ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا؟

پاکستان موجودہ حالات میں شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے 1990 کی دہائی تک پاکستان سے قرضہ لے کر چلنے والا چین آج دنیا میں ایک چمکتا ستارہ بن چکا ہے۔ چین دنیا کی ہر چیز کی پیداوار میں خود مختار ہے اور مکمل لائحہ عمل کے ساتھ ایک قوم بن کر دنیا میں اپنا مقام پیدا کر چکا ہے۔ جاپان ایٹمی حملوں کا شکار ہونے کے بعد بھی ترقی کی کئی منازل طے کر چکا ہے، یہاں تک کہ بنگلا دیش بھی ہم سے جدا ہونے کے بعد مستحکم اور خود مختار ہو چکا ہے۔ اس سب کی واحد وجہ قوم میں جو قابلیت موجود تھی اس سے فائدہ حاصل کیا گیا ہے۔ ایران اور کوریا کے جوہری پروگرام کامیابی کے ساتھ جاری ہیں۔ ہزاروں میلوں پر مشتمل ریگستان پر پھیلی عرب امارات آج جدید ٹیکنالوجی رکھنے والے ملک میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ہمارے ہاں تمام ترقیاتی منصوبوں میں ہاتھ دھونے کے بعد چند الزامات حکومتی پالیسی پر اور کچھ سیاست دانوں پر لگا کر ہمارے افسران تبدیل ہو جاتے ہیں یا پھر معطل۔ قابلیت کا یہ حال ہے کہ یہاں اہم سیٹوں پر ایسے افراد تعینات ہیں جو خود لالٹینوں کے دورِ قدیم میں پڑھ کر دورِ جدید میں قوم کے لیے سولر پراجیکٹس پر نظرِ کرم رکھے ہوئے ہیں۔ کروڑوں روپے کے اخراجات کے عوض جو بیرون ممالک کے دوروں سے یہ ہستیاں علم حاصل کر کے آئی ہیں وہ صرف تفریح تو ہو سکتی ہے مگر اس سب کا اس قوم کو کوئی فائدہ حاصل تک نہیں ہو سکتا ہے۔ وقت کی ضرورت کے مطابق حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ 40 سال سے زائد عمر کے افسران کے بیرونِ ممالک سٹڈی اور پالیسی ٹورز پر پابندی عائد کر کے نوجوان نسل کی جدید تحقیق کے لیے باہر بھیجا جائے۔ یہ عمر رسیدہ ہستیاں جب باہر جاتی ہیں تو دنیا بھر کے چھوڑے ہوئے پروگرامز کو یہاں کے عوام کے لیے مہیا کرتی ہیں، جن سے کاروبار کی دنیا میں تو شاید کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہو لیکن جدت کے حساب سے کوئی دیرپا نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ شاید اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے جس کی زندہ مثال پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا انرجی ڈیپارٹمنٹ ہے۔ اس وقت انرجی وقت کی اہم ضرورت ہے چائنا اور یورپ میں بھی اب پٹرولیم کے متبادل کے طور پر ٹرانسپورٹ کو الیکٹریکل انجن پر تبدیل کر کے معیشت کو مضبوط کیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں کسان کو سولر ٹیوب ویل سفارشات کے بعد افسرانِ بالا کی من پسند کمپنیوں سے دستیاب ہیں۔ الیکٹریکل وہیکل کی تبدیلی کے
لیے ہمارے انرجی ڈیپارٹمنٹ کے پاس کوئی عملی کام موجود ہی نہیں ہے لیکن اخراجات کی بنیاد پر بے شمار میٹنگز، اندرون اور بیرونِ ممالک کے دوروں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ اگر کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ محکمہ ایک سفید ہاتھی بن چکا ہے۔ اس وقت سی پیک کے تحت کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ 1.5 ارب ڈالر سے زائد تک ڈیفالٹ کر چکے ہیں جبکہ آنے والے دنوں میں انکی پیداوار میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ جس کے بعد موسمِ گرما میں بجلی کے بحران کا سامنا ہو گا۔ محکمہ انرجی ابھی تک عوام کو کوئی بہتر پروجیکٹ تو دور ٹھیک سے یہ بھی نہیں بتا سکا ہے کہ کس علاقے کے عوام کیسے بجلی حاصل کر کے حکومتی تعاون کے ساتھ اپنے ملک کے معاشی حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ پوٹھوہار اور چولستان کے علاقوں میں ونڈ مل کے ذریعے بجلی بنائی جا سکتی ہے جبکہ نہروں اور قدرتی چشموں کے پاس ٹربائنز سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن محکموں کو چند با اثر سولر سپلائی کرنے والی کمپنیوں نے مبینہ کمیشن اور دیگر معاملات کی وجہ سے اس قدر گھیرا ہوا ہے کہ پوری قوم کو اصلی، نقلی اور کم نتائج والے سولر مافیاز نے اپنے چنگل میں پھنسایا ہوا ہے، اور یہ جال اس قدر مضبوط اور وسیع ہے کہ ہمارے منتخب کردہ وزیر صاحبان بھی عوام کو اس سمندر میں غرق ہونے کے لیے لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔ اس محکمہ میں تعینات افسران کے شاہانہ اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو قوی امکان ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم شاید باقی بیوروکریسی کو ایک طرف رکھ کر اس محکمہ کے آڈٹ کا مطالبہ کر دے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ فیکٹری مالکان، ہوٹل انڈسٹری، ٹرانسپورٹ کمپنیوں، شاپنگ مالز، کسان اور گھریلو صارفین کو بھی اس محکمے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا لیکن با اثر افراد نے اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ نیب جیسے ادارے کو خود اس سفید ہاتھی بنے ادارے کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دینا چاہیے۔ بجلی کے دن بہ دن بڑھتے بلوں کی بدولت عوام یا تو خود کشی پر مجبور ہیں یا پھر پرانے وقتوں کی طرح بغیر بجلی کے گزارا کرنے پر۔ وہ وقت آن پہنچا ہے جب گزرے وقتوں کی طرح بجلی والے ٹیوب ویل کی جگہ بیل سے ٹیوب ویل چلیں گے، سڑکوں پر دوڑتی جدید گاڑیوں کی جگہ ٹانگے چلیں گے اور اس اندھیرے کا باعث چند نا اہل لوگوں کا عرصہ دراز سے اس ڈیپارٹمنٹ کی کرسیوں پر براجمان ہونا ہے۔ شاید شاعر نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا:
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا
پاکستان میں دنیا کی مہنگی ترین بجلی فروخت کی جاتی ہے، یہاں گھر کے تمام اخراجات ایک طرف اور بجلی کا بل ایک طرف۔ واپڈا پاکستان کا مہنگا ترین ادارہ ہے یہاں تک کہ اس ادارے کے تو ریٹائرڈ ملازم بھی تا حیات مفت بجلی کے مزے لیتے ہیں۔ مگر ایک بات آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ اس ادارے کی غفلت کے باعث جگہ جگہ جھولتے ہائی وولٹیج تار لوگوں کے لیے موت کے پھندے کے مترادف ہیں جو کسی بھی وقت انسانی جان کے نقصان کا باعث بن جاتے ہیں، کہیں تار ٹوٹ کر گرنے سے کسی کی موت واقع ہوتی ہے تو کہیں کوئی لٹکتی تار سے جھلس جاتا ہے، ایک ایک کھمبے پر بیسیوں میٹر نصب ہیں جن سے نکلتے تاروں کے الجھے گچھوں کی صورت موت منہ کھولے انتظار میں ہے تو پھر ایسی کون سی خدمات ہیں جن کی بدولت یہ سہولیات انہیں مہیا کی جاتی ہیں۔۔۔