واپسی کا سفر

ان کا نام عمالقہ تھا اور یہ خاندانی چرواہے تھے۔ ان کا آبائی وطن فلسطین اور شام تھا لیکن یہ نئی چراگاہوں کی تلاش میں مسلسل ہجرت میں رہتے تھے۔ یہ لوگ پانچ ہزار قبل مسیح بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے مصر میں داخل ہو ئے۔ مصر اس وقت طوائف الملوکی کا شکار تھا، ہر گلی محلے کا اپنا بادشاہ، اپنا قانون تھا اور لوگ ہمہ وقت جنگ کے لیے تیار رہتے تھے۔ چرواہوں کے لیے یہ صورتحال دلچسپ تھی، یہ لوگ جنگجو اور جفاکش پہلے ہی تھے اوپر سے انہیں اہل مصر کی کمزوریوں اور حرکتوں کا بھی پتا چل گیا تھا چناںچہ انہوں نے کچھ ہی عرصے میں مصر پر قبضہ کر لیا۔ یہ لوگ تین ہزار سال تک مصر پر حکمرانی کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا زمانہ آ گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام مصر کیسے پہنچے یہ داستان بچہ بچہ جانتا ہے لہٰذا ہم اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام مصر پہنچے تواس وقت چرواہوں کے خاندان کا پندرھواں بادشاہ حکمران تھا جس کا نام ابو فیس تھا۔ یوسف علیہ السلام کاآبائی وطن بھی فلسطین تھا لہٰذا ابو فیس نے اپنا ہم وطن ہونے کی بنا پر ان کی خوب آو¿ بھگت کی۔ اس نے حضرت یوسفؑ کی غیر معمولی لیاقت اور امانت و دیانت دیکھ کر انہیں وزیر خزانہ مقرر کر دیا۔ حضرت یوسف ؑ کو مصر میں استحکام حاصل ہوا تو انہوں نے اپنے والدین اور خاندان کو بھی مصر بلا لیا۔
حضرت یوسف ؑ 110 سال کی عمر میں وفات پا گئے، ان کی وفات کے تقریباً تین چار سو سال بعد مصر میں عمالقہ اور بنی اسرائیل کے خلاف ردعمل شروع ہوا، اس مہم کو لیڈ کرنے والے گروہ کا تعلق قبطی قبیلے سے تھا اور اس قبیلے کے سرداروں نے مصر پر قبضہ کر کے فرعون کا لقب اختیار کر لیا۔ ان فرعونوں نے عمالقہ کے چرواہوں کا نام و نشان تک مٹا دیا، بعد میں ان کی سلطنت شام سے لیبیا تک اور بحیرہ روم سے حبشہ تک پھیل گئی اور یہ اتنے طاقتور ہوئے کہ انہوں نے خدائی تک کا دعویٰ کر دیا۔ بنی اسرائیل تاحال مصر میں مقیم تھے، حضرت یوسف ؑ کے عہد میں بنی اسرائیل کے صرف 67 افراد مصر میں آئے تھے لیکن پانچ صدیوں بعد جب موسیٰ علیہ السلام آئے اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد بیس لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل کے جنگجو نوجوانوں کی مردم شماری کرائی تو ان کی تعداد 603550 تھی، اس حساب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت بنی اسرائیل کی کل تعداد بیس لاکھ
سے زائد تھی اور یہ مصری آبادی کا دس سے بارہ فیصد بنتے تھے۔ قبطی فرعونوں نے بنی اسرائیل کو مصر سے اس لیے نہیں نکالا تھا تا کہ وہ مصریوں کی خدمت کریں اور ان کے کھیت کھلیان آباد کریں۔ موسیٰ ؑ تشریف لائے تو بنی اسرائیل کسمپرسی اور مشقت بھری زندگی گزار رہے تھے، حضرت موسیٰ ؑ نے قبطی فرعونوں کو چیلنج کرنا شروع کر دیا، اس سے بنی اسرائیل کی زندگی مزید تنگ ہو گئی اور انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ سے شکایت کرنا شروع کر دی۔ وہ شکایت کیا تھی اللہ نے یہ شکایت اور اس کا جواب دونوں قرآن میں بیان کیے ہیں۔ بنی اسرائیل نے موسیٰؑ سے شکایت کی کہ ہم آپ کے آنے سے پہلے بھی آزمائشوں اور مشقتوں میں مبتلا تھے اور آپ کے آنے کے بعد بھی مصیبتوں اور اذیتوں میں مبتلا ہیں۔ اللہ نے حضرت موسیٰؑ کی زبانی اس کا جو جواب دیا وہ قرآن کے الفاظ میں اس طرح ہے کہ ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ تم دونوں بنی اسرائیل کو اپنے گھروں میں ٹھہرنے کا حکم دو اور انہیں اپنے گھروں میں استحکام پیدا کر کے انہیں عمل کا مرکز بنانے اور نماز قائم کرنے کی تلقین کرو اور مومنین کو بشارت دے دو۔
اس آیت سے مفسرین نے جو نکات اخذ کیے ہیں وہ بہت اہم ہیں اور آج من حیث القوم ہمیں ان قرآنی ہدایت کو اپنے ملک اور سماج پر اپلائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو سب سے پہلی ہدایت یہ دی کہ تم جہاں رہ رہے ہو وہاں ثابت قدم رہو، مصر کو نہ چھوڑو اور فرعون کے ظلم و ستم سے خوفزدہ اور پریشان سے مت ہو جاو¿۔ اپنے گھروں اور سماج میں خوف اور انتشار کو جگہ مت دو بلکہ ثابت قدم رہو اور اعمال کی درستی کی طرف توجہ دو۔ دوسری ہدایت یہ دی کہ اپنے گھروں کو توجہ کا مرکز بناو¿۔ گھروں کو توجہ کا مرکز بنانے کا مطلب ہے کہ گھریلو استحکام پیدا کرو، باہمی اتحاد و اتفاق کا ماحول بناؤ، آپس میں تذکیر و نصیحت اور صبر کی تلقین کرو اور ان مصائب سے نکلنے کی منصوبہ بندی کرو۔ ان دونوں ہدایات کے ساتھ یہ بات لازم کر دی کہ نماز قائم کرو، نماز کا قیام گویا تعلق مع اللہ کی دلیل ہے کہ دنیاوی منصوبہ بندی، داخلی استحکام اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ اللہ سے رجوع بھی مسائل و مشکلات سے نکلنے کی بنیادی شرط ہے۔ آج ہمیں من حیث القوم ان قرآنی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہمارے گھر، سماج اور ملک انتشار کا اعلیٰ ترین نمونہ بن چکے ہیں، یہ انتشار سیاسی و مذہبی دونوں صورتوں میں ظہور پذیر ہو رہا ہے اور ہر گزرتا دن اس انتشار میں اضافہ کر رہا ہے۔ ہم مسلمان رہے ہیں نہ پاکستانی بلکہ ہم دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث کے ساتھ لیگی، انصافی اور جیالے بن چکے ہیں۔ ہم مذہب اور ملک کا بن کر نہیں سوچ رہے بلکہ اپنے مسالک اور اپنی جماعتوں کا بن کر سوچ رہے ہیں۔ ہمیں مذہب اور پاکستان سے زیادہ مسلک اور جماعت کی فکر ہوتی ہے۔ یہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے اور تاریخ چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہی ہے کہ اس طرح قومیں اور ملک باقی نہیں رہتے۔ ساری انسانی تاریخ ان حقیقتوں سے بھری پڑی ہے کہ کسی ملک اور قوم کی ترقی اور سر بلندی کا راز ابتدائی سطح پر اس کی داخلی تعمیر و استحکام میں مضمر ہوتا ہے۔ افراد اور سماج کے درمیان اتحاد و اتفاق اور استحکام کسی بھی ملک کی بقا کے لیے لازم ہوتا ہے۔ ہم پچھلے دس سال سے اتحاد اور استحکام جیسی نعمتوں کو ٹھوکریں مار مار کر سماج اور ملک سے نکال رہے ہیں اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی گھر دس سال تک مسلسل حالت جنگ میں رہے اس گھر کے افراد ہر روز نئے تماشے لگائیں اور وہ گھر باقی رہے یا آگے بڑھ سکے؟ جب ایک گھر اس طرح نہیں چل سکتا تو اتنا بڑا ملک کیسے سروائیو کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ تاریخ کی دوسری بڑی سچائی یہ ہے کہ کوئی ملک اور قوم حقیقت پسندی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمارے راہنما خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی مسلسل عوام کو جذباتی نعروں کے پیچھے لگا رہے ہیں، یہ سچ کو جانتے بوجھتے ہوئے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اور یہ انتہائی بے دردی کے ساتھ قوم کو نعروں اور ہنگاموں میں ملوث کر رہے ہیں۔ آج ہمیں ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو بولنے سے زیادہ سننے اور چپ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جو قوم کو حقیقت پسندی کی طرف لاسکیں، جو اپنی ذات اور قوم کا کریکٹر پیدا کر سکیں، جو طاقت سے زیادہ دلیل کی قوت پر یقین رکھتے ہوں، جو قول سے زیادہ عمل کے دھنی ہوں اور جو آگے بڑھنے سے زیادہ پیچھے ہٹنے کو کامیابی سمجھتے ہوں۔ ہم نے اس ملک کو انتشار کی آخری حدوں تک دھکیل دیا ہے اور ہم پہاڑ کی آخری چوٹی پر کھڑے ہیں، ہم نے تھوڑا سا بھی قدم آگے بڑھایا تو ہم انتشار کی گہری کھائیوں میں گر جائیں اور دنیا ہم پر قہقہے لگائے گی۔ کوئی ہے جو اس حقیقت کو سمجھے اور انتشار کی چوٹی سے واپسی کا سفر شروع کرے۔