن بے چارے کی اپنی ٹْھکائی ہوگئی، اور ہوئی بھی کچھ اس انداز میں اْس کی تفصیل بھی وہ نہیں بتا سکتے، البتہ اْس کی تفصیل خان صاحب کئی بار بتا چکے ہیں، سْنا ہے کچھ عرصہ پہلے جب شیخ رشید احمد گرفتار ہوئے، اْنہوں نے فوری طور پر خان صاحب سے یہ اپیل کی تھی ”اپنی کسی تقریر یا بیان میں میری گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے حسب عادت یہ نہ کہہ دیجئے گا ”شیخ رشید کو ننگا کیا گیا ہے“، ویسے ممکن ہے یہ زیادتی شیخ صاحب کے ساتھ کی گئی ہو، کسی انتقامی کارروائی کے طور پر نہیں صرف یہ جاننے کے لئے کہ اْنہوں نے اب تک شادی کیوں نہیں کی؟ کچھ راز جاننے کی جب تک عملی طور پر کوئی کوشش نہ کرے وہ راز ساری عمر سامنے نہیں آتے، جیسے ہمارے مقبول ترین لکھاری مْنو بھائی کی بیگم نے شادی سے اگلے ہی روز اْن سے کہہ دیا تھا”آپ تو واقعی مْنو بھائی ہیں“۔۔ بہرحال میں راجا ریاض کی بات کر رہا تھا، میری اطلاع کے مطابق وہ چونکہ میرا کالم بڑے غور سے پڑھتے ہیں، جو اْن کی حرکتوں اور گفتگو سے لگتا بھی ہے، تو ہوسکتا ہے میرا یہ کالم پڑھتے ہوئے وہ یہ سوچ رہے ہوں ”بٹ صاحب نے اپنا یہ کالم شروع تو مجھ سے کیا تھا، اب اپنے کالم میں وہ مجھے“پشان”بھی نہیں رہے، راجا ریاض کی سب سے بڑی ”پشان“ یہ ہے بوقت ضرورت اور حسب ضرورت کوئی بھی اْنہیں باآسانی استعمال کر سکتا ہے، ”پاکستان تحریک انصاف“ کی یہ بدقسمتی و محرومی ہے راجا ریاض جیسے اہم ترین راہنما سے خود کو اْس نے محروم کر لیا، راجا ریاض کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئیں، اْصولی طور پر عمران خان صاحب کو وزیراعلیٰ پنجاب راجا ریاض کو بنانا چاہئے تھا، یعنی اگر کسی چول کو ہی وزیراعلیٰ بنانا تھا تو بہتر تھا کسی کم چول کو وہ بناتے؟ راجا ریاض شاید اتنی لْوٹ مار بھی نہ کرتے، کیونکہ لْوٹ مار کرنے کے لئے جو حوصلہ چاہئے ہوتا ہے وہ راجا ریاض میں نہیں ہے، البتہ چھوٹے موٹے منہ وغیرہ مارنے کے تھوڑی بہت کوشش وہ بے چارے ضرور کر لیتے ہیں، پی ٹی آئی کی آج تک سمجھ ہی نہیں آئی، ایسی کچھ چیزوں سے استفادہ وہ کر لیتی ہے کچھ سے نہیں کرتی۔۔ بطور”سرکاری اپوزیشن لیڈر“ جو خدمات موجودہ حکمرانوں کے لئے راجا ریاض نے انجام دیں سچ پوچھیں اْن کے مطابق اْن کا یہ حق بنتا ہے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ساتھ اضافی طور پر ڈپٹی وزیراعظم کے عہدے سے بھی اْنہیں نوازا یا شہبازا جائے، مگر بیوفائی کی یہ حد ہے نون لیگ والے اب اْنہیں ”پشان“ بھی نہیں رہے، راجا ریاض کی غیرت جس روز پوری طرح جاگ گئی مجھے یقین ہے وہ فوری طور پر وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کر کے اْن سے صاف صاف یہ کہہ دیں گے ”سر مجھ سے لینے والامزید کوئی کام اگر رہ گیا ہے فوری طور پر وہ بھی لے لیں، کیونکہ مجھ جیسا اپوزیشن لیڈر ہوسکتا ہے دوبارہ زندگی میں آپ کو کبھی نہ ملے اور زندگی کا کیا پتہ دوبارہ ملے یا نہ ملے“۔۔ راجا ریاض احمد نے موجودہ حکمرانوں خصوصاً نون لیگ کی جو خدمت کی ہے نون لیگی حکمران اگر خان صاحب کی طرح کے طوطا چشم نہ ہوتے ابھی سے یہ اعلان فرما دیتے ”پنجاب میں آئندہ ہمارے وزیراعلیٰ راجا ریاض ہوں گے“، ویسے اگلے الیکشن میں متوقع طور پر پنجاب میں نون لیگ کی جو حالت ہونی ہے اْس کے مطابق اس اعلان پر نون لیگ کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا چاہئے، یہ تو خیر ہماری خواہش اور توقع ہے، راجا ریاض کی توقع کے مطابق تو نون لیگ اْنہیں اپنا ٹکٹ بھی شاید مْشکل سے ھی دے، ہو سکتا ہے اْنہیں صرف کسی سینما کا ٹکٹ دے کے ٹرخا دیا جائے، راجا ریاض کے لئے ایک بڑی مْشکل اب یہ بھی ہے جن ”حاجی صاحب“ نے اْنہیں نون لیگ اور گیارہ جماعتی حکمرانی اتحاد کا اپوزیشن لیڈر بننے پر اْکسایا تھا وہ اب ریٹائرڈ ہو کر ٹکے ٹوکری ہو چْکے ہیں، ان حالات میں راجا ریاض کو بھی اب سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لینی چاہئے، اْن کی حیثیت اب محض ایک”چلے ہوئے کارتوس“ یا”جگہ جگہ سے سوراخ زدہ لوٹے“ کی ہے، ابھی تو وہ صرف حکمرانوں کے خود کو نہ”پشاننے“ کا گلہ کر رہے ہیں، اْنہیں چاہئے دعا کریں عہدے سے فارغ ہونے کے بعد پبلک بھی اْنہیں نہ ”پشانے“ ورنہ اْنہیں ”پشان“ کر جو حال پبلک نے اْن کا کرنا ہے اْنہیں سمجھ ہی نہیں آنی وہ وزیراعظم کے اپوزیشن لیڈر تھے یا اپوزیشن لیڈر کے وزیر اعظم تھے؟؟