کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں

فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں (سورہ یوسف:۸) دن بہ دن تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی لہر نے پاکستان کے عوام سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا ہے۔ شہروں سے لے کر قصبوں تک بے روزگار نوجوانوں کے غول کے غول پھر رہے ہیں، نا امیدی اور مایوسی ان نوجوانوں کی صحت کو بُری طرح متاثر کر رہی ہے۔ تقریباً ہر تیسرا پاکستانی فرد ڈپریشن، مایوسی اور افسردگی یا ذہنی عدم توازن کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ڈپریشن کا مرض حد سے زیادہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق 2026 میں ڈپریشن دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ تنگ دست، خوش حال، ان پڑھ، تعلیم یافتہ، حتیٰ کہ دینی فہم اور مزاج رکھنے والے لوگ بھی تیزی سے اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ ڈپریشن کی وجہ سے دنیا میں روانہ کئی افراد خودکشی اور خود سوزی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ڈپریشن درحقیقت اس بات کی علامت ہے کہ فرد داخلی طور پر شدید بحران کا شکار ہے اس کا شعور، لاشعور سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ شدید اذیت میں مبتلا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حقیقی مسلمان کبھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ اس کی زندگی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے۔ اس کا مقصدِ حیات اللہ کی عبادت اور اطاعت ہے اور اس زندگی تمام پریشانیاں اس کی آزمائش کے لیے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اور ہم تمہیں دکھ اور سکھ سے آزما رہے ہیں، پرکھنے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف
لوٹائے جاؤ گے(مفہوم)۔ یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ ربِ کائنات کی طرف سے آنے والے مصائب کی شدت کبھی انسان کی برداشت کی حد سے باہر نہیں ہوتی۔ فرمانِ الٰہی ہے ہم کسی پر اس کی استقامت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ چنانچہ مسلمان مصائب کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھتا ہے اور مصائب سے گھبرا کر زندگی سے بیزار ہونے کے بجائے ان سے نجات پانے کے لیے پوری اور مسلسل کوشش کرتا ہے۔ مومن یہ بات سمجھنا ہے کہ اس کی دنیاوی زندگی کی تمام پریشانیاں عارضی ہیں۔ اگر وہ ناسازگار حالات میں بھی اپنے ایمان اور اعمالِ صالح پر قائم رہے گا تو مرنے کے بعد ہر غم سے پاک انتہائی پُر مسرت، ابدی زندگی کا حق دار ہو گا جس کی بشارت دو جہاں کے پروردگار نے دی ہے۔ بے شک ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر، خوف، بھوک، مال اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور ان ثابت قدموں کو خوش خبری سنا دو جن کا حال یہ ہے کہ جب انکو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی عنایتیں ہیں اور رحمت، اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ حضرت ایوبؑ مال، اولاد اور تمام خدام سے محروم ہونے کے علاوہ ایک بہت تکلیف دہ جسمانی عارضے میں بھی مبتلا ہو گئے۔ حضرت ایوبؑ کے تلوے سے لے کر سر تک سارے جسم میں جلتے ہوئے پھوڑے نکل آئے۔ وہ ایک ٹھیکرا لے کر اپنا جسم کھجاتے اور راکھ پر بیٹھے رہتے تھے۔ اس کے باوجود آپؓ ایمان کی چٹان ثابت ہوئے۔ خباب بن ارت ؓ کو مشرکینِ مکہ نے آگ کے انگاروں پر لٹایا، یہاں تک کے ان کی چربی کے پگھلنے سے آگ بجھ گئی، لیکن وہ ایمان پر جمے رہے۔ حضرت بلال ؓ کو لوہے کی زرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا، پھر تپتی ریت پر لیٹا کر گھسیٹا گیا، مگر وہ احد احد ہی کرتے رہے۔ نبی کریمﷺ تو سخت ایام کو عبادت کا ذریعہ بنا لیتے تھے۔ ایک مسلمان کی زندگی میں کیسی ہی ناکامیاں کیوں نہ آئیں یا ظاہری اسباب کیسے ہی نامساعد کیوں نا ہوں وہ کبھی بھی نا امید نہیں ہوتا۔ وہ اجاڑ موسم میں بہار دیکھتا ہے، تپتے ہوئے صحرا میں آبشار دیکھتا ہے، سوکھی ہوئی شاخ میں شجرِ سایہ دار دیکھتا ہے، اس لیے کہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس تو بس کافر ہی ہوتے ہیں۔ مسلمان اس رمز سے آشنا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اذن اور ارادے سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی ارادہ خیر اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس لیے مسلمان ہر زحمت میں رحمت دیکھتا ہے اور ہر زخم میں مرحم پا لیتا ہے۔ آزمائشیں تو ہر ذی روح کی زندگی میں آتی ہیں، ہم زندگی کے بیشتر مقامات پر آزمائے جاتے ہیں۔ ہماری زندگی میں جاری غموں اور خوشیوں کا انحصار ہماری سوچ اور حکمتِ عملی پر ہے، ہم کیسے ان کا سامنا کر تے ہیں۔ وہ پروردگار جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتا ہے تو ہماری زندگی میں موجود پریشانیاں اور تکالیف بھی دور کرنے پر قادر ہے۔ وہ جو حضرت ابراہیم ؑ کو آتش نمرود سے محفوظ نکال لیتا ہے کیا وہ ہمارے مسائل حل کرنے پر قادر نہیں۔ وہ ذات جو حضرت یونس ؑ کو چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رکھنے کے بعد زندہ نکال لائی اس کے لیے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں کیا معنی رکھتی ہیں۔ ہمارا یقینِ کامل ہی ہمیں بچاتا ہے، توکل ہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے آگ ٹھنڈی کرا لی گئی۔ یہ توکل ہی کا صلہ تھا کہ ایک شیر خوار کے ایڑیاں رگڑنے پر آبِ زم زم جاری کر دیا گیا، حضرت یوسفؑ کا حضرت یعقوبؑ سے ملنا، شدید طوفان میں کشتیِ نوحؑ کا پار ہونا کیا توکل ہی کی وجہ سے ممکن نہیں ہوا۔ جو حضرت یوسف ؑ کے لیے بند در وا کر دیتا ہے، جو یوسف ؑ کو اندھیرے کنویں سے نکالتا ہے، پھر ان کو شاہِ مصر بنا دیتا ہے۔ لیکن کنویں میں گرنے سے لے کر شاہِ مصر بننے تک کا سفر انہوں نے بھی شدید مشکلات اور آزمائشوں میں گزارا۔ غلام بنا کر بیچ دیے گئے، تو کبھی بے گناہ قید میں ڈال دیے گئے مگر ان کا توکل کسی مقام پر نہیں ڈگمگایا اور وہی توکل ہی انہیں شاہِ مصر کے مقام تک لایا۔ مشکلیں اور آزمائشیں ہمیشہ ہی کچھ وقت بعد ختم ہو جایا کرتی ہیں، راستے بھی کھل جایا کرتے ہیں، جس طرح سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے اسی طرح مشکلات اور آزمائشیں بھی انسان کو مضبوطی اور استقامت بخشتی ہیں۔ ایک سچے مسلمان کو یہ بھروسہ اور اعتماد ہونا چاہیے کہ اللہ ہے اور ہر پل اس کے ساتھ ہے ساری مشکلیں، ساری پریشانیاں وہی حل کرے گا۔