نگران حکومت کا مسئلہ صرف آٹا؟

حکومت کی عوامی مسائل اور مشکلات سے دلچسپی کا اندازہ، اس کی طرف سے ایک سال کے عرصہ میں ہونے والی قانون سازی سے کیا جا سکتا ہے،اب تک ہونے والی قانون سازی حکمران طبقہ کی کھال اور مال بچانے کیلئے کی گئی،13جماعتی اتحاد کی حکومت نے اپنے خلاف کرپشن کے تمام کیسز نیب کا قانون بدل کر ختم کرا لئے،لوٹ مار کے پیسہ کو قانونی تحفظ دلا لیا،اداروں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ان کو بے اختیار کر کے سارے اختیارات خود حاصل کر لئے گئے اور اب اقتدار کو غیر آئینی طول دینے کیلئے نہ صرف آئین کو پامال کیا جا رہا ہے بلکہ سپریم کورٹ کو بھی تضحیک کا نشانہ بنا لیا گیا ہے،جج صاحبان کو پسند نا پسند کی بنیاد پر تقسیم کر دیا گیا ہے،جو فیصلہ خواہش کے مطابق اپنے فائدہ میں آئے قبول مخالف آئے تو نا منظور،یہ روش کسی با اخلاق،با کردار،با اصول قوم کی نہیں ہو سکتی۔ سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے تاریخ دے دی ہے جسے حکومت نے نا قابل عمل قرار دے دیا ہے، مگر الیکشن تو کرانے ہی پڑیں گے،اس آئینی عمل سے کب تک بھاگا جا سکتا ہے؟تحریک انصاف اور عمران خان کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے حکومتی جماعتیں الیکشن کرانے سے خائف ہیں،موجودہ حالات میں انہیں کامیابی نظر ہی نہیں آ رہی اس لئے حکومتی زعما اور حکما الیکشن کے مرض سے بچنے کے لئے کبھی ایمر جینسی اور کبھی دوسرے دوا دارو کی بات کر رہے ہیں جبکہ،،مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی،،جیسی صورتحال ہے۔
گزشتہ سال بارشوں نے ملک کے بڑے حصہ میں تباہی پھیلائی ابھی اس کے اثرات ختم نہیں ہوئے کہ ایک مرتبہ پھر بادلوں نے ملکی فضا میں ڈیرے جما لئے ہیں اور کھل کر برس ر ہے ہیں،گندم کی فصل کو شدید نقصان کا خطرہ ہے مگر حکمران بے پرواہ ہیں، ایسی صورتحال میں سرکاری مشینری ہی بہتری کیلئے کردار ادا کر سکتی ہے، منظم، منضبط، تربیت یافتہ،سرد و گرم چشیدہ،آئین قانون، قاعدے ضابطے سے آگاہ یہ فورس کسی بھی ملک میں بحرانی صورتحال میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے مگر ہم نے اس فورس کو ذاتی ملازم سمجھ کر اسے ریاست کے بجائے حکومتی ملازم بنا دیا، موجودہ حالات میں یہ فورس خود حیران اور پریشان ہے،اسے سمجھ نہیں آ رہا کیا ہو رہا ہے،نتائج کیا ہونگے،معاملہ سدھرے گا کیسے؟کیونکر ہنگامی صورتحال سے نجات ملے گی؟ہر شعبہ زندگی بد ترین انحطاط کا شکار ہے،اور بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی،حکمران ہر سنجیدہ بحران کو غیر سنجیدگی سے لیتے رہے اور آئین کو بھی موم کی ناک بنا دیا گیا تو ریاست کا وجود کیسے برقرار رکھا جا سکے گا؟قرضوں کے ہمالیہ کو کیسے کندھوں سے اتارا جائے گا کہ ہماری قیادت خود انحصاری پر یقین ہی نہیں رکھتی ہر مسئلہ کاحل مزید قرض لینے میں ڈھونڈا جاتا ہے،بنگلہ دیش ہم سے سالوں بعد الگ ہوا اور آج اس کی معیشت مضبوط ہے وجہ قیادت کا اخلاص اور سچائی ہے،وہاں بھی ایک عرصہ فوجی حکومت رہی مگر اس کی قومی پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی،ہماری بیوروکریسی گہری سوچ میں ہے اپنے حلف کا پاس رکھے یا حکمرانوں کے زبانی احکامات کا،آئین کا اتباع کرے یا حکمران سیاسی جماعت کے منشور کا،یہی حال رہا تو ملک کو پسماندگی کی دلدل میں جانے سے بچانا ممکن نہ ہو گا،جس کے بعد ہمیں کسی دشمن کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ بحران قدرت کے نظام کا ایک لازمی حصہ ہیں مگر بیدار مغز قومیں بحران کے بطن سے دوسرے بحران کے جنم سے قبل اس پر قابو پانے کی حقیقی کوشش کرتی ہیں مصنوعی،وقتی اقدامات سے بحران ختم نہیں ہوتے ان کی شدت عارضی طور پر کم ہو جاتی ہے اور کچھ عرصہ کے بعد یہی بحران مزید شدت کیساتھ سامنے آجاتا ہے،بد قسمتی سے پاکستانی قوم روئے زمین کی واحد قوم ہے جو بحران در بحران سے دوچار ہوتی ہے،بقول منیر نیازی
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
مگر بحران سے نجات کیلئے فطری اقدام سے گریز کرتی اورآنکھیں بند کر کے گمان کر لیتی ہے کہ طوفان گزر گیا،اس وقت ملک آئینی، جمہوری، پارلیمانی،معاشی بحران سے دوچار ہے مگر مہنگائی اور بے روزگاری ایسے بحران ہیں جس سے عام شہری بھی متاثر ہے،حکمران طبقہ اس حوالے سے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے جس کی وجہ سے بحران کی شدت کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے،یہ بحران کسی بڑے بحران کا پتہ دے رہا ہے،جس سے نبٹنا شاید قومی قیادت کے بس میں نہ رہے،ن لیگ کی قیادت نے ہمیشہ بحران سے سیاسی فائدہ اور مقبولیت حاصل کرنے اور اسے مخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے استعمال کیا،اب بھی عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر عوامی حمایت حاصل کرنے کی بھونڈی کوشش کی جا رہی ہے،ماضی میں بھی سستا تنور اور سستا آٹا کے نام پر سیاست کی گئی،اب مفت آٹا کے نام پر اپنی تشہیر کی جا رہی ہے وہ بھی بڑی سنجیدگی کیساتھ۔وزیر اعلیٰ سے لے کر تمام وزرا اور پوری بیوروکریسی آٹے سے باہر نہیں آ رہی،ہر دوسرے دن آٹا مراکز چیک کرنے کے لئے افسروں کے ڈیوٹی روسٹرایسے تبدیل لئے جا رہے ہیں جیسے نگران حکومت کو صوبے میں کوئی اور مسئلہ ہی نہیں ہے۔
پہلے مفت آٹا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ڈیٹا کے ذریعے صرف مستحق اور نادار لوگوں کو دینے کا اعلان کیا گیا،اب سیاست چمکانے کے لئے ہر شہری کو آٹا فراہم کیا جا رہا ہے، تا کہ وہ وزیر اعظم کی تصویر کا دیدار کر لے،مفت آٹا لینے کی کوشش میں اب تک 14افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، صوبائی حکومت اسے بھی ماننے کو تیار نہیں،وزیر اعظم پاکستان نے پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر 53ارب روپے مفت آٹا سکیم کیلئے فراہم کرنے کا اعلان کیااب مزید 20روپے دینے کی بات ہو رہی ہے مگر دلچسپ بات یہ کہ وفاق نے پہلے سات اور پھر پانچ ارب فراہم کرنے کا وعدہ کیا،جو اب تک وفا نہیں ہوا اور یوں اب تک کا بوجھ پنجاب کی نگران حکومت پر ڈال دیا گیا،اس سکیم سے بھی سیاست چمکائی گئی اور فلور ملز مالکان،بڑے ڈیلرز،مڈل مین،تاجروں کو نوازا گیا،جو اسی وجہ سے ن لیگ حکومت کے حامی ہیں کہ لیگی دور میں ان کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے،وفاقی اور صوبائی حکومت، بیورو کریسی، مقامی حکومتوں کی ساری مشینری مفت آٹے کی تقسیم میں مصروف ہیں،عوام کے دیگر مسائل پوری شدت سے منہ پھاڑے عفریت کی طرح عوام کو نگل رہے ہیں،باقی سب مسائل سے قطع نظر مہنگائی کا جن بے قابو ہے،حکومت مفت آٹا تو ہر ایک میں تقسیم کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہے مگر عوام سبزی دال چاول گھی اور دیگر ضروری اشیاء کی خریداری سے عاجز ہیں،ملک کی آدھی آبادی خط غربت سے نیچے جا چکی ہے،متوسط طبقہ کا وجود باقی نہیں رہا، آٹا تو عوام کو مفت مل رہا ہے مگر روٹی کھائی کس کیساتھ جائے؟