کیا ہم اس سماج کو غار کے دور میں لے جانا چاہتے ہیں یا پھر اکیسویں صدی میں باوقار طریقہ اور آبرو مندانہ طریقہ سے زندہ رہنے کے خواہش مند ہیں؟یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب دئیے بغیر ہمار اہر عمل غیر عقلی اور تباہ کن نتائج برآمد کر رہا ہے۔ابھی تک پیش آنے والے بُرے اور بدترین واقعات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔جس میں رجعت پسندی ہی رجعت پسندی سے برسرِ پیکار ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں رجعت پسندوں کے مفادات متصادم ہیں۔ان میں سے کسی ایک کی جیت بھی سماج کو آگے لے جانا نہیں چاہتی۔ان میں سے کوئی بھی سماج کو روشن خیال، لبرل،سیکولر،روشن ضمیر بلکہ اپنی مرضی کا مسلمان بھی دیکھنا نہیں چاہتا۔مرضی کے مسلمان سے مراد یہ ہے کہ میں اسلام کے معاشی نظام کو سرمایہ دارانہ یاجاگیر دارانہ نہیں سمجھتا۔کیونکہ قرآن کھلے لفظ میں فرماتا ہے کہ اے نبیﷺ یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں تو ان سے کہہ دو جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے۔دوسری جگہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ یہ مال و دولت اور سونا چاندی جسے تم جمع کرکے رکھتے ہو روز قیامت اسے پگھلا کر تمہاری پیشانیا ں اور پشتیں داغی جائیں گی۔العرض قرآن سرمایہ دار اور جاگیر دار کو کہیں تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ پھر نبی ﷺ کی حیات طیبہ ہمارے لیے بہترین اسوہ حسنہ ہے ہمیں آپ ﷺ کی زندگی میں سادگی کا جو معیار نظر آتا ہے وہی ہمارے لیے مشعل ِ راہ ہونا چاہیے۔سیدنا ابوبکر صدیق ؓکی وصیت تھی کہ مجھے پرانے لباس میں ہی دفن کیا جائے کہ نیالباس زندہ لوگوں کی ضرورت ہوتا ہے۔سیدنا عمرفاروقؓ جن کے نام سے قیصرو کسریٰ کانپتے تھے اُن کے اپنے لباس کو پیوند لگے ہوتے تھے۔اب پچاس لاکھ یا اس سے بھی زیادہ قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر یہ دعویٰ کرنا کہ میں اس نبی ﷺ کا امتی ہوں جن کی اپنی بیوی،ام المومنین سیدہ خدیجہؓ عرب کی مالدار ترین خاتون شعب ابو طالب کی گھاٹی پر فاقوں سے انتقال فرما گئیں تو یہ بات اپنی سمجھ سے بالا تر ہے۔ میرے نزدیک قرآن اور نبی ﷺ کا طریقہ کار اور صحابہ کرامؓ کا طرز زندگی،جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے مطابق تھا۔ قرآ ن پاک کو غور سے پڑھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس میں موجود تخلیق کائنات اور اُس کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والے قوانین فطرت پر تو تمام مسلمان تقریباً متفق نظر آتے ہیں لیکن جب قرآن سماجی قوانین کی بات کرتا ہے اوراس کا اطلاق عام آدمی پر ہوتاہے تو یہی وہ مقام ہے جہاں آ کر میں نے بڑے بڑے مینار نور تاریکی میں ڈوبتے دیکھے ہیں۔ یہ معما مجھ سے آج تک حل نہیں ہوا کہ جب قرآن یہ کہتا ہے کہ تم مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہو تو پھر اس ملک میں جسم فروشی کے اڈوں پر بیٹھی بچیاں کون ہیں؟ اور ہمارا اُن سے قرآنی رشتہ کیا ہے؟شاید ہم اس سوال کا جواب دینا تو دور کی بات سننا بھی پسند نہ کریں۔مگر کسی سوال کو سننے اور سمجھنے سے انکار کرنے پر وہ سوال ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ہرگزرتے وقت کے ساتھ اُس کے جواب کیلئے نوجوان خون ابلتا رہتا ہے۔
ہم قانون کی حاکمیت چاہتے ہیں لیکن خود کسی قانون کا پابند ہونے کیلئے تیار نہیں، جمہور کی بالادستی ہماری ایسی خواہش ہے جس کے نفع نقصان سے نہ تو ہم واقف ہیں اور نہ ہی ہمارے رویے جمہوری ہیں۔ ہم دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیتنا بھی چاہتے ہیں لیکن ابھی تک قاتلوں اور مقتولوں کے درمیان واضح لکیر کھنچنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔اب ایسا کیوں ہوا، کون کر رہا ہے یا پھر یہ لاشعوری عمل ہے کہ ہم دوست دشمن کی تمیز کے بغیر ہی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ دونوں اطراف سے چلنے والی گولیوں کی ترتراہٹ سے پہلے فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونجتی ہے۔دہشت گردو ں کو ایک باغی اور غیر اسلامی گروہ ثابت کرنے کیلئے ہمیں اس گھٹن زدہ سماج میں بہت سی کھڑکیاں اور دروازے کھولنا ہوں گے لیکن اس کے رستہ میں حائل دوقومی نظریہ، قرار داد مقاصداور اس سے ملتی جلتی بہت سی دستاویزات اور خیالات اس کی اجازت نہیں دیں گے۔اب صورت حال یہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہم قیمتی جانوں کو کھو رہے ہیں لیکن یہ جنگ شک و شبہات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے۔دانشوروں کو سمجھانے کی ضرورت نہیں اہم بات تو یہ ہے کہ ہم پاکستان کے عوام کو،جن کی خود ساختہ اجازت پر اس جنگ کو جاری کیا گیا اور آج تک ہے۔جن کا روپیہ اورزندگی دونوں اس
جنگ میں کام آ رہے ہیں انہیں آج تک کیوں یقین نہیں دلایا گیاکہ جنگ کن کے درمیان ہے۔ طالبان اور القائدہ کون ہے؟ اُن کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ پاکستان میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے پاکستان کو ہی جنگ کیلئے کیو ں چنا؟کیا دنیا کی سب اسلامی ریاستوں میں ایک پاکستان ہی ہے جہاں سب سے زیادہ ”نافرمان“ اور”گستاخ“ رہتے ہیں جن کی اصلاح بہت ضرور ی ہوچکی تھی؟ یا اس کہانی کے پیچھے کوئی اور کہانی بھی ہے جو اصل مگر بمطابق نقل نہیں ہے۔
کیا ہم آج بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ اکیسویں صدی میں انیسویں صدی کے سیاسی حربے استعمال کرکے عوام کو لاعلم رکھا جا سکتا ہے۔کیا عوامی حمایت کے بغیر کوئی جنگ جیتی جا سکتی ہے؟ کیا حالت جنگ میں دنیا کی کوئی قوم اپنی معیشت بہتر کرسکتی ہے؟عوام کو لاعلم رکھ کر دنیا کی کوئی ریاست عوامی حمایت حاصل نہیں کرسکتی اور عوامی حمایت کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ جبر کا ٹمٹماتا چراغ کسی وقت بھی گل ہو سکتا ہے۔عوام کسی وقت بھی باخبر ہو سکتے ہیں۔”تاریخ کا اختتام“(تاریخ نے صدیوں کے ارتقا کے بعد جمہوریت کو آخر ی طرز حکومت اور سرمایہ دارانہ نظام کو آخری نظام معیشت تسلیم کر لیا ہے سو انسانوں کو اسی پر گزارہ کرنا ہو گا)جیسا فرسودہ تھیسز لکھوانے والوں کے علم میں ہونا چاہیے کہ تاریخ کا تعلق سماجی ارتقا سے ہوتا ہے اور سماجی ارتقا آگے کی جانب ہوتا ہے نہ کہ پیچھے کی اور ارتقا کے اس عمل کو کسی شخص یا گروہ کی خواہش پر تبدیل بھی نہیں کیا جا سکتا۔گلوبل سماج ابھی اپنے ارتقائی سفر پر ہے جس میں انسانوں کی بہت بڑی اکثریت جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام پر سوالیہ نشان لگائے بیٹھے ہیں۔کیونکہ ڈیموکریسی،ارسٹوکریسی سے ہوتی ہوئی ایجنٹوکریسی میں تبدیل ہوچکی ہے اورسرمایہ دارانہ نظام اپنی مکمل بے رحمانہ شکل کے ساتھ پسے ہوئے طبقات کے سامنے نہ صرف وحشیانہ رقص کر رہا ہے بلکہ سرمایہ داری سے مہاسرمایہ داری میں تبدیل ہو چکا ہے۔سو انسانوں کی اس اکثریت کو یہ کیسے قابل قبول ہو گا اورتاریخ کا اختتام (End Of History) کے مصنف نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ یہ سب کچھ دنیا کی بڑی اکثریت حاموشی سے برداشت کر لے گی۔پاکستان کی مثال لے لیجیے جو عوام چند گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ برداشت نہیں کرسکتے،جو عدل کی تلاش میں ہر آوازِ غائب کے پیچھے لپک پڑتے ہیں،جو آزادی اظہار کیلئے ہر قیمت ادا کرنے پر تیار دکھائی دیتے ہیں،جو بلند معیار زندگی کے تمنائی ہیں۔وہ بھلا غار کے دور میں واپس پلٹنا کیسے چاہیں گے؟سو اس رستے کی بندش کے بعد اب رستہ ایک ہی بچتا ہے۔جو فلاح،بہتری،روشنی اور نور کا رستہ ہے کہ ہم اپنے خیالات،و نظریات کو جدیددنیا کے مطابق ڈھالیں۔کوئی ہم سے ہمارا دین نہیں چھین سکتا البتہ بُری معیشت بہت کچھ بدل دیتی ہے۔جس میں ریاستی ڈھانچوں سے لے کر مذہب،سب کچھ شامل ہے۔انسانی تاریخ میں مذاہب کی تبدیلی میں بُری معیشت کا کردار ہمیشہ مرکزی رہا ہے۔نبی ﷺ برحق نے فرمایا ہے کہ غربت سے توبہ کروکہ یہ کفر تک لے جاتی ہے۔جہاں امن نہیں ہو گا وہاں انسانوں سے پہلے معیشت متاثر ہوگی اور معیشت کے متاثر ہونے کے نتیجہ میں ہر ادارہ اپنی بنیاد سے ہل کر مفلوج ہوجائے گا۔آزاد اور مضبوط معیشت کے بغیر آزاد اور خود مختار ریاست کا کوئی تصور ہی نہیں اور غیر مقتدر ریاست کبھی مقتدر ادارے نہیں بنا سکتی۔ لیکن ہمارا روزاول سے یہ وتیرہ ہے کہ ہم اداروں کی خود مختاری کیلئے تو تحریکیں چلاتے ہیں لیکن ریاست کی آزادی کیلئے ہم نے آج تک کوئی تحریک نہیں چلائی۔جب کہ ریاست کی آزادی کیلئے بغیر خون ریزی کے ایک بڑی تحریک پاکستانی سماج میں متعارف کرائی جا سکتی ہے۔ آزاد ذرائع روزگار کی تحریک۔۔۔جس کے بعد بہت سی تحریکیں اس سماج میں جنم لینا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دم توڑ دیں گے۔ایمرجنسی آف ایجوکیشن کی تحریک۔۔۔جس کے بعد جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ریاست!کیسی ریاست کی تحریک۔۔۔جس میں ہم کو یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں۔گلوبل دنیا کی حقیقی تشریح سے عوام کو آگہی کی تحریک۔۔۔تاکہ عام آدمی کو عالمی اور سامراجی قوتوں کے مفادات اور خواہشات بارے خبر ہو سکے۔ واضح خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک تحریک۔۔۔جس میں ہمیں اپنے دوستوں اوردشمنوں کو مفادات کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ کرنا ہوگا۔انتہاپسندی کے حوالے سے ایک تحریک۔۔۔درست نظام تعلیم اور عقلی نصاب تعلیم،سب گند بلا ختم کر دے گا۔ اگر کل ہم نے اپنے بچوں کومخصوص فکری بنیادوں پرپروان چڑھایا ہے تو کیا وجہ ہے کہ آج نئی فکر کی بنیاد پر اُن کی ذہنی حالتوں کو بدلا کیوں نہیں جا سکتا؟ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ ہمارا نظام معیشت کیا ہو گا؟ تعظیم کے معیارات کون طے کرے گا؟ چند افراد یا سارا سماج؟
یہ وطن اور اس کی ہر شے ہماری ہے۔اس کا آگ اور پانی، اس کے پھول اورکانٹے،اس کے دوست اور دشمن، فوج اور سیاستدان،غریب اور امیر،عوام اور خواص سب ہمارے ہیں۔ہم سب فیصلے خود لیں گے۔کس کو کیا ملے گا؟ دولت اور شہرت،عزت اور ذلت سب کی منصفانہ اور مساویانہ تعظیم ہونا چاہیے۔شاید یہی واحدحل ہے جس کے بعد ہم آبرومندآنہ زندگی گزار سکتے۔لیکن اب ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ کیا ہم غار کے دورمیں زندہ رہنا چاہتے ہیں یا پھر اکیسویں صدی کی گلوبل دنیا میں۔ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہمیں نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت تو نہیں۔کہیں پاکستان کا آئین پاکستانی عوام کی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام تو نہیں ہو چکا؟