سپیکر پنجاب اسمبلی سے امید افزا ملاقات

اقوام عالم پر عروج و زوال آتے رہتے ہیں ۔ عروج کے وقت تکبر اور غفلت سے محفوظ رہا جائے اور زوال کے وقت حوصلہ اور ہمت بحال رکھی جائے تو ہر طرح کے حالات پر گرفت رکھی جا سکتی ہے ۔ عمران خان اور تحریک انصاف اپنے دور حکومت میں غفلت سے تو نہ بچ سکے اور ایسے لوگوں پر بھروسہ کرکے بیٹھ گئے جو خود خدا پر بھی بھروسہ نہیں رکھتے تھے ۔ البتہ پچھلے دس گیارہ مہینوں میں جتنے سیاسی تجربات سے عمران خان ، ان کے ساتھی اور پاکستانی عوام گزرے ہیں یہ تجربہ جان پر کھیل کر ہی حاصل ہو سکتا تھا جو ان کو حاصل ہوا ہے ۔ ان سب نے جس صبر اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی تاریخ رقم کر گیا ہے ۔

گزشتہ روز سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان سے سپیکر ہاءوس میں ملاقات ہوئی ۔ پچھلے دنوں جب پنجاب میں اعتماد کا ووٹ لینے کے دینے پڑے ہوئے تھے سب سے بہترین اور مدلل موَقف سبطین خان کا سامنے آیا تھا ۔ پی ٹی آئی میں زیادہ تعداد ایسے نئے لیڈرز کی ہے جو انتہائی ایماندار اور پرجوش ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ سیاسی رکھ رکھاءو سے محروم ہیں ۔ ان میں ابھی عوامی رویے اور وضعداری کی بہت کمی ہے ۔ زیادہ تر تو اس مستی سے ہی باہر نہیں نکلتے کہ ہم عمران خان کے اردگرد رہتے ہیں اور رہی سہی کسر وزیر شزیر بننے اور میڈیا پہ آنے والوں نے پوری کردی ہے ۔ حالانکہ میڈیا پہ آنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ میڈیا پہ کب ، کیوں اور کیسے آنا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب شہباز گِل پنجاب حکومت کا ترجمان تھا تو میں نے میڈیا پہ ان کے بے مہار آنے اور ان کے کمزور کنڈکٹ پر ایک وی لاگ کیا تھا تو دو گھنٹے بعد ان کو پنجاب حکومت کے ترجمان کی سیٹ سے ہٹا دیا گیا ۔ میرے کچھ دوست صحافیوں کو غلط فہمی ہوئی کہ شاید میرا کہا سْن لیا گیا ہے ۔ حالانکہ یہ بات مجھ پر روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پچھلے ایک سال سے جو کچھ تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے اتنی کرا لینے کے بعد شاید اب کہیں جا کے یہ کبھی کبھی کچھ کچھ سْن لینے کی طرف آئے ہیں ورنہ تو یہ یا تو عمران خان کی جی حضوری سے ہی باہر نہیں آتے یا پھر جیسے ہی عوام میں آتے ہیں تو خود کو عمران خان ہی محسوس کرنے لگتے ہیں ۔

یہ ساری تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ تحریک انصاف کے سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان ان جیسے بالکل نہیں ۔ وہ ایک پختہ اور میچور سیاستدان ہیں ۔ اعلیٰ ظرفی ان کا خاندانی خاصہ ہے ۔ سیاسی دانائی اور آداب ان کی خوبصورت شخصیت کا حصہ ہیں ۔ ان سے ملنے کا میرا مقصد بھی یہی تھا کہ میں تحریک انصاف کے مورال کے بارے میں کسی

سنجیدہ رہنما سے ملوں اور احوال جاننے کے لیے کسی ایسے ہی لیڈر کے پاس جاءوں جہاں سے مجھے عمران خان کے پیچھے چھپے ہوئے کسی لیڈر سے کچھ جاننے کی بجائے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوئے لیڈر کے خیالات کا پتہ چلے ۔

میرے سوال کے جواب کا آغاز کرتے ہوئے سبطین خان نے بتایا کہ ہمارا مورال ہائی ہے ۔ بلکہ پہلے سے زیادہ بلند ہے جس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ہماری مخالف سیاسی پارٹیاں عوام کے سامنے جس شدت سے اور جیسے جیسے بے نقاب ہوئی ہیں اور لمحہ لمحہ ہو رہی ہیں ہمارے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت جن دعووں کی بنیاد پر مسلط کی گئی تھی ان میں سے کسی ایک پر بھی پوری نہیں اتری ۔ ہماری حکومت نے معیشت کو اس کے ٹریک پر چڑھا دیا تھا جو اْس وقت بہت سے لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا لیکن پچھلے دس مہینوں میں ٹولے کی حکومت نے پاکستان کی اقتصادیات کو منہ کے بل گرا دیا ہے

اور یہ بات اب ہ میں کسی کو سمجھانے کی بھی ضرورت نہیں پڑ رہی بلکہ پاکستان کے عوام براہ راست اس بربادی کی زد میں آ جانے کی وجہ سے نہ صرف خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ بیچارے بھگت بھی رہے ہیں ۔ پی ڈی ایم کی نہ تو کوئی پالیسی کام آئی ہے نہ ایڈمنسٹریشن ۔ بلکہ عوام پر معاشی اور سیاسی تشدد کرنے کی وجہ سے یہ اپنے حلقوں میں جانے کے قابل بھی نہیں رہے ۔ ان کو تو یہ تک احساس نہیں کہ یہ انتخابات کو جتنا التواء میں ڈالتے جائیں گے انکی سیاسی قبروں اور ان کے درمیان فاصلہ کم ہوتا جائے گا ۔ آج پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ ان کے نزدیک آئین اور قانون کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ اہمیت ۔ یہ صرف اور صرف اقتدار کے بھوکے ہیں ۔ ان کے نزیک ملک تباہ ہوتا ہو تو ہو ، عوام برباد ہوتے ہوں تو ہوں ان کو رائی برابر پرواہ نہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ سیاسی جد و جہد سے مراد ہی یہی ہے کہ گرفتاریاں سہی جائیں ، دھمکیاں سْنی جائیں اور تشدد برداشت کیا جائے ۔ فاشسٹ حکومتوں کی تاریخ سے موَرخین کے رجسٹر بھرے پڑے ہیں کہ انہیں سب سے بڑا خوف عوامی طاقت کا ہوتا ہے جسے کچلنے کے لیے وہ ظلم کی انتہا کرتی ہیں اور ہر ممکن ستم سے عوامی طاقت کو پسپا کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ عوامی طاقت کے آگے بند باندھنا ممکن نہیں ہوتا ایک نہ ایک دن ایسا آ ہی جاتا ہے جب یہ حکومتیں خود عوام کی سونامی کے پاءوں تلے آ کے روندی جاتی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ مجھ پر بنایا گیا جھوٹا نیب کیس اب پھر دوبارہ قبر سے نکالا جا رہا ہے ۔ ان کا خیال ہے سبطین خان ان ظالمانہ ہتھکنڈوں سے خوفزدہ ہو کر عمران خان کا ساتھ چھوڑ دے گا یا اپنی پارٹی سے دست بردار ہوجائے گا ۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے ۔ میں مرتے دم تک اپنی پارٹی ، عمران خان اور پاکستان کی مظلوم عوام کے ساتھ کھڑا رہوں گا ۔ یہ ایک طرف لالچ دیتے ہیں دوسری طرف دھمکی ۔ ان کو یہ نہیں پتہ کہ میرے رب نے مجھے ہر طرح کے لالچ سے محفوظ رکھا ہے اور ڈرتے ہم صرف اللہ سے ہیں ۔ ہماری آنکھوں کے سامنے سے واقعہ کربلا کبھی ہٹا نہیں ۔ ہمارے لیے سب سے بڑی مثال وہی ہے جب امام نے ثابت قدمی ، ہمت ، استقلال اور ایثار کی وہ قربانی پیش کی جس کی مثال نہیں ملتی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کربلا والوں کی جوتیوں کی خاک کے برابر بھی نہیں لیکن ہر مصیبت میں انہیں کی طرف دیکھتے ہیں اور نجات کے لیے انہیں کو وسیلہ بناتے ہیں اور ان کی تقلید کی کوشش کرتے ہیں ۔ سبطین خان شاید اب مجھے جواب نہیں دے رہے تھے بلکہ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے دل سے ہمکلام ہوں ۔ ان کی آنکھوں میں نمی اور چہرے سے بلا کا حوصلہ جھلک رہا تھا ۔