گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ میں ”ان کیمرہ“ اجلاس ہوا جس میں عسکری و سیاسی قیادت نے حصہ لیا۔ ان کیمرہ اجلاس سے مراد ایسی میٹنگ ہوتی ہے، جسے خفیہ رکھا جاتا ہے، اس میں صرف سٹیک ہولڈرز ہی حصہ لیتے ہیں، اور اس کی کارروائی کو براہ راست مانیٹر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ضرورت انتہائی حساس معاملات کو ڈسکس کرنے کے لیے محسوس کی جاتی ہے۔ دنیا بھرمیں اس قسم کی میٹنگ کا مقصد ملک بھر میں موجود مسائل سے نمٹنا ہوتا ہے اور اس کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل بنانا ہوتا ہے۔ یہاں بھی گزشتہ ہفتے اسی قسم کا اجلاس منعقد کیا گیا۔ جس میں سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر اب ”ہمارے پاکستان“ کی بات کرنی چاہئے۔ موجودہ جمہوری سیٹ اپ پر اطمینان کے اظہار کیلئے آرمی چیف کے یہ الفاظ کافی ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں، پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ قومی سلامتی کے اِن کیمرہ اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ نئے آپریشن کے بجائے ہول آف نیشنل اپروچ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مطلب یہ کہ نئے نام کے ساتھ آپریشن شروع کرنے کے بجائے انٹیلی جنس بیسڈ ٹارگٹڈ آپریشن ہو گا۔
آرمی چیف کے اس بیان کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اب نئے پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر متحد ہونے کی ضرورت ہے، اُن کا یہ پیغام ان حلقوں کے لیے کافی ہے جو اس وقت ملک کو نئے مسائل کی طرف جھونک رہے ہیں۔ حالانکہ جمہوریت کے اندر تمام مسائل کا حل موجود ہے مگر اس صورت میں جب اہلِ سیاست ایوان کے اندر بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں! لیکن فی الوقت تو تمام سیاستدانوں کے طرز سیاست کی وجہ سے ملک سیاسی، معاشی اور آئینی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ طویل مذاکرات اور کڑی شرائط کو پورا کرنے کے بعد پاکستان آئی ایم ایف پیکیج کے حصول کے قریب ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے نے دوست ممالک سے تین ارب ڈالر کی فنانسنگ کی ضمانت مانگی تھی، دو ارب ڈالر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ایک ارب ڈالر دینے کی تصدیق کر دی ہے۔ اس یقین دہانی کے بعد آئی ایم ایف پیکیج کا حصول ممکن ہو پائے گا۔غالب امکان
ہے آئی ایم ایف پیکیج کے بعد معاشی حالات میں بہتری آئے گی مگر دوسری طرف ملک میں سیاسی انارکی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔اربابِ حل و عقد نے اپنی روش نہ بدلی تو ہم کبھی بھی مسائل کے گرداب سے نہیں نکل پائیں گے۔
لہٰذاوطن عزیز کو مسائل کی گرداب سے نکالنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ یہ سب ایک ٹیبل پر اکٹھے ہوں۔ اور الیکشن کرانے کے حوالے سے کوئی حل نکالیں۔ کیوں کہ جمہوریت کا پہلا اصول یہ ہے کہ اصل طاقت عوام کی ہے جو ہمارے حکمرانوں کو منتقل ہوتی ہے، لیکن ہمارے رہبر اس طاقت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت لڑائی اس بات کی ہے کہ سب سے برتر کون ہے؟ اور کون اپنی انا کی بقا سلامت رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں الگ سے اس وقت طبلِ جنگ بج چکا ہے۔ ملک کے دو بڑے ادارے آمنے سامنے ہیں۔ سپریم کورٹ جو حکم دیتی ہے حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے اس کو مسترد کر دیتی ہے۔ سارا جھگڑا، ساری لڑائی پنجاب الیکشن کے حوالے سے ہوئی، پھر ہم نے دیکھا کہ یہ تقسیم، یہ کشیدگی صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ عدلیہ بھی اس کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اندر تقسیم کو دیکھ کر سوشل میڈیا پر یہ خبر بھی پھیلی کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال اور قاضی فائز عیسیٰ کاجھگڑا ہوا ہے، یہ خبر اتنی پھیلی کہ ترجمان سپریم کورٹ کو اس کی تردید جاری کرنا پڑی کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ یعنی تصادم کا عالم دیکھئے کہ کوئی بھی افواہ اڑائی جاتی ہے تو وہ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔
جبکہ دوسری طرف عوام تو کیا جانوروں کا بھی یہاں برا حال دکھائی دے رہا ہے۔ نہیں یقین تو کراچی کے چڑیا گھر وزٹ کر لیں۔ وہاں کے چڑیا گھر کی ہتھنی نور جہاں مناسب دیکھ بھال اور علاج نہ ہونے کی بنا پر سخت بیمار ہے۔ پاؤں میں سوزش ہے۔ کھڑی نہیں ہوسکتی، سو بے سدھ پڑی ہے۔نورجہاں کی عمر صرف 17 سال ہے اور ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر اس کو مناسب خوراک دی جائے اور اس کا دھیان رکھا جائے تو یہ بیس پچیس برس اور زندہ رہ سکتی ہے۔مگر نورجہاں کا المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستانیوں کے ہتھے چڑھ گئی۔تنہائی کا شکار کاؤن کی کہانی کسے بھولی ہوگی جسے واپس کمبوڈیا کے جانوروں کے بحالی کے مرکز بھیج دیا گیا۔ سچّی بات ہے ایک طاقتور اور قوی الجثہ جانور کو اس طرح بے سدھ پڑا دیکھ کر دل کو تکلیف ہوئی بیمار کمزور اور اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو سکنے والی ہتھنی کو دیکھ کر میرا دھیان اپنے ملک پاکستان کی طرف چلا گیا۔ پاکستان کا حال بھی حکمرانوں نے نور جہاں کی طرح کر دیا ہے اس کے گٹے گوڈوں میں بھی کرپشن کی سوزش ہو چکی ہے۔ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا محال ہے، معیشت بیٹھ چکی ہے۔ پاکستان کے ایک عام آدمی کی معاشی صورتحال اس قدر خراب ہے اس کے لیے دو وقت کی روٹی کھانا بوجھل ہوچکا ہے۔جہاں روٹی جیسی بنیادی ضرورت پوری نہ ہورہی ہو ایسے میں تہوار کی آمد سے جڑی خواہشات اور ضرورتیں پورا کرنے کی سکت کہاں ہوتی ہے۔ اس وقت عید کے موقع پر بھی بازاروں میں رش نہیں دکاندار الگ پریشان بیٹھے ہیں کہ لوگوں میں قوت خرید نہیں رہی۔ معیشت کی گاڑی تک رک کے چلتی ہے کبھی ٹھہر جاتی ہے۔ اشرافیہ کی مراعات ٹیکسوں کے پیسے سے ادا ہوتی ہیں اور ٹیکسوں کا بوجھ ایک سائیکل کی سواری رکھنے والا شخص بھی برداشت کرتا ہے۔ سیاسی محاذ پر اخلاقی اقدار اپنی بساط لپیٹ چکی ہیں۔ مفاد اور نفرت کی سیاست سے معاشرے میں تقسیم اتنی بڑھ چکی ہے کہ شریف آدمی سیاست کے موضوع پر بات کرنے سے کتراتا ہے کیونکہ جہاں اختلاف رائے ہو وہاں پر سیاسی مخالفین کے ہرکارے آپ پر لفظوں کی وہ گولہ باری کر یں گے کہ خدا کی پناہ! نور جہاں کے حوالے سے تو بختاور زرداری نے یہ کہہ دیا ہے کہ اس چڑیا گھر کو بند کر دیا جائے۔بختاور زرداری کی یہ بات تو حکمران سوچ کی عکاسی کرتی ہے گزشتہ دو دہائیوں سے سندھ پر ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔ان کا شہر لاڑکانہ جہاں سے ملک کے تین وزیراعظم آئے کی حالت یہ ہے کہ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں علاج معالجہ کی سہولیات اور ہسپتالوں کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ درجنوں بچے غلط انجکشن لگنے سے ایڈز کے مریض بن گئے اور اس پر عالمی سطح پر ایک ہلچل مچی۔ شاید یہ دنیا میں پہلا واقعہ تھا کہ بچے اتنی تعداد میں ایڈز کا شکار ہوئے۔ہمارے اہل اختیار طبقے کی سوچ یہی ہے چیزوں کو برباد کر دو تباہی پھیر دو، تالے لگا دو بیچ دو۔ نور جہاں تو ایک جانور ہے یہاں تو جیتے جاگتے انسانوں کے ساتھ بے حسی کا سلوک کیا جارہا ہے۔ آٹا لینے کی قطاروں میں لوگ مر رہے ہیں لیکن کسی پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔
لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ نئے پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر تمام سٹیک ہولڈرز اور عوام ”ہمارا پاکستان“ کا راگ اپنائیں تاکہ یہ ملک مسائل کی دلدل سے نکل سکے ورنہ ہم مزید پستی میں چلے جائیں گے۔