پارلیمنٹ ہی سب سے سپریم ادارہ ہے

پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کئے گئے عدالتی اصلاحاتی پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو قانون بننے سے پہلے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا اور محترم ججز کے دستیاب نہ ہونے کے باوجود بھی انتہائی عجلت میں بنائے گئے آٹھ رکنی بنچ نے جمعرات کو اس پر مختصر سماعت کے بعد تا حکم ثانی اس بل پر عمل درآمد روک دیا ہے اور مزید سماعت 2مئی تک کے لئے ملتوی کر دیا لیکن حکمران اتحاد نے اس بنچ کی تشکیل کو مسترد کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت اور آئین کے منافی قرار دے دیا۔ اس بات پر عمومی اتفاق رائے ہے کہ پارلیمنٹ ہی ملک کا سپریم ادارہ ہے لیکن اس تصور کی سب سے پہلے افتخار چوہدری نے یہ کہہ کر نفی کی کہ آئین سب سے سپریم ہے حالانکہ آئین بنانے والی پارلیمنٹ ہوتی ہے اور وہ آئین میں دو تہائی اکثریت سے جس قسم کی چاہے ترمیم کر سکتی ہے اور آئین کے مطابق پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی ترامیم کو کسی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی ترمیم یا قانون کو ختم یا اس میں کوئی تبدیلی کر سکے لیکن بات یہ ہے کہ آئین کو اگر اس کی روح کے مطابق مان لیا جائے تو پھر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کیسے ہو گی۔ پارلیمنٹ کے بجائے آئین کو سپریم اس لئے کہا گیا کہ پارلیمنٹ میں زندہ انسان ہوتے ہیں جن کے پاس عقل بھی ہوتی ہے اور دماغ بھی اور انھیں بولنا بھی آتا ہے اور ان کے پاس بولنے کے لئے ایک عدد زبان بھی ہوتی ہے لیکن آئین کے ساتھ اس کی تشریح کے نام پر جو چاہے کر لیں آئین نے کون سا کوئی اعتراض کرنا ہے اور اگر کسی کے مفادات کی راہ میں آئین کا کوئی آرٹیکل رکاوٹ بن ہی جائے تو پھر تشریح کے حق کو استعمال کرتے ہوئے نیا آئین لکھ لیا جائے تو اس پر بھی آئین نے کون سا بولنا ہے لہٰذا پارلیمنٹ کے بجائے افتخار چوہدری نے آئین کے سپریم ہونے کا جو چورن دیا تھا اس نے وقتی طور پر کچھ رش لیا لیکن عوام اور قانونی حلقوں میں کچھ زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکا۔ پارلیمنٹ کے لئے ایک تو سیدھا سیدھا یہ حل ہے کہ مارشل لاء لگا کر پارلیمنٹ کا بوریا بستر ہی گول کر دیا جائے لیکن ظاہر ہے کہ اس کے لئے بھی
آئین کو سائڈ پر رکھنا پڑتا ہے اور یہ کام تو آج سے نصف صدی پہلے بھی کوئی آسان کام نہیں تھا اور جنرل ضیاء کو بھی 1985میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی اسمبلی سے آٹھویں ترمیم کے ذریعے اپنے اقدام کے لئے آئینی و قانونی جواز لینا پڑا اور مشرف کو بھی یہ کام کرنا پڑا لیکن اس کے بعد جب 2007میں ایمرجنسی لگائی تو اس پر جواب دہی کے خوف سے مرتے دم تک ملک سے باہر رہے۔
پارلیمنٹ کی بالادستی کے دعوے تو ہر دور میں کئے گئے اور ان کی جانب سے بھی کئے گئے جو ہر مارشل لاء دور میں کابینہ کا حصہ رہے۔ ان دعوؤں میں کس حد تک صداقت ہوتی ہے اس کا بڑا آسان سا حل ہے جسے ہم لٹمس ٹیسٹ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جب بھی پارلیمنٹ کا کسی ریاستی ادارے کے ساتھ کوئی تنازع ہوا تو پارلیمنٹ کی بالادستی کے دعوے کرنے والوں کی اکثریت پارلیمنٹ کے بجائے اس کے مخالف سمت ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے۔ موجودہ بل بھی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی اکثریت سے منظور ہو کر صدر صاحب کے بھیجا گیا لیکن انہیں اس میں پتا نہیں کون کون سی ایسی خامیاں نظر آئیں کہ انھوں نے اس پر کھوکھلے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا جسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے دوبارہ منظور کرا کر حکومت نے اسے صدر کے پاس بھیج دیا۔ آئین کے تحت صدر کے پاس جانے کے دس دن بعد یہ بل قانون کی شکل اختیار کرے گا لیکن اس سے پہلے ہی اسے چیلنج کر دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک بل جو ابھی قانون بنا ہی نہیں تو سپریم کورٹ اسے کالعدم کیسے قرار دے گی اس لئے کہ کالعدم قرار دینے کے لئے کسی قانون کا ہونا بھی تو ضروری ہے لیکن جنھیں یہ کام کرنا ہے ان کے پاس ایسے کاموں کے لئے بے انتہا تجربہ ہے اور وہ ایک نہیں بلکہ ایک سو ایک طریقہ سے اسے کالعدم قرار دینے کی کوشش کریں گے۔ اس حوالے سے 2003میں اس وقت کے صوبے سرحد میں متحدہ مجلس عمل کے حسبہ بل کا حوالہ دیا جا رہا ہے لیکن اس کی نوعیت مختلف تھی اور اسے افتخار چوہدری نے ایک طرح سے ایڈوائزری کے طور پر واپس بھیجا تھا۔ اس لئے اس کا اطلاق بطور نظیر موجودہ صورت حال میں نہیں ہوتا۔ اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آخری ہوتا ہے لیکن ہم نے اس کے باوجود بھی کوشش کا لفظ اس لئے کہا ہے کیونکہ حکومتی اتحاد نے اس بنچ کو مسترد کر دیا اور ملک کی دو کے علاوہ تمام بار کونسلز نے اس بنچ کی تشکیل اور کیس کے خلاف جمعرات کو عدالتوں میں ہڑتال کی۔ اس کے علاوہ اس حوالے سے آئین کا آرٹیکل69 بڑا واضح ہے کہ قومی اسمبلی سے منظور شدہ کوئی قانون یا آئین میں کی گئی ترمیم ملک کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جائے گی۔
عدالت میں اس بل کو چیلنج کرنے کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ یہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت اور اس کے اختیارات پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ یہ وجوہات اتنی بھونڈی ہیں کہ ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے اس لئے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کے حوالے سے ایک عرصہ ہو گیا ہے کہ ملک کی بار کونسلز اور قانون داں حلقے اور اب تو خود سپریم کورٹ کے اندر سے محترم ججز نے بھی اس حوالے سے کہنا شروع کر دیا ہے تو اگر حکومت نے اس قانون میں تبدیلی کر کے قانون کو اختیارات کے حوالے سے متوازن بنایا ہے تو اس میں پٹ سیاپے والی کیا بات ہے اور پھر سب سے اہم بات کہ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ سے باہر کسی اور ادارے میں تو منتقل نہیں کئے بلکہ صرف یہی کیا ہے کہ بنچ بنانے اور از خود نوٹس لینے کے اختیارات جو چیف جسٹس کی ذات میں مرتکز تھے انھیں چیف جسٹس کے ساتھ دیگر دو سینئر ترین ججز تک وسیع کیا ہے تو اگر ایک فرد کے بجائے اجتماعی دانش کی جانب اختیارات کو منتقل کیا جا رہا ہے تو اس کی تو تحسین ہونی چاہئے لیکن جن کے مفادات پر ضرب لگتی ہو انھیں تو ظاہر ہے کہ تکلیف ہو گی۔ہماری تو مجال نہیں لیکن کچھ لوگوں کے خیال میں بنچوں کی جس طرح تشکیل ہو رہی ہے اور ان میں جس طرح ہم خیال ججز کو شامل کر کے من پسند فیصلے لئے جا رہے ہیں تو اس تناظر میں اس بل کا قانون بننا انتہائی ضروری اور وقت کی ضرورت بھی ہے لہٰذا اگر کسی کو اس بات کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت پسند ہے تو اسے پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا لیکن اگر وہ اس بار بھی پارلیمنٹ کے مخالف سمت میں کھڑا ہو کر غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا باعث بنے گا تو انھیں گھر کے وہ چراغ سمجھا جائے گا کہ جن کے متعلق شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے