ابلیس کے ہاتھوں میں ہے دنیا کی حکومت

سیاست، معیشت اور انصاف پر قابض طبقات اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔عوام اپنی بقا کی جنگ لڑ رے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے عفریت عوام کو دبوچے ہوئے ہیں۔ کراچی کے ایک سماجی کارکن کا ویڈیو کلپ سننے کو ملا۔انہوں نے جو حقائق بتائے اور معاشرے پر راج کرنے والے مافیا کا صرف ایک رُخ انہوں نے بتایا اسے سُن کر تو لگتا ہے دنیا کا نظام ابلیس کے ہاتھوں میں ہے۔ گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ چالیس سے پچاس ہزار ماہانہ تنخواہ جو کچھ عرصہ قبل ایک معقول تنخواہ تصور کی جاتی تھی آج اس تنخواہ میں لوگوں کے لیے گزارہ کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ زندگی بسر کرنا تو ایک طرف لوگوں اپنے پیاروں کی تدفین کے لیے ہزاروں روپے ادا کرکے قبر حاصل کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
کراچی میں ایک شخص کے بچے کی میت تین دن سے رکھی تھی اور وہ اس لیے کہ اس کے پاس پچیس ہزار روپے نہیں تھے۔ ہسپتال مافیا قریب المرگ مریض کے لواحقین کو اس کی زندگی کی جھوٹی تسلیاں دے کر لاکھوں کا بل بنا ڈالتے ہیں اور جب مریض وفات پاجائے تو میت اس وقت تک لواحقین کے حوالے نہیں کرتے جب تک کہ وہ لاکھوں کا بل ادا نہیں کردیتے۔
آدھی رات کا وقت تھا اسلام آباد کے ایک سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر صاحب آنکھوں میں نیند کے باوجود اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے موجود تھے۔ اچانک ان کے سٹاف نے انھیں آکر بتایا کہ ایک مریض ایمرجنسی وارڈ میں لایا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے کمرے سے وارڈ میں پہنچے تو ہیضے کے باعث بارہ تیرہ سال کا ایک بچہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا۔ بچے کا باپ بھی حُلیے سے ایک غریب محنت کش لگ رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے فوری طور پر علاج شروع کیا اور کچھ دیر بعد بچے کی حالت سنبھلنے لگی۔ ڈاکٹر صاحب نے بچے کے والد کو ڈانٹتے ہوئے پوچھا کہ بچے کی حالت کب سے خراب ہے اور آپ اسے فوری طور پر ہسپتال کیوں نہیں لائے؟۔ جواب میں بچے کے والد نے جو بتایا اسے سن کر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر سمیت ہسپتال کا دیگر عملہ کانپ کر رہ گیاکہ غربت اور فلاکت کا یہ تصور ان کے ذہنوں میں تھا ہی نہیں۔ بچے کے والد نے بتایا کہ وہ ایک دیہاڑی دار مزدور ہے جو منہ اندھیرے گھر سے نکلتا ہے اور رات گئے واپس لوٹتا ہے۔ آج بھی جب وہ دن بھر کی مزدوری سے تھک ہار کر گھر پہنچا تو اس کے بچے کی طبیعت بہت خراب تھی۔ اس کی جیب میں فقط دو سو روپے تھے۔ علاقے میں موجود نجی ہسپتالوں کے اخراجات اس کی پہنچ سے باہر تھے۔ لہذا اس نے دن بھر کی مزدوری کی تھکان کے باوجود اپنے بچے کو کندھے پر ڈالا اور پیدل چلتا ہوا سرکاری ہسپتال تک کا پندرہ کلو میٹر کا سفر پانچ گھنٹے میں طے کیا۔ اگر وہ جیب میں موجود دو سو روپے ٹیکسی یا رکشے پر خرچ کرتا تو علاج کے لیے یہ قلیل رقم بھی میسر نہ ہوتی۔ یہ ہے ہمارے عوام کی حالت زار۔
ایک خاتون اپنے بیمار شوہر اور جوان بچیوں کے ساتھ ایک کوٹھی کی کوٹھڑی میں رہائش پذیر ہے۔ یہ رہائش کوٹھی کے مالک نے اس کو اس شرط پر فراہم کی ہے کہ وہ اس کے گھر کی صفائی اور اس کی بھینس کی بھی دیکھ بھال کرے گی۔خاتون اس کوٹھی کے علاوہ چند اور گھروں میں بھی صفائی کا کام کرکے اپنی زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہی ہے۔ چند روز قبل اس خاتون کی ماں فوت ہوگئی۔ جب وہ خاتون اپنی ماں کی تدفین اور سوگ کے بعد چوتھے روز کوٹھڑی میں پہنچی تو مالک نے اسے سامان اٹھا کر نکل جانے کو کہا کیونکہ تین دن اس کے گھر کی صفائی نہیں ہوسکی تھی۔ ملک میں قدم قدم پر غربت اور افلاس کا راج ہے۔ میثاق جمہوریت نے جو گل کھلائے تھے اسی کی طرز پر تجویز کردہ میثاق معیشت کو میثاق معیشت ہی کہا جاناچاہیے یا مذاق ِ معیشت کہنا چاہئے۔
لاہور میں بجلی کی مصنوعات بنانے والی ایک کمپنی نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے چالیس مزدوروں کو ملازمت سے فارغ کردیا۔ ان کی برطرفی پر جب دوسرے مزدوروں نے احتجاج کیا تو انہوں نے تمام مزدوروں کو فیکٹری سے نکال کر تالا لگا دیا۔ بے روزگار ہونے والے ملازمین نے اپنے حقوق کے لیے پر امن احتجاج کیا تو چالیس سے زائد مزدوروں پر مختلف دفعات کے تحت ایف آئی درج کرا دی گئی اور جب ان مزدوروں کی ضمانت ہو گئی تو ان مزدوروں پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایک اور مقدمہ درج کرا دیا گیا۔ جب فیکٹری انتظامیہ نے دیکھا کہ معاملات بگڑتے جارہے ہیں تو سی بی اے یونین کے ساتھ مل کر تالا بندی ختم کردی اور تمام مزدوروں کو بحال کردیا لیکن جتنے عرصے تالا بندی رہی اس کا معاوضہ بھی گول کردیا۔
اسلام آباد کی ایک مضافاتی بستی کا رہائشی عبد اللہ ایک فیکٹری کے دفتر میں دس سال سے یومیہ اجرت پر کام کررہا ہے۔ چند دن قبل اسے ایک دوسرے ادارے میں بہتر تنخواہ پر ملازمت مل رہی تھی جس کے لیے اسے فیکٹری سے دس سالہ ملازمت کا سرٹیفیکٹ چاہیے تھا۔ جسے فیکٹری نے دینے سے صاف انکار کردیا۔ کیونکہ اس کے پاس کوئی قانونی جواز نہیں ہے کہ وہ ایک شخص کو دس سال تک یومیہ اجرت پر ملازم رکھے۔
یہ ہے عوام کی حالت زار کی فقط چند مثالیں۔ مگر ہم اس بات پر پریشان ہیں کہ انتخابات نوے دن مکمل ہونے کے بعد ہوں گے یا اکتوبر 2023ء میں۔انتخابات کے لیے رقم کابینہ منظور کرے گی یا پارلیمنٹ۔ لاکھوں کیس التواء کا شکار ہیں مگر ترجیح ہے تو صرف سیاسی معاملات پر من پسند فیصلے سنانے کی۔ تل ابیب یونیورسٹی میں سائنسدانوں نے روتے ہوئے پودوں کی آوازیں ریکارڈ کی ہیں اور ہمارے یہاں پوری سیاست ذاتی ٹیلیفونک گفتگو اور ویڈیوز کے گرد گھوم رہی ہے۔ داد وصولی کے لیے مفت آٹے کی تقسیم کے اعلانات کئے جا رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ نہیں بتایا جارہا کہ اس مفت آٹے کے ساتھ ذلت اور موت بھی مفت ہے۔
فلک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے