عوام پھر قربانی کے لئے تیار ہو جائے

آئی ایم ایف کا وفد کسی بھی قسم کے اسٹاف لیول معاہدے کے بغیر واپس چلا گیا لیکن جاتے جاتے پاکستان کو ڈومور کہہ کر گیا ہے البتہ حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر اتفاق ہوگیا ہے کچھ دنوں میں آئی ایم ایف سٹاف لیول معاہدہ ہو جائے گا اور ایم ایس کی بورڈ نے منظوری کے بعد 1.2ارب ڈالر کی رقم پاکستان کو فراہم کرنی ہے کچھ روز پہلے مذاکرات کے آخری روز وزیراعظم کی جانب سے معاشی اقدامات کرنے کی یقین دہانی کا خیرمقدم کرتے ہوئے آئی ایم ایف نے اپنے بیان میں کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں پالیسی امور پر اہم پیش رفت ہوئی ہے جس میں ترجیحی بنیاد پر ان ٹارگٹد سبسڈیز کو کم کرتے ہوئے مستقل آمدنی کے ذرائع پیدا کرکے فسکل پوزیشن کو بہتر بنانا شامل ہے اور سیلاب متاثرین اور غریب طبقے کا سماجی تحفظ بڑھانا فارن کرنسی کی قلت کو مرحلہ وار ختم کر کے ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ پر چھوڑنے اور گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے اقدامات شامل ہیں اعلامیہ کے مطابق ان پالیسی اقدامات پر بروقت اور فیصلہ کن عمل درآمد اور دوست ممالک کی جانب سے مالی امداد کی یقین دہانی پاکستان کی میکرو اکنامک استحکام اور دیرپا ترقی کے لئے اہم ہیں ان پالیسیز کے نفاذ کے لئے آنے والے دنوں میں ورچوئل مذاکرات جاری رہیں گے یعنی پاکستان کو آئی ایم ایف کی قسط ملنے سے پہلے اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے پہلے پہلے رواں مالی سال یہ سارے اقدامات کرنے ہونگے حکومت نے یہاں پر آئی ایم ایف کی ساری جائز و ناجائز شرائط مانتے ہوئے منی بجٹ لانے کا عندیہ بھی دیا ہے جب وزیر خزانہ نے اس حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے ڈرافٹ ہمیں دیا ہے اور جلد ہی ورچوئل میٹنگ ہوگی اور پھر آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری مل جائے گی اور پاکستان کو ایک اشاریہ دو ارب ڈالر کی قسط بھی مل جائے گیاگر اس سارے معاملے کو دیکھیں تو جب آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی امید نظر آئی تو اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ ہوا پھر اس کا الٹ ہوا اور اسٹاک مارکیٹ جمعہ کے روز 743 پوائنٹس کے ساتھ 41ہزار 723 پوائنٹس پر بند ہوئی جبکہ ڈالر بھی کم ہوتا دکھائی دیا سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تین ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں اسی وجہ سے اب حکومت کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ضروری ہوگئی ہے اور اس وقت حکومت کی مجبوری بن گئی ہے آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط کے بغیر کچھ نوک جھونک کے تسلیم کرنا مگر اس کے اثرات بہت ہی برے مہنگائی کی صورت میں نکلیں گے مگر یہاں پر جو سب سے زیادہ اہم ہے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہوتے رہے مگر اسٹاف لیول ایگریمنٹ نہیں ہوا حکومت اس چیز کا دعوی کر گئی ہے کہ سب ٹھیک ہے اگر درحقیقت دیکھیں تو اس وقت حکومت بھی بہت ہی پریشان ہیں سوال یہ ہے یہ سب معاملات طے پا جانے کے بعد کیا پاکستان کو ریلیف ملے گا کیونکہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ پاکستان کو زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کے سبب رواں سال جون میں ختم ہونے والے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرض پروگرام کے فوراً بعد ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بننا پڑے گا۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ جب یہ پروگرام جون میں ختم ہو گا تو ہمارے پاس ممکنہ طور پر 10ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر نہیں ہوں گے، اس کے نتیجے میں ہمیں قرضوں کے لیے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے رابطہ کرنا ہو گا اور ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بننا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں تقریباً 20ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کے سبب ہمیں یکے بعد دیگرے دو آئی ایم ایف پروگراموں کا حصہ بننا پڑے گا ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو آخری حل قرار دیتا ہوں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کو آئی سی یو میں داخل کرا دیا جائے، آپ اگر آئی سی یو میں جانے سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کو صحت مند طرز زندگی اپنانا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب ہم اپنی استطاعت کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے عقل مندانہ معاشی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا شروع ہوں گے تو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بچ سکتے ہیں۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ اگر ہم اسی طرح زندگی گزارتے رہیں گے تو پھر آئی ایم ایف ہی آخری حل ہے اور ہمیں اس کے پاس جاتے رہنا ہو گا۔
یہ سارے معاملات ایک طرف ملک کے معاشی حالات کو وینٹی لیٹر پر رکھ دیا ہے وہیں پہ الیکشن کا رونا بھی آج چل رہا ہے گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ کے آرڈر آئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور کے پی کے کے الیکشن کی 90 دن میں کرائے جائیں جبکہ دیکھا جائے تو پی ڈی ایم ایسا نہیں چاہ رہی تھی نہ کہ وہ عام انتخابات کے حق میں تھی نہ ہی صوبائی کے مگر یہ میں پی ٹی آئی کی جیت سمجھتی ہو کیونکہ زیادہ شور الیکشن کا پی ٹی آئی میں نہیں مچایا ہوا تھا مگر ان سارے معاملات میں سب سیاست دان اپنی جنگ میں مگن ہیں عوام کا کسی کو کوئی خیال نہیں ایسے لگ رہا ہے کہ یہ پاکستانی عوام کو ان کا پاکستانی شہری ہونے کا جرم قرار دے رہے ہیں ہیر اگر یہ جرم ہی قرار دے رہی ہیں پاکستانی شہریت رکھنے کا تو ان کے لیے یہی کہنا چاہوں گی
ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت
یہ جرم سدا میرے حسابوں میں رہے گا