مہنگائی کاطوفان، روزے دارپریشان

اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بد ی کے دونوں راستوں کا شعور عطا کیا ہے۔ انسان کو نیکی کے راستے سے روکنے اور برائی کے راستے کو اختیار کرانے والی چیز خواہش نفس ہے جس پر انسان کا ازلی و ابدی دشمن شیطان بآسانی حملہ آور ہوتا ہے اور صراط مستقیم سے بھٹکانے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے لیکن اگر انسان کی نفسانی خواہشات اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع رہیں تو وہ شیطان کے اندرونی حملے سے محفوظ رہتا ہے اور اگر یہ ہدایت ربانی کے تابع نہ رہیں تو پھر یہ انسان کو حیوانی سطح سے بھی نیچے گرا دیتی ہیں۔ خواہش نفس کے مقابلے میں ضبط نفس کی قوت حاصل کرنے کے لئے اور نفسانی خواہشات پر قابو پانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سال میں ایک ماہ صبح سے شام تک کھانے پینے سے اجتناب کو لازمی اور فرض قرار دیا ہے جسے ماہ صیام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ غنیمت اورفرصت کا مہینہ ہے جس میں بہت ہی زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے، اورعقل مند اورتجارت میں مہارت رکھنے والا تاجر تو سیزن میں زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے آپ بھی اس مہینہ کوموقع غنیمت جانیں اورنماز کثرت سے ادا کریں اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت بھی زیادہ سے زیادہ کرنی چاہیے۔نوافل اور تسبیحات کاپڑھنا معمول بنانا چاہیے کیونکہ اس ماہ میں ایک نیکی کا ثواب سترگنا بڑھ جاتا ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ جہاں رب کائنات نیکیوں کی سیل لگاتے ہیں ادھر اس دنیا کے ناخدا (تاجر حضرات) روزہ داروں پر مہنگائی کا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔ اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے روزہ داروں کا پیٹ کاٹتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ روزہ دار وں نے اپنااور اپنے گھروالوں کو روزہ افطار کرنے کے لیے اہتمام ضرور کرنا ہے اور وہ روزہ داروں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنی تجوری بھر لیتے ہیں۔ روزے سے دو دن پہلے جو پھل 200
روپے تھا آج وہ 400 پر پہنچا ہوا ہے۔ سبزیاں بھی 100فیصد کے اضافے ساتھ غریب کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔آٹا حاصل کرنے لیے لوگوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑ رہا ہے۔ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنے مقدر کو آزمانا وہ بھی روزے کی حالت میں کہ مجھے آٹا ملتا ہے کہ نہیں؟ گھی اور تیل تو پہلے ہی ہاتھ لگانے کو غریب ترس رہا ہے۔ یہی نہیں غریب آدمی جو باہر سے سموسے پکوڑے سو پچاس روپے کے لے آتا تھا اب وہ بھی ناممکن ہوگیا ہے کیونکہ جو سموسہ 30روپے کا تھا اب وہ 50 کا بیچا جارہا ہے۔ افسوس ہم ان تاجروں پر ہی نہیں کرسکتے بلکہ اس سے زیادہ تکلیف کی بات یہ ہے کہ انتظامیہ بھی سوئی ہوئی ہے یاپھر اپنا حصہ لیکر خاموش ہے کیونکہ یہ ریٹ کسی ایک شہر کے ہیں بلکہ مہنگائی کی آگ پورے ملک میں لگی ہوئی ہے۔ ضلع، تحصیل سے لیکر مقامی انتظامیہ تک کوئی شخص ان لوٹ مار کرنے والے کے خلاف کوئی ایکشن لینے کو تیار نہیں اگر زیادہ ہوا تو کسی ایک کمزور تاجر کوہلکا پھلکا جرمانہ کرکے اپنی خبر اخبار کی زینت بنوا کر فارغ۔
تصویر کا ایک رخ دکھایا ہے اب دوسرا رخ بھی دیکھ لیں۔ ایک طرف تو تاجروں کی بات ہورہی ہے دوسری طرف فوڈ اتھارٹی کا کردار بھی قابل ستائش ہے۔ اکثر دیہاتوں اور شہروں میں بہت سے دکاندار اور ہوٹل میں اتنے گھٹیا تیل یا گھی میں چیز تل کر فروخت کی جارہی ہے کہ کھانے کو دل نہیں کرتا مگر روزدار اپنے بچوں کی خوشی کے لیے سستے دام ہونے کی وجہ سے ان اشیا ء کو خرید کر لے جاتے ہیں جس سے وہ اپنے بچوں کا روزہ افطار کراتے ہیں جو ان کے بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ باسی اشیا ء اور گلی سڑی چیزیں ڈال کر سموسے پکوڑے تل کر عوام کو فروخت کرنا معمول بن چکا ہے مگر فوڈ اتھارٹی والے بھی اپنا کردار ادا نہیں کررہے۔
سوچنا اس بات کا ہے کہ انسان کی فطرت میں دنیا داری کچھ زیادہ ہے مگر اللہ کے نیک بندے ہیں جو اپنے رب کی رضا کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں شائد اسی لیے یہ دنیا بھی ابھی تک قائم ہے۔ دنیاکے لالچی لوگوں نے تو اپنا ہوس پورا کرنا ہے مگر جومحکمے ایسے لوگوں سے بچانے کے لیے بنائے گئے ہیں ان کا کردار کیا ہے؟ وہ کدھر گم ہیں؟ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے اپنی تنخواہیں لینے والوں کے لیے لازم نہیں کہ وہ ہماری دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ چھوڑیں مگر افسوس ان میں کالی بھڑیں موجود ہیں جو ادھر سے بھی مال کما تے ہیں۔
امت مسلمہ کو مبارک ہو کہ ان کی زندگی میں ایک با ر پھر ماہ صیام آگیاہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس ماہ کا شدت سے انتظار کرتے ہیں اور پھر پورے اہتمام کے ساتھ روزے رکھتے ہیں۔بڑے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اس ماہ کواپنی زندگی میں پاتے تو ضرور ہیں مگر ان کے نصیب میں نہ روزے ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ نیکیوں کی سیل سے فائد ہ اٹھا سکتے ہیں بلکہ اپنے لیے جہنم کی آگ مزید گرم کرتے ہیں۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی میں یہ ماہ پالیا انہیں چاہیے کہ وہ اس ماہ سے فائدہ اٹھا کر اپنے گناہوں کی بخشش کروا لیں۔ پچھلے سال ماہ رمضان میں میری ماں میرے ساتھ تھی اور آج اس رمضان میں وہ اپنے حقیقی مالک کے پاس پہنچ چکی ہیں۔ پچھلے رمضان میں وہ اپنی آخرت کے لیے خود دعا کررہی تھیں اور آ ج ہم ان کی بخشش اور جنت الفردوس پانے کے لیے ہم دعا کررہے ہیں۔
رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لیے خوشی کا مہینہ ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ انسان ہی نہیں اس ماہ ہر جاندار، فرشتے اور جنات سب اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں۔ وہ ان نیکیوں کے بہتے ہوئے سمندر میں ڈوبنا چاہتے ہیں اور اپنے رب کو راضی رکھنا چاہتے ہیں۔اس لیے تمام مسلمان اس ماہ سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی، اپنے اہل خانہ کی اور امت مسلمہ کی بخشش کی دعا کریں کہ اللہ ہم سب کی آخرت سنوار دے۔آمین