رقصِ خیال

خیال ازل سے رقص میں ہے …… اصل مسئلہ وجود کا ہے۔ جب روح اور وجود کی سُرتال ایک ہو جاتی ہے تو خیال میں رقص میں آ جاتا ہے …… اور یہ رقص عالمِ شہود میں دید کے قابل بھی ہو جاتا ہے۔ سَر کی آنکھیں جب سِرّ کو دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو وجود پر بھی رقص لازم ہو جاتا ہے۔
ازل سے بھی پہلے خیال تھا، ابد کے بعد بھی رہے گا۔ خیال ہی نے خبر دی…… کسی صاحبِ خیال کی وساطت سے …… کہ وہ رقص میں تھا …… اس نے چاہا خود اپنے رقص کا مشاہدہ کرے …… سو اُسے ایک آئینے کی تخلیق لاحق ہوئی۔ خیال اتنا حسین تھا، کہ خود کو دیکھنے میں محو ہو گیا۔ خیال نے خود کو پا لیا …… وجد میں آ گیا۔ خیال کب اور کہاں کی قید و قدغن سے بے نیاز تھا …… بے نیاز ہے …… یہ داستانِ خیال ماضی حال اور مستقبل کی تقسیم سے ماقبل ہے۔ یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا پابند تھا نہ ہے!!
داستانِ خیال میں عجب باب یہ ہے کہ خیال خال خال ملتا ہے …… لیکن جسے ملتا ہے، اسے بار بار ملتا ہے، بلکہ ہر بار ملتا ہے۔
خیال کی ہستی اپنی ہی مستی میں گم ہے۔ خیال کو خارج کی کوئی حاجت نہیں …… خارج میں کوئی حاجت نہیں۔ ظاہر کو باطن کی حاجت ہے، باطن کو ظاہر کی حاجت نہیں۔ ظاہر کو اپنی معنویت معلوم کرنے کے لیے قدم قدم پر باطن کی سند چاہیے۔
باطن کی بنیاد قیل و قال پر نہیں …… حال پر ہے …… اور یہ حال ہمہ حال ہے۔ ماضی کے ملال اور مستقبل کے خوف سے آزاد …… اسے کسی پیشی کا ڈر ہے نہ کمی کا۔ بس یوں سمجھیں، جیسا تھا …… ویسا ہے!!
خیال کے خد و خال بھی بیان میں نہیں آ سکتے کہ بیان عالمِ کثرت کا وقوعہ ہے …… اور خیال وحدت میں ہے۔ عجب بات ہے …… خیال کو خیال ہی پہچانتا ہے …… عرفانِ نفس کو عرفانِ رب سے جو نسبت ہے …… شاید اسی سبب سے ہے۔ خیال کو خیال کا غیر نہیں پہچان سکتا۔ غیر صرف فتویٰ دے گا …… کسی متلاشی یار کو دار پر چڑھائے گا …… کسی سرمست خدامست پر بزعمِ خویش کوئی عالمگیر شمشیر کھینچے گا …… اسے سرمد بنائے گا۔ سرمد کی تربت آج بھی سرمستی کی خوشبو لیے ہوئے اپنے زائر کا استقبال کرتی ہے۔ شمشیر زن کا حال رہا نہ مستقبل!!
یوں تو خیال بے مثل و بے مثال ہے …… پر عالم شہود میں اس کی مثال پانی سے دی جا سکتی ہے …… ہاں! پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ پانی ہمہ وقت سفر میں ہے …… پانی مسلسل ایک تسلسل میں ہے …… اگر اس کا تسلسل منقطع ہو جائے تو سلسلہ حیات ہی منقطع ہو جائے …… کہ ہر ذی حیات کو پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ بے رنگ اور بے بو
ہے …… کسی ہیئت میں مقید نہیں …… یہ بے صورت ہے …… اس کی کوئی صورت نہیں …… مگر ہر صورت میں بہلایا گیا ہے۔ ہر وجود سے الگ …… لیکن ہر وجود کی ظاہری و معنوی حیات کے لیے لاینفک …… حیات کا موجب و ماخذ……!
خیال پانے کے لیے کسی صاحبِ خیال کو پانا ہوتا ہے …… اس کا ہونا ہوتا ہے۔ صاحبِ خیال کی مرضی ہے …… جسے چاہے ہمراز کرے …… محرمِ خیال کرے …… خیال کسے عطا ہونا ہے اور کسے خیال کے خیال نے پریشان کرنا ہے …… شاید یہ خیال ہی کی طرح کوئی ازلی فیصلہ ہے۔ خیال ایک فضل ہے …… جسے پر یہ فضل ہوتا ہے، وہ اپنے خیال کے صاحب سے بلافصل ہوتا ہے۔ خیال ہی کا وصل ہے …… اور خیال ہی کا فصل …… فیصلہ ترا تیرے ہاتھ میں ہے۔
خیال ایک دیپ کی طرح ہے …… دیپ سے دیپ جلتا ہے …… چراغاں ہوتا ہے …… اور ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایک لہر کی طرح ہے …… لہر کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ بس اس کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ محوِ نظارہ لوگ بتاتے ہیں کہ لہر بحر سے جدا نہیں۔ یہ بحر ہی ہے جو بصورتِ موج خود کو زمین والوں کے لیے دید کے قابل بناتا ہے …… بے کنار قلزم یوں ہمکنار ہو جاتا ہے …… perceptible ہو جاتا ہے۔
بس! خیال پر اظہار لازم ہے …… بصورتِ الفاظ……! الفاظ ان لہروں کو منجمد کر لیتے ہیں اور ساحل سے دور مگر شوق کے ہاتھوں مجبور اہلِ ذوق کے لیے بہرِ مشاہدہ معاون ہو جاتے ہیں۔ خیال کی لہر صفحہ قرطاس پر منتقل نہ کی جائے تو واپس اسی بحر میں چلی جاتی ہے جہاں سے نمودار ہوئی تھی …… پھر کچھ عرصہ بعد کسی اور صاحبِ قلم کی تحریر کو عزت و منزلت بخشتی ہے۔ تب ہم ایسے سست الوجود جب اپنے پردہِ بصیرت پر دستک دینے والے خیال کو کسی اور کی تحریر میں دیکھتے ہیں تو متعجب ہوتے ہیں، متحیر ہوتے ہیں اور پھر داد دے کر اس کے بزمِ خیال میں جا شامل ہوتے ہیں۔ غالب پر غیب سے آنے والے مضامینِ خیال پر داد دینے والے احباب وہی ہوتے ہیں جن کے پاس وہ خیال کبھی وارد ہوا چاہتا تھا …… لیکن انہیں مصروف پا کر دیوانِ غالبؒ میں جا ثبت ہوتے ہیں۔ خیال ہی خیال کا شاہد ہوتا ہے۔ کسی خیال کا معترف بھی قابلِ تعریف ہوتا ہے۔
جی ہاں! خیال پر اظہار واجب ہے …… تا آن کہ سمع و بصر رکھنے والوں کے ہاں خفتہ خیال کی بیداری کا سبب بنے۔ اس جہان کے خالق کا یہ قول یاد رہے ”جس نے کسی ایک فرد کو زندہ کر دیا اس نے گویا پوری بنی نوعِ انسانی کو زندہ کر دیا“ یہ حیاتِ معنوی ہے …… وگرنہ ایک فانی خاکی پیکر جس کی زندگی خود کسی ذات کے امر کی مرہونِ منت ہے، کسی اپنے ایسے کو زندہ کیسے کر سکتا ہے۔
زیر نظر مضمون کا عنوان ”رقصِ خیال“ دراصل ایک کتاب کا عنوان ہے۔ یہ کتاب برادرم محسن عزیز کاموکہ کے ہاں موصول شدہ ایک خوبصورت خیال کا رقص ہے۔ خیال کی شدت فی الواقع لفظوں کو رقص پر مجبور کر دیتی ہے۔ جس طرح روح بدن کو گرفت میں لیتی ہے اور بدن متحرک ہو جاتا ہے، اسی طرح خیال الفاظ کو اپنے سحر میں جکڑ کر انہیں قرطاس پر رقص کناں کر دیتا ہے۔ ایک عرصے سے محسن کاموکہ کے اکا دکا مضامین گاہے گاہے اس فقیر کو واٹس ایپ پر موصول ہو رہے تھے، لیکن سچ پوچھیں تو ان کے مضامین کو ایک کتابی مسودے کی صورت میں جب ملاحظہ کیا تو احساس کے طبق روشن ہوئے۔ محسن ہمیں اس لیے بھی عزیز ہیں کہ خیالِ واصفؒ سے منسلک ہیں، درِ واصفؒ سے منسوب ہیں۔ شعبے کے لحاظ سے مسندِ عدل پر فائز ہیں …… اللہ انہیں دوسرا ”فائز“ نہ بنائے……!! محسن کا کام تو انصاف سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔ انصاف شریعت ہے، احسان طریقت ہے …… مجھے امید ہے کہ محسن احسان کے ساتھ عدل کرنے والوں میں ہوں گے۔ بہرطور یہ منصف اب مصنف بھی ہے۔ ہر مصنف کو منصف ہونا پڑتا ہے۔ اسے میزانِ فکر سنبھالنا ہوتا ہے۔ فکر میں عدل ہو گا تو لفظ کے ساتھ انصاف ہو گا۔ دعا ہے کہ باری تعالیٰ اسے محسنین میں شامل کرے۔ صوفیا کو قرآن میں محسنین کے نام سے پکارا گیا ہے۔ واللہ یحب المحسنین!!
ان کی کتاب پر میں کیا لکھوں، خیالِ واصفؒ بھی ہے اور اسلوبِ واصفؒ بھی کارفرما ہے۔ ہم فقط تائید و تعریف کرنے والوں میں ہیں۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ خیالِ واصفؒ اسلوبِ واصفؒ کے ساتھ ہی وارد ہوتا ہے۔ فکر میں لغزش نہیں پائی گئی، لفظوں کی بندش بھی خوب ہے۔ اچھے خیال کو اچھا لفظ مل جائے تو خیال خود ہی رقص میں آ جاتا ہے۔ کتاب ابھی زیرِ ترتیب ہے، لیکن خیال اپنی جگہ مکمل ہے …… اس لیے رقص میں ہے!! ان کے مضامین میں اقوالِ حکمت فراوانی میں ملتے ہیں۔ حکمت کی دولت نصیب والوں کو ملتی ہے۔ حکمت کو فضل کہا گیا ہے اور قرآنِ حکیم میں بتایا گیا ہے کہ جسے حکمت مل گئی اسے گویا خیرِ کثیر مل گیا۔ دعا ہے کہ رب العزت اس خیرِ کثیر کو کثرت سے متلاشیانِ حکمت کی سیرابی کا سبب بنائے۔ رب تعالیٰ اسے شہرت سے بچائے اور عزت میں بڑھائے …… اسے مقبولیت سے زیادہ قبولیت کے شرف سے متصف کرے!!