سیانوں کی باتیں

ایک سیانے نے کسی دوسرے سیانے سے پوچھا کہ تم جنگل سے گذر رہے ہو اور نہتے ہوایسے میں اگر شیر آ جائے تو کیا کرو گے تو دوسرے سیانے نے جواب دیا کہ پھر میں نے کیا کرنا ہے پھر تو جو کرنا ہے وہ شیر نے ہی کرنا ہے۔جنرل کیانی کی ایک کال پر افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا۔ جنرل کیانی سے بھی اس وقت کوئی سیانا پوچھتا کہ جہاں پناہ ایک بات بتائیں کہ افتخار چوہدری کو بحال کرنے کے بعد آپ کیا کریں گے تو جنرل کیانی کا بھی یہی جواب ہوتا کہ پھر میں نے کیا کرنا ہے جو کرنا ہے وہ افتخار چوہدری نے ہی کرنا ہے اور واقعی پھر جنرل کیانی کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی جو کیا افتخار چوہدری نے ہی کیا۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے سب کو یاد ہو گا کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ دن میں پوری حکومت افتخار چوہدری کی عدالت میں حاضر جناب ہوتی تھی اور شام ہوتے ہی میڈیا کی عدالتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ نوے کی دہائی میں 58ٹو بی کی غیر جمہوری تلوار سے کسی کی برطرف حکومت کو بحال کرنا اور کسی حکومت کی برطرفی پر مہر تصدیق ثبت کرنا ایک الگ بات ہے لیکن آئین کے آرٹیکل 248ٹو کے ہوتے ہوئے کہ ”صدر یا کسی گورنر کے خلاف، اس کے عہدے کی معیاد کے دوران کسی عدالت میں کوئی فوجداری مقدمات نہ قائم کئے جائیں گے اور نہ جاری رکھے جائیں گے“۔ نیا آئین لکھا گیا اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بار بار کہا گیا کہ وہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے خلاف سوئس حکام کو خط لکھیں اور یہ اصرار اتنا بڑھا کہ خط نہ لکھنے کے جرم کی پاداش میں ایک منتخب وزیر اعظم کو پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن سے بالا بالا اعلیٰ عدلیہ نے پانچ سال کے لئے نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا۔ افتخار چوہدری کے دور میں عدالتی فعالیت کی ایسی اعلیٰ مثالیں قائم کی گئیں جو آنے والوں کے لئے مشعل راہ بن گئیں اور جو جمہوریت دشمن روایات قائم کی گئی تھیں آنے والے جن میں خاص طور پر ثاقب نثار شامل ہیں ان روایات کے امین بن کر سامنے آئے بلکہ انھوں نے ان روایات کو مزید آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور افتخار چوہدری نے تو پانچ سال کے لئے منتخب وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیجا تھا لیکن ثاقب نثار دو نہیں بلکہ چار قدم آگے بڑھتے ہوئے ملک کے تین مرتبہ منتخب وزیر اعظم کو ایک ایسے جرم میں کہ جو سرے سے جرم ہی نہیں تھا کہ اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں تا حیات نا اہل قرار دے کرگھر بھیج دیا۔
ڈالر کے ایک دم 19روپے بڑھنے پر معیشت کی چکا چوند ترقی نے ہم ایسے لوئر مڈل کلاسیوں کی آنکھوں کو تو اس حد تک خیرہ کر دیا کہ اب تو آنکھیں
بند کر کے بھی سہانے سپنے نظر نہیں آتے لیکن بات تو سیانوں کی ہو رہی تھی اور سیانوں کی کسی دور میں کمی نہیں رہی اور اب بھی سیانے دوسرے سیانوں سے پوچھتے ہیں کہ جنگل میں نہتے جا رہے ہو اور اگر شیر مل جائے تو کیا کرو گے تو جس سیانے سے پوچھا جاتا ہے وہ اب جواب نہیں دیتا بلکہ مسکرا کر بس اتنا کہتا ہے کہ کیا اب بھی جواب دینے کی ضرورت ہے۔آپ کے سامنے سب زمینی حقائق ہیں کیا یوسف رضا گیلانی کو ہٹانے میں ہمارا کوئی کردار تھا، کیا میمو کیس میں ہمارا کوئی کردار تھا، کیا میاں نواز شریف کو ہٹانے میں ہم کہیں نظر آئے، دھرنوں میں جس سے میاں صاحب کو شکایت ہوئی ہم نے فوری ہٹا دیا، 2018کے الیکشن میں الزام لگانے والے تو پتا نہیں کیا کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن ہمارا کیا کام۔ اب دل پر ہاتھ رکھ کر آپ ہی بتائیں کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد میں جو ناکام ہوا وہ بھی ہم پر الزام رکھ رہا ہے اور جو کامیاب ہوا وہ بھی ہمیں ہی مورد الزام ٹھہرا رہا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ملک میں اگر انتشار ہے سیاسی عدم استحکام ہے تو 63-A کی تشریح کا فیصلہ ہم نے تو نہیں کیا تھا اور نہ ہی دونوں صوبوں میں انتخابات کرانے کا فیصلہ ہم نے کیا ہے کہ جس کے دوسرے دن ہی ڈالر ایک اونچی اڑان کے بعد قریب 19روپے بڑھنے کے بعد 188کا ہو گیا۔ یقین کریں کہ نہ اس کے 19روپے یک دم بڑھنے کی سمجھ آئی اور نہ ہی پھر اس سے اگلے دن جمعہ کو سات روپے کم ہونے کی بات پلے پڑی۔
سیانوں کی باتیں سیانے ہی جانے۔ ہم تو ٹھہرے بیوقوف اسی لئے ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر ہمت نہیں تھی تو زمان پارک میں لگے ٹینٹ ہٹانے کے لئے پولیس کیوں گئی اور گئی تو چند درجن اگر کارکن وہاں موجود تھے تو پسپائی اختیار کرنے کی کیا وجہ بن گئی۔ اعلیٰ عدلیہ جو کر رہی ہے وہ اپنی جگہ پر لیکن جب مقدمات ہی ایسے بنائے جائیں گے کہ احتجاج میں ہنگامہ آرائی، جنگلہ توڑنے پر دہشت گردی کا کیس، الزام لگانے پر ہتک عزت کا کیس، دفعہ144کے کیس، اداروں کے متعلق ٹویٹ کرنے کے کیس تو ایسے کیسز کو اگر عدالتیں پہلی دوسری پیشی پر اڑا رہی ہیں تو اس میں عدالتوں سے زیادہ کیسز بنانے والوں کی عقل کا ماتم کرنا بنتا ہے۔ جہاں تک توشہ خانہ اور ممنوعہ فارن فنڈنگ کیسز کی بات ہے تو اس میں یقینا عدالتوں کا کردار ہے لیکن یہ بھی دیکھیں کہ اس وقت بھی ایک کیس میں عدالت نے عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں اور اس کے بعد اگر ملک کا وزیر داخلہ اور دیگر وزراء ٹی وی پر آ کر کہیں کہ عمران خان کو گرفتار ہونا چاہئے تو پھر یہ سوچنا تو پڑتا ہے کہ یہ کس کو کہہ رہے ہیں۔ فرح گوگی کو انٹر پول کے ذریعے لانے کی باتیں ضرور ہو رہی ہیں انھیں بالکل لائیں لیکن جو ملک میں موجود ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنے سے آپ کو کس نے روک رکھا ہے۔ کیا مالم جبہ کیس بی آر ٹی کیس اور پھر سب سے اہم کہ وہ جو ایک پراپرٹی ٹائیکون کے حوالے سے پچاس ارب کرپشن کا سنتے تھے اس پر خاموشی کیوں ہے اور اگر سال بھر میں اس پر تفتیش ہی مکمل نہیں ہو سکی تو بات کیس دائر کرنے اور پھر گرفتاری تک کب پہنچے گی۔ ایک جانب مہنگائی کا پچاس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے اور حکومت عوام کو یہ بات ٹھیک طریقے سے بتا ہی نہیں سکی کہ اس کا ذمہ دار کون ہے اور بتانا تو ایک الگ بات ہے حکومت تو عمران حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا تھا نا معلوم وجوہ کی بنا پر اسے بھی اب تک عوام کے سامنے پیش نہیں کر سکی تو سیانوں کی باتیں اپنی جگہ پر لیکن لگ ایسے رہا ہے کہ حکومت کے لئے آج بھی حالات 2014کے دھرنوں جیسے ہی ہیں کہ بیشک چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہونے سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے، سرکاری عمارتوں پر حملے کر کے فتح کے جھنڈے لہرائے جائیں لیکن لاڈلے کو کچھ نہیں کہنا اور اگر کچھ کہا تو پھر ہم نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے شیر نے ہی کرنا ہے اور ایسی صورت حال میں اس وقت کچھ ہو سکا تھا اور تسلی رکھیں ہاتھ بندھی حکومت سے اب بھی کچھ نہ ہو پائے گا۔