ان دنوں میں پوری کوشش کر رہا ہوں اپنے قلم کو سیاست کی آلودگی سے دْور رکھوں کہ”اور بھی غم ہیں زمانے میں ”سیاست“ کے سوا“۔۔ مگر یہ گند جب حد سے بڑھ جاتا ہے کچھ نہ کچھ اس پر لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کرنا پڑ جاتا ہے، پاکستان کی جو حالت پاکستان کی بدبخت”بدمعاشیہ“ نے کر دی ہے اْس پر دل خون کے آنسو روتا ہے، قومی اداروں میں تقسیم خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے، اداروں کا ٹکراؤ اس مْلک کو کہاں سے کہاں لے گیا؟ کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہے، مجھے یہ کوئی بیرونی ایجنڈہ لگتا ہے جس کے تحت پاکستان کو مکمل طور پر برباد کرنے کے لئے کچھ ”اندرونی قوتوں“ کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے، چوروں اور چوکیداروں کے گٹھ جوڑ نے پاکستان کو ایسے بدترین مقام پر لا کر کھڑے کر دیا ہے جہاں سے واپسی اب مْشکل نہیں ناممکن دیکھائی دیتی ہے، اتنی ابتر حالت اس مْلک کی شاید ہی اس سے پہلے کبھی ہم نے دیکھی تھی، کوئی ایک ادارہ کوئی ایک شخص ایسا نظر نہیں آتا جس کے بارے میں پورے وثوق سے ہم یہ کہہ سکیں وہ پاکستان سے مخلص ہے، اور اْس کی سمت بالکل درست ہے، ذاتی اغراض اور ذاتی مقاصد کے حصول کی ایک دوڑ لگی ہے جس میں ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں پاکستان کو کْچلتا جا رہا ہے، ان حالات میں ہمیں کسی بیرونی دْشمن کی ضرورت ہی نہیں ہے، ہماری ”بدمعاشیہ“ اکثر یہ کہتی ہے”ہم کسی دْشمن کو اپنے مْلک کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے“، بندہ پوچھے آپ کی اپنی میلی آنکھوں کے ہوتے ہوئے کسی اور کی میلی آنکھوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟، قومی ادارے جس طرح ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں پاکستان اب ایک ایسی ”مچھلی منڈی“ کی طرح نظر آتا ہے جس پر”مگر مچھوں“ کا راج ہے، آدھا پاکستان ان مگرمچھوں کا نوالہ بن گیا اور آدھا بننے کے قریب ہے، اب تو اللہ نے بھی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا ہے، کوئی دعا رنگ نہیں لا رہی، جس معاشرے جس مْلک میں ظلم کی اخیر ہو جائے جہاں عدل و انصاف کا ہر دروازہ بند دکھائی دے، وہ مْلک اور معاشرے نہیں بچتے، اس مْلک میں روزانہ ظلم کی ایسی ایسی خوفناک داستان سْننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں کہ قدم قدم پر احسان دانش مرحوم کا یہ شعر یاد آتا ہے
کچھ ایسے مناظر بھی گْزرتے ہیں نظر سے
جب سوچنا پڑتا ہے خدا ہے کہ نہیں ہے
ہمارے ”زمینی خداؤں“ نے اْس آسمانی خدا کو مکمل طور پر فراموش کر دیا ہوا ہے جس کی لاٹھی بے آواز ہے، اس مْلک میں کسی ادارے پر کوئی ایک اْنگلی اْٹھے وہ آسمان سر پر اْٹھا لیتا ہے، دوسری طرف بلوچستان کے ایک وزیر پر ایک خاندان کو یرغمال بنانے اور اْس کے بچے مار دینے کا الزام لگتا ہے کسی کے کان پر جْوں تک نہیں رینگتی، حتی کہ اْس کی وزارت بھی سلامت رہتی ہے، یہاں اس ظلم کا حساب بھی شاید نہیں ہوگا مگر اس مْلک کے وڈیرے اور ظالم سردار اپنی سرداریوں سے جب محروم ہو کر مرحوم ہوں گے، جب کیڑوں مکوڑوں کا وہ رزق بنیں گے، جب سانپ اور بچھوؤں کی وہ لپیٹ میں ہوں گے تو کوئی اْن کی آہ و زاری سْننے والا نہیں ہوگا، اللہ کی پکڑ اور موت کی فکر سے غافل ظالمو کو پھر کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔۔ میں یہ توقع کر رہا تھا ہمارے محترم چیف جسٹس آف پاکستان بلوچستان کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہوئے ”سانحہ بار کھان“ کا از خود نوٹس لیں گے، اور اس کے اصل مجرمان کو اپنی گرفت میں لا کر اللہ کے ہاں سْرخرو ہوں گے، میری اْن سے گزارش ہے الیکشن کے حوالے سے اپنے ازخود نوٹس سے اْنہیں تھوڑی فرصت مل جائے ”سانحہ بار کھان“ کا از خود نوٹس لے کر عدلیہ کے وقار اور معیار کی بحالی کا کوئی عملی ثبوت پیش کریں، ہمارے حکمران اور ہمارے اصلی حکمران اس معاملے میں نظر آتا ہوا انصاف اگر نہیں فراہم کریں گے، ظالموں کو ایک خوفناک انجام تک اگر وہ نہیں پہنچائیں گے، اگر وہ روایتی مصلحتوں سے کام لیں گے، اْن کی کارروائیاں اگر محض پکڑ دھکڑ تک محدود رہیں گی، یا صرف سوشل میڈیا کے دباؤ سے بچنے کے لئے وہ نمائشی اقدامات کریں گے میرا ایمان ہے ایک عبرتناک انجام سے وہ بھی نہیں بچ پائیں گے، اور اگر مظلوم خاندان کو صاف شفاف انصاف مل گیا میرا ایمان ہے تیزی سے بْجھتا ہوا پاکستان روشنیوں اور اْمیدوں کی طرف واپس لْوٹ آئے گا۔۔ خود کو ہر معاملے میں مظلوموں کا ہمدرد ثابت کرنے کی ناکام یا کامیاب کوشش کرنے والے وزیراعظم شہباز شریف کے لئے بھی یہ ایک ”ٹیسٹ کیس“ ہے، اْنہیں چاہئے تمام سیاسی معاملات و اغراض سے بالاتر ہو کر پہلی فرصت میں مظلوم خاندان کے پاس جائیں، اْن کا دْکھ سْنیں اور اْس کے ازالے کے لئے تاریخی اقدامات کریں، یہی گزارش میری اپنے آرمی چیف حافظ عاصم منیر سے بھی ہے، اْن کے سینے میں قرآن ہے اس قرآن میں کئی نشانیاں ہیں کہ جنہوں نے طاقت اور اختیار رکھنے کے باوجود مظلوم کا کْھل کر ساتھ نہ دیا کس طرح وہ نیست و نابود ہو گئے، مظلوم خاندان کے پاس چلے جانے سے اْس خاندان کے مقتول بچے تو ظاہر ہے واپس نہیں ملیں گے مگر اْنہیں تحفظ کا ایک احساس ضرور مل جائے گا اور یہ اْمید بھی بندھ جائے گی اْنہیں ضرور انصاف ملے گا۔۔ اس طرح کا ظلم کسی عام بندے نے کیا ہوتا ہمارے حکمرانوں نے عوام میں اپنی بلے بلے کروانے کے لئے اب تک کسی پولیس مقابلے میں اْسے پار کروا دیا ہوتا۔۔ یاد رکھیں یہ نظام اْس وقت تک درست نہیں ہوگا، ظلم کی یہ کالی آندھیاں اْس وقت تک نہیں رْکیں گی، خون کی یہ ہولیاں اْس وقت تک جاری رہیں گی جب تک انصاف کا یکساں نظام رائج نہیں ہوگا۔۔ افسوس ہمارا عدالتی نظام اور دیگر سارے نظام اس وقت اور ہی طرح کے ”کھیل تماشوں“ میں مصروف ہیں، کاش ان کھیل تماشوں سے اْنہیں کچھ فرصت مل جائے۔۔ ”ظالمو جواب دو، خون کا حساب دو“ کے نعرے یہاں بہت بلند ہوتے ہیں خون کا حساب لینے والے مگر لمبی تان کے سوئے پڑے ہیں بلکہ موئے پڑے ہیں۔