فریقین کو حیثیت کے مطابق محدود کرنا ہو گا

اسے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب کی سیاست کہیں، حکمت عملی کہیں یا سازش لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد خان صاحب نے نہ تو ملک کی سیاست کو ٹھیک طرح چلنے دیا ہے اور نہ ہی اقتصادی حالات کو۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ ریاست کے تقریباً تمام ہی امور جمود کا شکار ہیں، حتیٰ کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ بھی تقسیم کا شکار ہے۔ خان صاحب نے اپنی مستقبل کی سیاست اس طرح پلان کی ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے جن جج صاحبان کی سپورٹ انہیں مبینہ طور پر حاصل ہے ان کی مدد سے سب سے پہلے تو پنجاب میں علیحدہ سے الیکشن کرائے جائیں اور پھر جیسے تیسے کر کے پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی جائے۔ قومی اسمبلی میں چونکہ پنجاب کی سیٹیں سب سے زیادہ ہیں اور اس بات کا فیصلہ بھی پنجاب سے ہی ہوتا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم کون ہو گالہٰذا منصوبے کے مطابق پنجاب میں حکومت قائم ہونے کے بعد دھاندلی اور زور زبردستی کا پورا سیٹ اپ لگایا جائے اور اسی کے تحت قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی جائے تاکہ وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ عمران خان صاحب سیاست میں کس قدر مثبت سوچ اور رویہ رکھتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ ہم قومی اور پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے دوران اچھے سے دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے اس بات میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ خان صاحب حصول اقتدار یا اس کو بچانے کے لیے کسی بھی قانون یا آئین کو تہس نہس کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف اقتدار میں شامل پی ڈی ایم کی جماعتیں اور پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی صورتحال کا بھر پور انداز میں ادراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری کوشش ہے کسی بھی طرح پنجاب کے الیکشن قومی اسمبلی کے ساتھ ہی ہوں تاکہ پنجاب میں حاصل کردہ حکومت کی بنیاد پر کسی چکر بازی کی گنجائش نہ رہے۔ خوش قسمتی سے سیاست کے اس مدوجزر میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اب تک صبر، برداشت اور نیوٹرل رویہ اپنا رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق قومی سلامتی پر ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے واضح اور دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے تحت اختیار منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی استعمال ہو گا، ریاست پاکستان کا سینٹر آف گریویٹی عوام ہیں، نئے یا پرانے پاکستان کی بات چھوڑ کر ہمارے پاکستان کی بات ہونی چاہیے، عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں اس کے علاوہ انہوں نے آئین کی گولڈن جوبلی پر ارکان پارلیمنٹ کو مبارکباد بھی دی۔ کیا ہے اچھا ہوتا کہ ہماری معزز عدلیہ کی جانب سے بھی کچھ اسی قسم کے سگنلز آتے۔ لیکن صد افسوس کہ اس وقت عدلیہ میں ایک واضح تقسیم دیکھی اور محسوس کی جا رہی ہے۔ یہاں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ یہ تقیسم دو پارٹیوں کے سپورٹرز کے درمیان نہیں بلکہ ان لوگوں کے درمیان ہے جو کھل کر عمران خان کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں اور وہ جو اس رویہ کو مناسب خیال نہیں کرتے۔ گزشتہ روز ایک افواہ بھی گردش کرتی رہی کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے سینئر ترین جج حضرات کے درمیان شدید قسم کی تلخ کلامی کے بعد نوبت مارکٹائی تک جا پہنچی تھی۔ اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اس قسم کی خبر سے دل بہت پریشان رہاکہ صورتحال کس جانب جا نکلی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ترجمان نے اس قسم کے کسی بھی واقعہ کی سختی سے ترید کر دی ہے اور اگر تردید آ گئی ہے تو ہمیں اسے ہی سچ مان بھی لینا چاہیے۔ مذکورہ بالا صورتحال کے تناظر میں ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے زیر غور دو معاملات پر بھی عوام میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے پہلا تو آٹھ رکنی بنچ کا پارلیمنٹ کو عدالتی اصلاحات بل پر عملدرآمد سے روک دینا ہے۔ اس معاملہ میں مجھ جیسے عام فہم بندے کو تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ جو بل منظور ہو کر ابھی قانون بنا ہی نہیں اس پر ایڈوانس ہی ایکشن لے کر اعتراض اپنے گلے ڈالنے کی سپریم کورٹ جیسے معزز ادارے کو کیا ضرورت پڑی تھی؟ دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کی ہدایت پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں اکیس ارب روپے کی الیکشن کمشن کو فراہمی کی تحریک ایوان میں پیش کی جسے کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیااس کے علاوہ قومی اسمبلی میں ایک قرارداد میں منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ غیر منصفانہ فیصلے کر رہی ہے اور مطالبہ کیا گیا کہ مذکورہ آٹھ رکنی بنچ کو فوری طور پر تحلیل کیا جائے۔ اسی معاملہ پر ایکشن لیتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت سے بالا ہی بالا سٹیٹ بنک آف پاکستان کو حکم جاری کر دیا ہے کہ دو روز کے اندر اکیس ارب روپیہ فراہم کیا جائے۔ اب اس صوتحال میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا سپریم کورٹ اس طرح براہ راست سٹیٹ بنک کو فنڈ جاری کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہے۔ اگر سٹیٹ بنک اس طرح سے فنڈ جاری کر دیتا ہے تو اس کے قومی خزانہ اور ریاستی امور پر کیا اثرات مرتب ہو ں گے۔ اور تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت ملک کی ٹوٹل اقتصادیات تو غیر ملکی قرضوں پر چل رہی ہے۔ اگر ادارے ریاست سے بالا تر ہو کر اس قسم کے اقدامات کریں گے تو اس کے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی ڈیل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اب صورتحال یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ایک سیکشن کے درمیان شدید قسم کی محاذ آرائی ہے۔ کوئی بھی فریق ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں لیکن مزے کی بات ہے کہ اس سارے تنازع کی وجہ تو عمران خان صاحب ہیں لیکن وہ اس جنگ میں کہیں بھی نظر نہیں آ رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار پر اعتراض کرنے والوں کو شائداب یہ بات سمجھ میں آ رہی ہو کہ اسٹیبلشمنٹ کا ضرورت سے زیادہ نیوٹرل ہو جانا بھی کس قدر خطرناک اور نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ صورتحال جس نہج تک پہنچ چکی ہے یا پہنچا دی گئی ہے اس کے بعد تو واحد حل یہی سمجھ آتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے روایتی طریقہ سے ایکشن میں آئے اور تمام فریقوں کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق محدود کرے ورنہ معاملات مزید خرابی اور خطرناکی کی طرف جا سکتے ہیں۔