اگلے روز پیپلز پارٹی کے رہنما چودھری جاوید اختر سے فون پر بات ہوئی، میں نے سیاسی حالات اور حوالے سے ان سے تجزیہ کرنے کے لیے کہا۔ چودھری جاوید اختر ضیا دور میں جمہوری جدو جہد اور دیگر ادوار میں بھی متعدد بار جیل جا چکے اور کئی سال ان کے جیل کی نذر ہو گئے۔ کہنے لگے کہ کیا تجزیہ کیا جائے جب کسی کی بات پر بھروسہ نہیں، کسی کردار کی اپنی کوئی شناخت نہیں۔ اس صورت حال میں کیا بات کی جا سکتی ہے۔ لوٹے لیڈر بنے پھرتے ہیں۔ پہلے پولیس سیاست دانوں کو گرفتار کرتی تھی تو ان کو عزت دار آدمی سمجھتی تھی، اب اس بات سے ڈرتی ہے کہ اس نے دو دن جیل نہیں کاٹنی اور اس کو ضمانت مل جائے گی۔ باہر آ کر یا آنے سے پہلے ہی زیادتی کا بے ہودہ الزام لگ جائے گا۔ بے ہودگی، بد تمیزی، بد تہذیبی، وعدہ شکنی، کہہ مکرنی نے سیاست کا کلچر تو الگ بات پوری معاشرت ہی دفن کر کے رکھ دی ہے۔ جناب چودھری جاوید اختر صاحب سے بہت سے موضوعات، تاریخی حوالوں پر سیر حاصل گفتگو رہی اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اس دوران اخبار آ گیا جس میں مولانا فضل الرحمن کے بیان کو شہ سرخی کے ساتھ شائع کیا گیا کہ جوڈیشل مارشل لا نافذ ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن اور حکومت کے اختیارات پر قبضہ کر لیا۔ پارلیمنٹ نے قانون بنایا مگر سپریم کورٹ نے عمل درآمد روک دیا۔وزیر قانون کہتے ہیں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل بارز کے مطالبے پر منظور کرنے پر فخر ہے۔ دوسری جانب کور کمانڈرز کانفرنس کا علامیہ تھا کہ عوامی حمایت سے ذمہ داری نبھائیں گے، دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے قوم اور حکومت کو مشترکہ موقف اپنانا ہو گا۔ اس سے اگلے دن آرمی چیف جناب جنرل عاصم منیر نے پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کے اجلاس میں شرکت کی اور کہا کہ طاقت کا محور (سر چشمہ) عوام ہیں، عوام اپنا حق حکمرانی پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال کرتے ہیں، ہم آئین اور پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ واضح پیغام تھا پوری دنیا کے لیے اور ان کے لیے بھی جنہوں نے ایک ریفرنس زدہ جج کو متنازع بنچ
میں شامل کر کے کہا کہ یہ کسی کے لیے خاموش پیغام ہے۔ انصاف کرنے والے خاموش پیغام دینے لگ گئے۔ میں حیران ہوں کہ عدلیہ جس نے کسی صورت بھی تحمل اور بردباری، انصاف اور آئین، قانون، رواداری کو نظر انداز نہیں کرنا ہوتا اگر اس کا رویہ ضد اور جانبداری کا مظہر ہو جائے تو پھر وطن عزیز کے عوام کو اللہ کے حکم کا انتظار کرنا ہو گا۔ یہ سب کچھ ایسے حالات اور وقت میں ہو رہا ہے جب مہنگائی، بے روزگاری، معاشی عدم استحکام عروج پر ہے۔ ایسے میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے چار سال حکومت کرنے والے عمران نیازی نے دو صوبائی اسمبلیاں تڑوا دیں کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام نہ آ سکے۔ سرمایہ کار اور بین الاقوامی قوتوں کو بھروسہ نہ ہو کہ اس ملک میں کیا ہو گا جبکہ بریڈ شرمین کانگریس رکن کہتا ہے کہ عمران نے فون کر کے کہا تھا، میں امریکہ کے خلاف نہیں ہوں۔ گویا اب سائفر میں امریکی سازش کے بجائے پتہ چل رہا ہے کہ امریکہ کے تو حقیقی نمائندے عمران خان ہیں جنہوں نے امریکہ چین سرد جنگ میں سی پیک کو پیک اپ کیا۔ ٹرمپ کے لیے پاکستانی سفارتخانہ اس کا مرکزی دفتر بنایا۔ مریم نواز کو باپ کے سامنے جیل کے اندر سے گرفتار کر لیا۔ فریال تالپور کو رات بارہ بجے ہسپتال سے جیل منتقل کیا تمام حزب اختلاف کو جیلوں میں جھوٹے مقدمات میں بند کیا، کوئی انسانی حقوق کے علمبردار نہیں بولے۔ صحافیوں کو نوکریوں سے نکالا، کوئی آزادی اظہار رائے کی حمایت میں آواز نہ اٹھی اور افزائش سے لے کر پرورش تک داخلہ، خارجہ امور سے لے کر بل منظور کرانے تک جنرل باجوہ اور فیض حمید ساتھ تھے، نہیں تھے تو عوام نہیں تھے۔ عدلیہ کا تو اب سب کو علم ہو گیا مگر نہیں ہیں تو آئین اور عوام ساتھ نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کیا، نہیں ہے تو پارلیمنٹ نہیں ہے۔ دوسری جانب امریکی حمایت کا یہ عالم ہے عمران نیازی اور امریکیوں کو معلوم ہے کہ زرداری ان دونوں کی ان رگوں سے واقف ہے جن کو دبانے سے درد یا سکون بڑھتا ہے، وہ عمران کی حمایت میں سفارتی آداب بھی بھول گئے، بین الاقوامی اخلاقیات بھی بھول گئے۔ زلمے خلیل نے آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہہ کر پکارا حالانکہ یہ الزام لگانے والوں نے ہی واپس لیا کہ مقدمات سیاسی تھے۔ 12/13 سال قید اور الزامات کا ثابت نہ ہونا، دراصل زلمے خلیل کو تاخیر سے ہوش آئی ہے یا وہ ساون کا اندھا ہے جس کو اب بھی ساون ہی یاد آئے گا۔ سابق صدر زرداری نے اس پر عمران کی لابنگ کا الزام لگایا ہے جس کو عرف عام میں ”دلالی“ کہا جا سکتا ہے۔ اب چاہے ایک ہزار وین اور ٹرک پر عمران کی تصویر اور پاک فوج کے خلاف بل بورڈ لگا کر لندن کی سڑکوں پر پھرانے کا منصوبہ ہو، چاہے انڈین لابی، یہودی لابی ساتھ ہو، چاہے قادیانی کھل کر سامنے آ گئے ہوں مگر پاکستانی عوام ساتھ ہوں تو بات بنے گی۔ عمران نیازی کی سیاست، اسٹیبلشمنٹ کی محبت اور میاں صاحبان، صدر زرداری اور دیگر سیاسی مخالفین سے نفرت کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ مذاکرات عمران کی سیاسی موت ہیں، سیاسی لائحہ عمل اس کی سیاسی موت ہے۔ صدر زرداری نے مخالفت کی بدترین داستان میں اپنے آپ کو سیاسی طور پر زندہ اور با اثر رکھا ہے۔ اس کی وجہ پیپلز پارٹی، محترمہ شہید بی بی اور جناب گریٹ بھٹو کی مقبولیت کا سحر اور خدمات ہیں، بلاول بھٹو سے امیدیں ہیں اور ان کی کامیاب حکمت عملی اور خارجہ امور میں کامیابی ہے۔ رہی بات مقبولیت کی محترمہ مریم نواز نے کھڈیاں جیسے قصبے میں دن کی روشنی میں ہونے والے جلسے میں عمران کی رنگ بازی کی کھٹیا کھڑی کر کے رکھ دی۔ ابھی میاں صاحب نہیں آئے، ابھی بلاول نے پنجاب میں جلسہ نہیں کیا، ابھی فضل الرحمن متحرک نہیں ہوئے، ابھی حکومتی اتحاد ہے سیاسی اتحاد نہیں ہے۔ جب سیاست کھلے گی تو برگر اور برفیاں نہیں، ٹوئٹر نہیں ووٹر ہوں گے تو لگ پتہ جائے گا۔ اوریا مقبول جان کے دعوے اوندھے منہ گرے ہوں گے، 44 سال بعد سولی جھول جانے والے گریٹ بھٹو کی آواز کی گونج چار سُو سنائی دے رہی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، بینچ 8 رکنی ہو یا فل کورٹ اب عوام کے خلاف فیصلہ دینے والے تاریخ نہیں حال ہی میں عوامی کٹہرے میں ہوں گے۔