ایک تو نہ جانے اس ملک کی قسمت میں کیا لکھا ہے کہ مشکل اور نازک حالات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اتفاق سے کبھی معاشی حالات میں بیرونی امداد کی وجہ سے معمولی سی بہتری آ بھی جائے تو دہشت گردی کا رقص شروع ہوجاتا ہے۔ ایوب خان سے لے کر آج تک جتنے بھی حکمران گذرے ہیں سب کی ابتدائی تقاریر اُٹھا کر دیکھ لیں یہ ہی جملے سننے کو ملیں گے کہ”ملک اس وقت ایک نازک دور سے گذر رہا ہے، ملک اس وقت ایک دو راہے پر کھڑا ہے“۔آج جب کہ دنیا کے بیشتر پس ماندہ ممالک اور خصوصاََ ہمارے اپنے خطے کے ممالک معاشی ترقی کی منازل کامیابی سے طے کررہے ہیں ہم نہ جانے کس کھیل میں پڑے ہیں اور بدقسمتی سے کھیل بھی اغیار کے اشاروں پر۔75 برس گزرنے کے بعد آج بھی ملک میں سیاسی بے یقینی اور معاشی پستی موجود ہے۔
ایک طرف اپوزیشن میں تحریک انصاف ہے جو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں ختم کرکے نوے دن میں انتخابات کے لیے آئین آئین چیخ رہی ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح ایک شخص شام کو نکاح کرتا ہے اور صبح بیوی کو طلاق دے کرکہتا ہے کہ شریعت کے مطابق کام کیا ہے۔کون نہیں جانتا کہ تحریک انصاف کا دو صوبوں کی حکومتیں ختم کرنے کے پیچھے صرف اور صرف ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔ یہ ہی وتیرہ تحریک انصاف نے اس وقت بھی اختیار کیا تھا جب گزشتہ برس وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی۔ تحریک عدم اعتماد بھی تھی تو آئین کے مطابق ہی مگر شاید اس وقت تحریک انصاف کو آئین کی زیادہ فکر یوں نہیں تھی کہ اسے اپنا ڈوبتا اقتدار بچانا تھا۔
دوسری طرف وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے۔ جس کا بظاہر موقف تو یہ ہے کہ وہ پورے ملک میں ایک ہی روز میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے۔ پی ڈی ایم کیا ایک عام سیاسی فہم رکھنے والا فرد بھی یہ سوچتا ہے کہ انتخابات کا انعقاد ایک ہی روز میں ہونا چاہیے۔ مئی میں ہونے والے انتخابات کے سیاسی اثرات پر بات کریں تو ایک عجیب سی کھچڑی سی بنتی ہے۔ موجودہ صوبائی انتخابات صوبائی نگران حکومت کے زیر انتظام ہوں گے، جس پر تحریک انصاف پہلے ہی سے اپنی مخالفت کا انتظام لگا چکی ہے۔ اس کے بعد اکتوبر میں قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے جو مئی میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے والی جماعت یا اتحاد کی نگرانی میں ہوں گے۔ ایسے میں اگر تحریک انصاف مئی میں شکست سے دوچار ہوتی ہے تو شکست کا الزام نگران حکومت پر ہو گا اور اگر اکتوبر میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی شکست سے ووچار ہوتی ہے تو الزام اس وقت کی صوبائی حکومتوں پر آئے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر مئی کے انتخابات میں تحریک انصاف کامیاب ہو جاتی ہے جس کا امکان بہرحال موجود ہے تو اکتوبر کے انتخابات اس کی صوبائی حکومتوں کی نگرانی میں ہوں گے جس کے نتائج کو قوی امکان ہے کہ پی ڈی ایم قبول نہیں کرے گی۔ ایسی صورت میں انتخابات کے نتیجے میں سیاسی استحکام آنے کے بجائے سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام مزید خرابی کے ساتھ سامنے آئے گا۔
مگر غور طلب بات یہ ہے کہ اس سارے قضیئے میں وہ عوام موجود ہیں نہیں ہیں جس کے تحفظ اور بھلائی کے لیے آئین، عدالتیں، پارلیمنٹ کا وجود ہے۔ اس عوام کی فلاح کا تصور ہی ناپید ہے جس کے لیے ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا تھا کہ:
ہمیں سے رنگ گلستاں ہمیں سے رنگ بہار
ہمیں کو نظم گلستاں پہ اختیار نہیں
ملک کا نظام ماضی کی طرح آج بھی استحصالی طبقات کی مرضی پر چل رہا ہے جوملک کے اقتدار اور اختیارت پر قابض ہیں۔ جب کہ ملک کی عوام ہر گذرتے دن کے ساتھ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں اور جاگیر داروں، وڈیروں، سرمایہ داروں، بڑے بڑے پراپرٹی ڈیلروں کا ملک کے وسائل پر قبضہ مزید گہرا ہورہا ہے۔ قومی وسائل پر قابض انھی طبقات نے جمہوریت، آئین کی بالا دستی اور انسانی حقوق کے پُرکشش نعرے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے گھڑ رکھے ہیں۔ پوری کی پوری پارلیمنٹ استحصالی طبقات کے نمائندوں سے بھری پڑی ہے۔مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے حل کے بجائے تمام وہ فیصلے کیے جارہے ہیں جن سے عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو۔
پی ڈی ایم کی حکومت جسے یہ زعم تھا کہ مملکت کا نظام چلانے میں تجربہ کار ہے، آج آئی ایم ایف کے کلرک کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اس کے نزدیک عوام کے مسائل اور زمینی حقائق کے بجائے آئی ایم ایف کے احکامات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ وجہ یہ ہی ہے کہ ہماری معیشت کا ڈھانچہ خود انحصاری کی بنیاد پر بنایا ہی نہیں گیا۔ معیشت یا تو جنگوں میں عالمی طاقتوں کا آلہ کار بننے کے نتیجے میں پنپتی ہے، یا امداد پر اور یا پھر قرض پر۔ صنعت اور تجارت کا فروغ اس پیمانے پر ہوا ہی نہیں جس کا تقاضا زمینی حقائق کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پیٹرول کی قیمت پھر بڑھا دی گئیں جو پہلے ہی انتہائی بلند سطح پر تھیں۔ اس کے عوام کی بگڑی معاشی صورتحال پر کیا اثرات ہوں گے، حکومت کو اس کی پروا نہیں ہے۔کاش آئین، انصاف، اور جمہوریت کا راگ اپنے مقاصد کے لیے الاپنے والے یہ بھی سمجھ سکیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔