معاشی خوشحالی: وزیراعظم کے لئے تجاویز

حقیقت یہ ہے پاکستان اس وقت معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی، بڑھتی ہوئی افراط زر، شرحِ مبادلہ اور غیر معقول حد تک بلند شرح سود20 فیصد کے ساتھ، ملک سری لنکا کے معاشی تنزلی کی طرح کی راہ پر گامزن ہے۔ ملک میں مہنگائی کا 48 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق فروری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 31.5 فیصد پر بند ہوئی جو 1975 کے بعد بلند ترین سطح ہے۔ اپریل 1975 میں مہنگائی کی شرح 29.3 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ موجودہ مالی سال میں جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27.6 فیصد رہی جب کہ گزشتہ سال فروری کے مہینے میں اس کی شرح 12.2 فیصد تھی۔ ملک میں موجودہ مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح 26.19 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ فروری کے مہینے میں بلند مہنگائی کی شرح میں سب سے زیادہ کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں 45 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد وشمار کے مطابق فروری 2022 سے فروری 2023 کے دوران ایک سال کے عرصے میں پیازکی قیمت میں 416فیصد، چکن 96فیصد، انڈے 78فیصد اور چاول کی قیمت میں 77 فیصد اضافہ ہوا۔ چنا 65 فیصد، سگریٹ 60 فیصد، مونگ کی دال 56 فیصد، چنے کی دال 56فیصد، آٹا 56فیصد، ماش کی دال 50.77فیصد اور خوردنی تیل 50.66 فیصد مہنگا ہوا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق بناسپتی گھی 45فیصد، تازہ پھل 45فیصد، تازہ دودھ 32فیصد، مسور کی دال27 فیصد، مشروبات 24فیصد، آلو 22.42فیصد، مچھلی 21فیصد، گوشت 20.82فیصد اور سبزیاں 11.60فیصد مہنگی ہو گئیں۔ ایک سال کے دوران درسی کتب کی قیمتوں میں 74فیصد، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 63 فیصد، گیس کی قیمت میں 62فیصد، سٹیشنری کی قیمت میں 61فیصد، صابن ڈٹرجنٹس اور ماچس کی قیمت میں 51.63فیصد اضافہ ہوا۔ گاڑیوں کے پرزہ جات 38فیصد مہنگے ہوئے جبکہ ٹرانسپورٹ چارجز میں 33 فیصد اضافہ ہوا۔ علاوہ ازیں پی ڈی ایم حکومت کے 10ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 7 بار اضافہ کیا گیا۔آج وطن عزیز 130 بلین ڈالر کا مقروض ہے یعنی ہر پاکستانی تقریباً 2 لاکھ 35 ہزار کا مقروض ہے، آدھا پاکستان غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہا ہے۔ ہماری جی ڈی پی سے قرض کی شرح 88 فیصد ہے، ڈالر آج 286 روپے کا ہو گیا ہے برآمدات ہماری درآمدات کی آدھی سے بھی کم ہیں۔
پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف کے لئے تجاویز حاضر خدمت ہیں، سب سے پہلے سیاسی استحکام کا فقدان معاشی ترقی کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے اگر پاکستان کے تمام سیاستدان اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کریں اور اپنا سرمایہ پاکستان واپس لے آئیں تو معیشت بہتر ہو سکتی ہے اور جتنا سرمایہ واپس آئے اسے اگلے دس سال تک ٹیکس فری کی سہولت دی جائے۔ ہماری بدقسمتی ہے ہم نے لوٹنے والوں سے پیسہ نہیں نکلوایا بلکہ سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ ایک پائیدار اقتصادی نقطہ نظر کے لیے ادائیگیوں کے توازن کو مستحکم کرنے کے لیے ڈالر کی آمدنی میں حصہ ڈالنا ہے۔ شرح تبادلہ تشویش کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کافی عرصے سے کمزور ایکسچینج ریٹ میں کمی کی گرفت میں ہے۔ آج ایک ڈالر کی قیمت اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جو تقریباً 286 پاکستانی روپے ہے۔ طویل عرصے میں، روپے کی قدر میں بڑی کمی برآمد کنندگان خاص طور پر ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان کے لیے بدترین ہے کیونکہ اس سے ان پٹ لاگت بڑھ جاتی ہے، جس سے برآمدات کم مسابقتی ہوتی ہیں۔ برآمدات کے ذریعے کمائے گئے ڈالر سب سے زیادہ پائیدار ہوتے ہیں جس کے اضافی فائدے کو واپس کرنے کی کوئی مجبوری، کوئی سود نہیں۔ لہٰذا، برآمدات کے ذریعے پیدا ہونے والے ڈالر پر توجہ مرکوز کرنا بانڈز سے کہیں بہتر آپشن ہے۔
پاکستان کے وہ ادارے جو گورنمنٹ کی ملکیت ہیں جیسے پی آئی اے، پاکستان ریلوے وغیرہ انہیں مکمل پرائیویٹ کرنے کے بجائے جس سے بیروزگاری بڑھنے کا خطرہ ہے انہیں پرائیویٹ اور پبلک پارٹنر شپ کی بنیاد پر چلانا چاہئے جس سے سرمایہ کاری بھی آئے گی اور اچھی مینجمنٹ بھی ملے گی اور یہ ادارے ترقی کریں گے۔ پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں اچھی پلاننگ کے ساتھ ایک سال میں آسانی سے 2 سے 3 بلین ڈالر کا اضافہ کرسکتا ہے یہ اور بھی بہتر ہو سکتا ہے اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم شروع ہو سکے۔ بدقسمتی سے زرعی درآمدات اس وقت 8 ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور ریسرچ سے ہمارے کاشتکار ایک ایکڑ کی پیداوار میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ماہرین کی مدد سے ان کاشتکاروں کی تربیت کی جائے۔ جس سے ہماری زرعی اجناس کی درآمدات میں کمی آئے گی اور 5 بلین ڈالر کے قریب زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔ مہنگی گاڑیاں، کاسمیٹکس، کھانے پینے کی اشیا، گارمنٹس وغیرہ کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے۔ ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا ایسی اشیا جو درآمد کی جاتی ہیں جیسے گاڑیاں ان کی ٹیکنالوجی اپنے ملک میں لے آیا ہے اب تمام پارٹس ملک کے اندر بنتے ہیں جس سے معیشت بہتر ہوئی اور زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔
انٹرپرینیورشپ اور اختراع کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے زیادہ افراد کو معیشت میں لانے کے لیے انٹرپرینیورشپ اور مالی شمولیت بہت ضروری ہے۔ مالی سال 21 کے مقابلے مالی سال 22 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 517 فیصد اضافہ ہوا. توانائی کی کارکردگی کو یقینی بنا کر درآمدی بل میں کم از کم 5 بلین ڈالر، خاص طور پر توانائی کے نرخوں میں کمی کریں۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ پیٹرولیم کی درآمدات میں جون 2022 میں حجم کے لحاظ سے 50 فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان نے گزشتہ سال 24 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کیں۔ گیس کو صرف پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ توانائی کی ایمرجنسی کا اعلان کریں اور توانائی کے تحفظ کے لیے ایسے اقدامات متعارف کرائیں جو پاکستان کی معیشت کو ایک سے زیادہ طریقوں سے بچا سکیں جس میں جارحانہ تحفظ، درآمدی بلوں میں 25فیصد سے زیادہ کمی کرتا ہے اور 6 بلین ڈالر کی بچت کرتا ہے۔ قرضوں کی شرح کو کم کرنے کے لیے بڑے پراجیکٹس جیسے بھاشا ڈیم، داسو ہائیڈرو پاور وغیرہ جن سے سالانہ آمدن اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ سال میں اپنے اخراجات پورے کر لیتے ہیں ان پراجیکٹس کے 49 فیصد شیئرز سرمایہ کاروں کو ڈالر میں دیئے جائیں جس سے سرمایہ کاری آئے گی اور زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔ فوری طور پر ہمیں کوشش کر کے اپنے قرضوں کی ادائیگی کو ری شیڈول کرانا چاہئے تاکہ ہمیں پاؤں پر کھڑا ہونے کا وقت مل جائے گا۔ ہمیں تھرمل کو کم کر کے ہائیڈرو پاور کی انرجی کو بڑھانا ہو گا تاکہ فرنس آئل پر جو ہمارے ڈالر خرچ ہوتے ہیں وہ نچیں گے۔ نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو ہماری آبادی کا 60فیصد ہیں یعنی ہماری آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 30 سال سے کم ہیں ان کو ٹیکنیکل مہارت دینی چاہئے جس کے بعد وہ نوجوان ملک کے اندر اور بیرون ملک سے وطن عزیز کو سرمایہ فراہم کرسکتے ہیں اور بیروز گاری کم ہوگی۔ پاکستان کے وہ ادارے جن قوم اعتماد کرتی ہے جیسے الخدمت فاؤنڈیشن، اخوت فاؤنڈیشن وغیرہ، ان کا ایک بورڈ بنایا جائے جو ملک کے موثر افراد کو اپیل کریں ان مشکل حالات قرض کی ادائیگی کے لئے ضرور ایک بڑا سرمایہ اندرون اور بیرون ملک سے اکٹھا ہو جائے گا۔