وکلا ایک بار پھر تاریخ رقم کرنے کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں۔ وکلا برادری جنرل مشرف کے دور میں سپریم کورٹ، قانون اور آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ چکی ہے۔ پاکستان کی گزشتہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ سیاسی بحران اپنی نوعیت کے لحاظ سے شدید ترین بحران ہے کیونکہ اس کے اجزائے ترکیبی میں معاشی بدحالی، سیاسی غلبے کے لیے ٹکراؤ اور دیدہ دلیری سے آئین شکنی بلکہ آئین کی بے توقیری اور پامالی کی جو مثال اب سامنے آ رہی ہیں ایسا پہلے کبھی کم از کم عوامی سطح پر تو سامنے کبھی نہیں آیا تھا۔ کوئی بھی وجود چاہے انسانی ہو یا ریاستی یا قومی اگر اس کے اندر کا نظام گلنا سڑنا شروع کر دے تو آہستہ آہستہ اس کے اثرات باہر آنا شروع کر دیتے ہیں اور دھبے نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ابھی تو اس مظلوم مملکت ِ خداداد کو اپنے پاؤں پر چلنا بھی نہیں آیا تھا کہ اس میں ایسے وائرس انجیکٹ کر دیے گئے تھے جو اندر ہی اندر اس کا خون چوستے رہے اور اس کی شریانوں اور اعضا کو کھوکھلا کرتے رہے حتیٰ کہ اسے آدھا چیر کے رکھ دیا گیا۔ پھر اس وائرس سے پیدا ہونے والا ناسور پھیلتا پھیلتا آج سب کچھ تباہی کے دہانے پہ لے آیا ہے۔ یعنی ملک کوخود ڈیفالٹ پہ لے کے آنے والی حکومت کے وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے۔ ایک چلتی حکومت پر شب خون مارنے والے اور اس شب
خون کے نتیجے میں حکمران بننے والے اپوزیشن میں بیٹھی سیاسی پارٹی کو کہہ رہے ہیں کہ وہ مسلط ہے اور اس کی مخالفت ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ تین سو روپے لیٹر پر پیٹرول اور ڈالر کو پہنچانے والے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی وجہ سے ملک کے یہ حالات ہو گئے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ حقیقت میں تو کوئی اور حکومت کر رہا ہے۔ آج تک اسٹیبلشمنٹ کی آڑ میں جمہوریت کے ماموں کہلانے والے ہر وہ کام کر رہے ہیں جس کا جمہوریت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں لیکن راگ نہیں بدلا۔
رانا ثنا اللہ نے سولہ اپریل کو بیان دیا کہ یہ کچھ بھی کر لیں الیکشن چودہ مئی کو نہیں ہونگے۔ یعنی آئین کو عزت دینی ہے نہ عدالت کو اور فتنہ عمران خان کو کہنا ہے۔ الیکشن سے بھاگنا ہے اور خود کو جمہوری بھی کہنا ہے۔ خود جھوٹ بولنا ہے، آئین شکنی کرنی ہے ججوں پر رقیق حملے کرنے ہیں اور کہنا ہے عمران خان بحران پیدا کر رہا ہے۔ عوام کے ڈر سے گھر سے نکلنا نہیں اور عوام کی بھاری اکثریت کو ٹولہ کہنا ہے۔
اداروں کے اندر تصادم پیدا کر کے پورے ملک میں سرطان پھیلانے والے اور دنیا کی نظر میں پاکستان کی بحال ہوتی ہوئی عزت کو پھر سے ٹکے ٹوکری کر کے رکھ دینے والے لگتا ہے ابھی اس کی مکمل بربادی تک مشن جاری رکھیں گے۔
زرداری صاحب فرماتے ہیں کہ جمہوریت اور آئین کی پاسداری کریں گے جبکہ عوام کہتے ہیں ”پر کتھوں“۔ زرداری صاحب کہتے ہیں ملک کو اٹھائیں گے۔ عوام کا جواب ہے جناب لٹایا بھی تو آپ نے ہی تھا۔ وہ بھی کھل گئے جو خود کو ریاست کہا کرتے تھے پتہ چلا کہ مظلوم ریاست خود مڑ کے دیکھنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ مجھے دھکا کس نے دیا تھا۔ حیرت یہ بھی ہے کہ یہ سارے مل کے، ساری پارٹیاں، سارے لیڈرز اور ساری قوتیں عمران خان کو بہت بڑی بلا سمجھ کے اسے راستے سے ہٹانے کو ہی اپنی بقا کا واحد حل سمجھ بیٹھے ہیں۔ عمران خان جس کیساتھ اکثریت ایسے لیڈرز کی ہے جن میں سے ایک بھی لیڈر نہیں اور عمران خان کی تحریک ِ انصاف ایک منتشر اور بغیر تربیت کے ایسی پارٹی ہے جس کی صرف ایک یہی خوش قسمتی ہے کہ عوام کے سامنے باقی پارٹیاں اتنی ایکسپوز ہو چکی ہیں کہ وہ تحریک انصاف کو ان کے مقابلے میں آخری آپشن سمجھ رہے ہیں ورنہ یہی عمران خان اور اس کی یہی تحریک انصاف کو اگر چھ مہینے مزید اقتدار میں رہنے دیا جاتا تو عوام خود گریبان سے پکڑ کے گھسیٹ کے اقتدار سے باہر کرتے۔
اب یا تو یہی سمجھ لیا جائے کہ عمران خان کی حکومت گرانے والے ذہین ہیں اور نہ چالاک کہ یہ سمجھ سکتے کہ عمران خان کے جانے اور ضمانتوں پر بیٹھے لیڈرز کے اقتدار میں آنے سے کیا ہوگا۔ یا پھر یہی سمجھناپڑے گا کہ نہ تو محض عمران خان کو ہٹایا جانا مقصود تھا نہ کسی کو لایا جانا بلکہ اصل ٹارگٹ ملک میں انارکی، معاشی تباہی اور آئین کی پامالی جیسے حالات پیدا کر کے برباد کرنا ہے اصل ہدف تھا جو کہ اب قریب قریب پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے اب عوام کے ساتھ ساتھ محب وطن وکلا عملی طور پر میدان میں آ گئے ہیں۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ فیصلہ کن مرحلہ ابھی نہیں آیا۔