سرکارِ دو عالم حضرت محمد ﷺ کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے میری کچھ مدد فرمائیں۔ آپ ؐ کی محفل میں اس وقت کچھ صحابہ کرام ؓ بھی جلوہ افروز تھے جن میں سے ایک صحابی نے ایک درہم حضور اقدس کو اس شخص کو دینے کے لیے پیش کیا ایک اور صحابی نے مزید ایک درہم آپؐ کی خدمت میں نذر کیا کہ غریب کی مدد کی جا سکے۔ آپؐ نے 2 درہم اس سوالی کو دیتے ہوئے فرمایا کہ بازار جاؤ اور وہاں سے ایک درہم کی ایک کلہاڑی اور ایک درہم کی رسی خرید کر میرے پاس لاؤ جب وہ شخص دونوں چیزیں لے آیا تو آپؐ نے اپنے دست مبارک سے کلہاڑی میں لکڑی کا دستہ ٹھونک دیا اور اسے کہا کہ جنگل میں جاؤ لکڑیاں کاٹو اور انہیں بازار میں فروخت کر دیا کرو اور اب 15 دن سے پہلے میرے پاس مت آنا وہ شخص چلا گیا جب وہ 15 دن بعد آپؐ کی خدمت میں واپس لوٹا تو آپؐ نے دریافت کیا کہ اب سناؤ کیا حال ہے اس نے کہا کہ یا رسول اللہ گھر کا خرچہ چل جاتا ہے بلکہ میں نے کچھ درہم بچا بھی لیے ہیں آپؐ نے فرمایا کہ اب جاؤ اور اپنا کام جاری رکھو میں چاہتا ہوں کہ قیامت کے روز آپ کے جسم پر بھیک مانگنے کا داغ نہ ہو۔ آپؐ کی بڑی مستند اور مشہور حدیث ہے کہ الکاسبُ حبیب اللہO یعنی اپنے ہاتھ سے کام کرنے والا خدا کا دوست ہے۔
مندرجہ بالا واقعہ اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں اگر آج ہم بین الاقوامی معاشی ماہرین کی ریسرچ اور ان کی سفارشات کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دنیا میں غربت کا خاتمہ خیرات بانٹنے سے ممکن نہیں آج سے کئی دہائیاں قبل ورلڈ بنک اور اس طرح کے اداروں نے Social Safety Network کی اصطلاح ایجاد کی تھی کہ شدید غربت Ultra Porerty کے خاتمے کے لیے غریبوں کو نقد رقوم یا الاؤنس دیئے جائیں لیکن سالہا سال کی تحقیق اور تجربے کے بعد معاشی ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سوشل سیفٹی نیٹس غربت میں خاتمے کی بجائے غربت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ
اس سے بھیک مانگنے یا سرکاری امداد حاصل کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے اور غریب طبقے محنت کرنے کی بجائے ہڈ حرامی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور ملکی مین پاور ضائع ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں سوشل سیفٹی نیٹ کا فروغ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ہوا۔ یہ ایک سیاسی ہتھیار تھا جس نے غریبوں میں رقوم تقسیم کر کے انہیں برین واش کیا جاتا تھا کہ وہ الیکشن میں بے نظیر کی پارٹی کو ووٹ دیں اس کا اس سے بھی افسوسناک پہلو یہ تھا کہ فرضی خانہ پری کے ذریعے اس فنڈ کے اربوں روپے سرکاری اہل کاروں نے غبن کیے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ کئی وزارتوں کے بجٹ سے بھی زیادہ تھا اور آصف زرداری دور کی اس پروگرام کی چیئرمین جن پر BISP پروگرام کے اربوں روپے کی خورد برد کا الزام تھا وہ ملک سے فرا ہو گئی تھیں ان کے خلاف نیب کے مقدمات آج بھی زیر التوا ہیں۔
بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی سیاسی مقبولیت میں کمی کے خوف کی وجہ سے اس پروگرام کو جاری رکھا انہیں یہ خطرہ تھا کہ اگر یہ پروگرام بند کیا گیا تو ملک کے اکثریتی غریب طبقے ان کے خلاف ووٹ دیں گے اس وجہ سے ن لیگ حکومت اسے ختم کرنے کا رسک نہ لے سکی۔ جب 2018ء میں تحریک انصاف پہلی بار اقتدار میں آئی تو انہوں نے سارا زور اس پروگرام پر لگا دیا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی بیک گراؤنڈ اور وجہ شہرت کینسر ہسپتال کے لیے خیرات، زکوٰۃ اور چندہ اکٹھا کرنے کی تھی اس لیے جب وہ اقتدار میں تشریف لائے توانہوں نے سمجھا کہ جس طرح وہ کینسر ہسپتال کا خزانہ چندہ مانگ کر اور فنڈ ریزنگ سے بھر لیتے تھے ریاست کا خزانہ بھی ایسے ہی بھر لیں گے مگر بہت جلد یہ ثابت ہو گیا کہ ایک ٹرسٹ چلانا اور ریاست چلانا دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اس کے باوجود تحریک انصاف نے غریبوں میں پیسے بانٹنے کو ایک intitution کی شکل دی جسے احساس پروگرام کا نام دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کا نام ڈالا بھی سیاسی بنیاد پر گیا تھا اور نکالا بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر گیا کیونکہ تحریک انصاف اس کا کریڈٹ اپنے نام کرنا چاہتی تھی۔ انصاف کارڈ کا اجراء اس کا ثبوت ہے کارڈ پر پارٹی کے جھنڈے کی تصویر بنائی گئی۔ تحریک انصاف نے تو غریبوں میں بھیک بانٹنے کے لیے پہلی بار انسداد غربت کی ایک الگ وزارت بنا دی جس کا گزشتہ سال یعنی 2022ء کا بجٹ 268 ارب روپے تھے جو بہت سی وزارتوں کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ بے نظیر سے لے کر احساس پروگرام تک ہر سال یہ بجٹ بڑھتا جا رہا ہے اور جیسے جیسے بجٹ بڑھتا ہے ملک میں غربت و افلاس اس سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر یہ اربوں روپے کا فنڈ ملک میں فنی تعلیم اور کارخانے یا چھوٹے کاروبار کرنے پر لگائی جاتی تو آج لاکھوں غریب کنبے خود کفالت حاصل کر لیتے۔ اس پیسے سے خواتین اور طلباء کو اور بیروزگار طبقے کو اپنا کاروبار کرنے کا موقع فراہم کیا جا سکتا تھا۔ اب بھی ہمیں یہ احساس کرنا ہو گا کہ دنیا میں کہیں بھی غربت کا خاتمہ بھیک دینے سے نہیں ہوتا۔ یہ فنڈ معاشیات کی زبان میں بطور Seed Money استعمال کیا جاتا یعنی یہ پیسہ کمانے کا بیج تھا اور اگر ایک قوم بیج کو اگانے اور فصل بڑھانے کی بجائے اسے کھا جائے تو اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان کا ہے۔
آج آپ دیکھتے ہیں کہ جہاں راشن تقسیم کرنے کا مرحلہ آتا ہے لوگ جان پر کھیل کر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایک طبقے کے اندر یہ سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ مر جائیں گے مگر کام نہیں کریں گے۔ کراچی میں نجی فیکٹری میں راشن کی تقسیم پر ایک درجن افراد کی موت سے بڑا کوئی ثبوت نہیں کہ خیرات حاصل کرنے کیلئے لوگ سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں قوم کے اندر عزت نفس، انا، وقار سب کچھ سرکاری پالیسیوں کی وجہ سے ختم ہو چکا ہے۔ ہم نے ٹی وی پر ایک شخص کو دیکھا وہ کہہ رہا تھا کہ میں رکشہ چلاتا ہوں اور تین دن سے کام پر نہیں جا سکا کیونکہ مفٹ آٹے کی لائن میں کھڑا ہوں اور آٹا نہیں مل رہا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ بندہ تین دن کی رشے کی کمائی کا حساب کرے تو وہ آٹے کے تین بیگ خرید سکتا تھا مگر اس نے اپنا کام چھوڑ کر تین دن ضائع کر کے مفت آٹے کو ترجیح دی۔ دن بھر غریبوں کی قطاروں میں کھڑا کرنے والی حکمرانی ویسے ہی انسانیت کی تذلیل ہے یہ طریقہ کار تبدیل ہونا چاہیے۔