کبھی درد کو مجسم صورت میں دیکھا ہے؟

کیا آپ نے ”درد“ کو کبھی مجسم صورت میں دیکھا ہے؟ کیا آپ نے جاگتی آنکھوں سے کبھی درد کو محسوس کیا ہے اور کیا آپ نے کبھی با ہوش و حواس درد کی اذیت کو برداشت کیا ہے؟ اگر آپ اس تجربے سے نہیں گزرے تو آج میں درد کی یہ کیفیات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے پچھلے دنوں ایک میڈیکل کے سلسلے میں لاہور کے ایک نامور سرکاری ہسپتال میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ ہسپتال بانی پاکستان کے نام سے بنا ہے اور اس میں نہ صرف لاہور بلکہ سیکڑوں کلو میٹر دور سے لوگ علاج کے لیے آتے ہیں۔ لاہور سے باہر سے آنے والے لوگ رات کو ہی چل پڑتے ہیں کہ صبح نکلے تو باری نہیں آئے گی، ڈاکٹر اٹھ جائیں گے، ٹوکن نہیں ملے گا اور نہ جانے کیا کیا اندیشے انہیں رات کے اندھیرے میں ہی گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میں ایڈیشنل ایم ایس کے آفس سے ہوتا ہوا لیب میں چلا گیا، لیب کے تمام کاو¿نٹر بند تھے، میں اندر داخل ہوا، عملے کے کچھ افراد خوش گپیوں میں مصروف تھے، میں نے اپنا مدعا بیان کیا، ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ مجھے بتایا گیا لیب کی مشینیں ٹھیک نہیں ہیں اور پچھلے پندرہ دنوں سے ٹیسٹ نہیں ہو رہے۔ میں نے میڈیکل کا لیٹر اور ایم ایس کی ایڈوائس سامنے رکھی تو لہجہ نرم ہو گیا، مجھے کہا گیا یہاں بیٹھ جائیں، میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ خوش گپیاں ختم ہوئیں تو تمام سٹاف پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ٹھونس کر باہر نکل گیا، صرف ایک صاحب لیب میں موجود تھے اور انہوں نے مجھے انتظار کا حکم دے دیا۔ میں لیب کے اندر بیٹھ گیا، باہر لوگوں کا رش تھا، تھوڑی دیر بعد دروزہ کھلا، ایک نوجوان اندر آیا اور چند پرچیاں میرے سامنے رکھ کر پوچھنے لگا یہ ٹیسٹ یہیں سے ہوں گے؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو وہ لیب اٹینڈنٹ کی طرف چلا گیا مگر اسے بتایا گیا کہ لیب کی مشینیں خراب ہیں اور ٹیسٹ نہیں ہو رہے۔ وہ نوجوان بے بسی سے باہر نکل گیا۔ کچھ دیر توقف کے بعد پھر دروازہ کھلا، ایک نوجوان بوڑھی عورت کا ہاتھ پکڑے اندر داخل ہوا، لیب اٹینڈنٹ کو پرچیاں دکھائی کہ یہ میری والدہ کے ٹیسٹ ہیں، یہ یہیں سے ہوں گے؟ اٹینڈنٹ نے لاپروائی سے الفاظ دہرا دیے مشینیں خراب ہیں، پچھلے پندرہ دنوں سے ٹیسٹ نہیں ہو رہے۔ میں نے نوجوان کے چہرے کی طرف دیکھا، بے بسی اور مایوسی کی گہری لکیریں اس کے چہرے پر پھیل گئیں، وہ ماں جس سے وہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبت کرتا تھا اور وہ اس کے سہارے کھڑی تھی آج وہ اس ماں کے ٹیسٹ کرانے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ میں نے محسوس کیا اس کے پاو¿ں بوجھل ہو چکے تھے، وہ واپسی کے لیے ایک قدم نہ اٹھا سکا۔ وہ کچھ دیر وہاں رکا رہا، اس نے ماں کی پیشانی پر بوسہ دیا اور بولا ”ماں آپ پریشان نہ ہوں میں فلاں دوست سے پیسے منگواتا ہوں، میں آپ کے ٹیسٹ ضرور کراو¿ں گا“۔ میں نے پہلی بار درد کو اتنی شدت سے محسوس کیا تھا، میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ نوجوان نے ماں کا ہاتھ پکڑا اور لیب سے باہر نکل گیا۔
کچھ دیر لیب میں پھر خاموشی چھا گئی، باہر لوگوں کا رش تھا اور انہیں معلوم تھا کہ لیب میں ٹیسٹ نہیں ہو رہے لیکن پھر بھی لوگ اپنے پیاروں کی بیماری سے بے بس ہو کر اور امید کے سہارے اندر آنے کی کوشش کر رہے تھے، ایک بار پھر دروازہ کھلا، ایک باپردہ دو شیزہ اپنے بوڑھے والد کا ہاتھ تھامے اندر داخل ہوئی، اس نے ملتجایانہ انداز میں اٹینڈنٹ سے پوچھا ”بھائی میرے ابو کے ٹیسٹ یہیں ہوں گے؟“
اٹینڈنٹ نے جو اب تک بے حس ہو چکا تھا سرد مہری سے وہی الفاظ دہرا دیے کہ مشینیں خراب ہیں ٹیسٹ نہیں ہوں گے۔ دوشیزہ نے والد کے زرد چہرے پر نظر دوڑائی، ایک نظر اٹینڈنٹ کی دیکھا اور انتہائی بے بسی سے درخواست کی ”بھائی میرے ابو کے ہیپاٹائٹس کے ٹیسٹ ہیں اور ہم باہر سے افورڈ نہیں کر سکتے“ میں نے محسوس کیا کہ یہ الفاظ کہتے ہوئے زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ لیکن اٹینڈنٹ کے پاس ایک ہی جواب تھا۔ میں نے دیکھا چھوٹے چھوٹے دو موتی دوشیزہ کی آنکھوں سے نکلے اور نقاب کے نیچے کہیں گم ہو گئے۔ والد منہ میں کچھ بڑبڑایا، لڑکی نے باپ کا ہاتھ تھاما اور بوجھل قدموں سے باہر کی طرف چل دیے۔ یہ سوچ کر کہ اگر یہ لڑکا ہوتی تو کسی دوست سے ادھار لے لیتی مگر یہ تو کسی سے ادھار بھی نہیں لے سکتی، میں ضبط نہ کر سکا۔ لیب سے باہر نکلنے کا فاصلہ چند قدم پر مشتمل تھا مگر باپ بیٹی کو یہ فاصلہ طے کرتے ہوئے پورے دو منٹ لگ گئے۔
اٹینڈنٹ نے پرنٹر آن کیا۔ اسی دوران ایک میاں بیوی تین سالہ بچے کو گود میں اٹھائے اندر داخل ہوئے۔ حسب معمول انہوں نے بھی یہی سوال کیا ”بھائی ہمارے بیٹے کے ٹیسٹ یہیں ہوں گے“ اٹینڈنٹ کا جواب کیا تھا وہ آپ کو اندازہ ہو چکا ہے۔ میاں بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا جیسے اپنی بے بسی کا ماتم کر رہے ہوں۔ میاں اب بیوی کو تسلی دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ کچھ نہیں ہوتا ہم بغیر ٹیسٹ کے ہی دوا لے لیتے ہیں۔ بیوی جو ایک ماں تھی وہ بضد تھی کہ میں اپنے بیٹے کے ٹیسٹ کرائے بغیر دوا نہیں لوں گی۔ اس وقت اس ماں اور باپ کی کیفیت کیا تھی اس کوصرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو ماں اور باپ کے مرتبے پر فائز ہیں۔ میں نے محسوس کیا باپ ہزاروں روپے کے ٹیسٹ کرانے کی سکت نہیں رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا بغیر ٹیسٹ کرائے ٹھیک ہو جائے جبکہ ماں بضد تھی کہ جب تک ٹیسٹ نہیںہوں گے میں چین سے نہیں بیٹھوں گی۔ دونوں ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیب اٹینڈنٹ نے بے رخی سے کہا آپ باہر چلے جائیں اور یوں وہ اپنے بیٹے کو گود میں اٹھا کر باہر چلے گئے۔ میں آدھا گھنٹہ لیب میں رہا اور اس آدھے گھنٹے میں، میں نے پہلی بار درد کو اتنی نزدیک سے محسوس کیا، میں نے بیٹے اور ماں کی صورت میں پہلی بار درد کو مجسم صورت میں دیکھا۔ میں نے دوشیزہ اور باپ کے روپ میں درد کو پہلی بار اتنی شدت سے محسوس کیا۔ میں جب تک لیب میں رہا آنکھوں کے پانی سے دل کو جلانے والی آ گ کو بجھاتا رہا۔ مجھے لیب میں بیٹھ کر اندازہ ہوا کہ وہ ماں جو ہمیں جنم دیتی ہے اور اپنے منہ کا لقمہ ہمیں کھلاتی ہے جب بڑھاپے میں ہم اس کا علاج نہ کرا سکیں تو انسان پر کیا گزرتی ہے۔ مجھے پہلی بار اندازہ ہوا ایک دوشیزہ جو اپنے والد کے آنگن کی بہار ہوتی ہے جب وہ اپنے بوڑھے والد کے ٹیسٹ نہ کرا سکے تو اس کے آنسوو¿ں میں کتنی تپش اور کتنا درد ہوتا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا وہ والد جو ساری زندگی سائبان بن کر ہمیں سایہ مہیا کرتا ہے آخر عمر میں اس کا مناسب علاج نہ کرا سکنے کی تکلیف کتنی شدید ہوتی ہے۔ مجھے پہلی بار اندازہ ہوا اولاد کے دکھ کیا ہوتے ہیں اور اولاد کا مناسب علاج نہ ہونے سے گھر میں اداسی اور تکلیف کیسے ڈیرے ڈالتی ہیں۔
یہ درد کی وہ شکلیں اور صورتیں تھی جو مجھے ہسپتال میں دیکھنے کو ملیں، حقیقت یہ ہے کہ درد کی یہ کیفیات سماج میں ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ آپ کو درد کی یہ کیفیات کبیروالا کے گلے کوچے میں بھی ملیں گی جہاں آٹھ بچیوں کا باپ آٹے کی قطار میں کھڑا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا۔ جہاں بچیاں روٹی کے انتظار میں تھیں مگر انہیں والد کی میت ملی۔ درد کی یہ صورتیں قصور میں بھی بکھری پڑی ہیں جہاں ماں نے بچوں کو زہر دے کر انہیں ہمیشہ کے لیے سلا دیا۔ درد کی یہ کیفیات پتوکی میں بھی بکھری پڑی ہیں جہاں باپ نے بچوں کو نہر میں پھینک دیا تھا۔ درد کی یہ کیفیات سندھ کے سانگھڑ میں بھی بکھری پڑی ہیں جہاں میاں بیوی نے ساری رات بھوک سے تنگ آ کر کے صبح سویرے بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا دی تھی۔ اب یہاں ہر طرف درد ہی درد ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ شاید اس کا ذمہ دار بھی غریب خود ہے کیونکہ یہاں ہر ایک کا لیڈر معصوم، مسیحا اور دیوتا ہے۔