ایک مختلف آئی جی پنجاب

(دوسری و آخری قسط)
عامر ذالفقار خان کی بطور آئی جی پنجاب پوسٹنگ پر میں نے اپنے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا ”میں ذرا اور طرح کے عامر ذوالفقار کو جانتا ہوں“۔۔ یہ عامر ذوالفقار خان پولیس افسر ہونے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، اس کالم کی اشاعت پر مجھے عدلیہ کی ایک معتبر شخصیت محمد صہیب رْومی کا واٹس ایپ پر میسج آیا، لکھتے ہیں ”عامر ذوالفقار خان بہت سے افسرانہ اوصاف کے ساتھ ساتھ بیشمار انسانی خوبیوں کا مالک ہے، ہر طرح کے کمپلیکس سے آزاد، صاف گو، راست باز، منافقتوں سے کوسوں دْور ایک ہمدرد اور ماتحت پرور افسر جو اپنے جونئیرز کی عزت آبرو کا ہمیشہ خیال رکھتا ہے، جونئیرز کو اگر سمجھانا ہو بہت اچھے الفاظ کا چْناؤ کرتا ہے، وہ نہ صرف انتہائی مضبوط قوت فیصلہ کا حامل افسرہے بلکہ اپنے فیصلوں پر ڈٹ جانے کی خصوصیت بھی رکھتا ہے، وہ آرٹ اور موسیقی کو بھی سمجھتا ہے، ایسا شخص کبھی کسی کے ساتھ ظلم نہیں کرتا نہ محض عہدوں کے حصول کے لئے اْصولوں پر سمجھوتہ کرتا ہے، وہ ایک انتہائی پروفیشنل پولیس افسر ہے، میں آپ کے کالم کے ایک ایک حرف سے اتفاق کرتا ہوں اور اْمید کرتا ہوں وہ ایک مختلف آئی جی پنجاب ثابت ہوگا“۔۔ جناب صہیب رْومی کی یہ تحریر پڑھنے کے بعد میں یہ سوچ رہا تھا عامر ذوالفقار خان پر کالم تو رْومی صاحب نے لکھ دیا میں اب کیا لکھوں گا؟ میں صہیب رْومی صاحب کی ساری باتوں سے اتفاق کرتا ہوں، خصوصاًاس بات سے کہ وہ خود کو ایک مختلف آئی جی ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔۔ کوشش تو اْن سے پہلے بھی بہت سے پولیس افسران نے اپنی بساط کے مطابق کی تھی، اپنے حصے کا چراغ اْنہوں نے بھی جلایا تھا مگر اس مْلک کے اصلی و سیاسی حکمران یہ چراغ جلتا ہوا دیکھ ہی نہیں سکتے، وہ پولیس کو ایک ایسے ادارے کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جو صرف اْن کے ذاتی و مالی مفادات کے تحفظ میں لگا رہے، ایک صاحب سے اْمید تھی وہ پولیس کو سیاست سے پاک کر دے گا اْس کے دور میں پنجاب میں پولیس کا جو ستیا ناس ہونا باقی رہ گیا تھا وہ سوا ستیا ناس ہوگیا۔۔ عامر ذوالفقار خان کو اب ایک ایسا توازن قائم کرنا پڑے گا جو ایک طرف پنجاب پولیس کا کھویا ہوا وقار بحال کرے دوسری طرف سیاسی و اصلی حکمرانوں کو یہ تمیز سیکھائے پولیس اْن کے گھر کا غلام یا لونڈی نہیں ہوتی، خصوصآ اس حوالے سے توازن قائم کرنے کی تو اشد ضرورت ہے پولیس کو سیاسی حکمرانوں کے پروٹوکول کی ذمہ داریوں سے پاک کیا جائے، پولیس کے اکثر چھوٹے بڑے افسران سارا دن سڑکوں پر سیاسی و دیگر حکمرانوں کی”پروٹوکول ڈیوٹیوں“ میں لگے رہتے ہیں اور سائل بے چارے اْن کے دفتروں کے چکر لگا لگا کر بالاآخر اپنے معاملات اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں، یہ شاید اْن ہی سائلوں کی بددعاؤں کا نتیجہ ہے پولیس کی ساکھ اور عزت قائم ہی نہیں ہونے پا رہی، ایک بار میں نے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کو تجویز دی تھی”اگر سیاسی حکمرانوں کا پروٹوکول اتنا ہی ضروری ہے اْس کے کے لئے الگ ایک پولیس بنا دیں جس کا نام”پروٹوکول پولیس“ ہو اور اْس کا الگ ایک آئی جی ہو“۔۔ اْنہوں نے مْسکراتے ہوئے میری اس تجویز کو سراہا تو بہت تھا مگر اس پر عمل نہیں کیا، عامر ذوالفقار کو اس حوالے سے ٹھوس تجاویز تیار کر کے حکمرانوں کو پیش کرنی چاہئیں، تاکہ ایس ایچ اوز، ایس پیز، ڈی ایس پیز اور دیگر افسران اپنی ساری توجہ اپنے اپنے دفاتر میں ٹک کر بیٹھ کے عوام کے مسائل پر دے سکیں۔۔ کرائم کنٹرول کرنا ہمارے اکثر پولیس افسران کی اب ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا، اْن کی پہلی ترجیح مال اکٹھا کرنا ہے، دوسری ترجیح افسران بالا کو جائز ناجائز طریقوں سے خوش رکھنا، تیسری ترجیح سیاسی حکمرانوں و افسران بالا کی خوشامد کی انتہا کرنا، یعنی اْن کے بْوٹوں پر پالش لگا کر بْوٹوں پر بْرش نہیں پھیرنا اپنی زبان پھیرنی ہے، چوتھی ترجیح افسران بالا کو اعداد و شمار کے چکروں میں اْلجھائے رکھنا، یعنی اْنہیں اْلو بنائے رکھناہے۔۔ مختلف اضلاح میں ایسے ممی ڈیڈی برگر پیزا و چپس پسند افسران تعینات ہیں جنہیں سوائے بننے سنورنے کے کچھ نہیں آتا، لاہور کی انویسٹی گیشن پولیس میں ایسا ایس پی تعینات ہے جو اپنے دفتر میں اول تو موجود ہی نہیں ہوتا اگر ہو بھی ہر پانچ سات منٹ بعد سائیڈ رْوم میں جا کر میک اپ کر کے آتاہے، اس ٹائپ کے کْھسرے پولیس افسران کو فیلڈ سے باہر کرنا نئے آئی جی پنجاب کی ترجیحات میں اگر شامل نہیں ہوگا کچھ نہیں ہوگا۔۔ عامر ذوالفقار خان کو اللہ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا ہے، میں نے گزشتہ کالم میں بطور خاص یہ عرض کیا تھا وہ ایک بڑے دل کے مالک ہیں، اس حوالے سے میں نے ایک واقعہ بھی لکھا تھا، گزشتہ ہفتے اْن کے صاحبزادے کی شادی تھی، ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اہم لوگ موجود تھے، میں عامر ذوالفقار خان سے جپھی ڈالنے کے بعد میں پنڈال میں داخل ہوا ایک شخص بڑی عقیدت سے آگے بڑھ کر مجھ سے ملا، زبردست شلوار قمیض اور ویسکٹ اْس نے پہنی ہوئی تھی، کہنے لگا”سر آپ نے مجھے پہچانا؟“ میں نے معذرت کی عرض کیا میں نے نہیں پہنچانا، وہ کہنے لگا ”سر میں مظفر ہوں، عامر ذوالفقار صاحب جب ایس ایس پی لاہور تھے میں اْن کا گن مین تھا تب دو تین بار آپ سے ملاقات ہوئی تھی“۔۔ میں نے پوچھا ”اب آپ کیا کرتے ہیں؟ وہ بولا”سر اب میں اے ایس آئی ہوں اور اس وقت پولیس لائن میں تعینات ہوں“۔۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی ایک آئی جی ایک اے ایس آئی کو اپنی ذاتی تقریب میں کیسے مدعو کر سکتاہے؟ وہ شاید میری حیرت بھانپ گیا تھا کہنے لگا”سر مجھے سر عامر ذوالفقار صاحب نے کارڈ بھیجا تھا پھر واٹس ایپ پر میسج بھی کیا تھا آپ نے ضرور آناہے“۔۔ مجھے خوشی ہوئی میرے محبوب پولیس افسر نے اپنے بیٹے کی شادی پر جہاں بڑے بڑے اعلیٰ سرکاری بابْو مدعو کئے وہاں اپنے کچھ ماتحتوں اور بے شمار ایسے ریٹائرڈ بابے افسران کو بھی بلایا جنہیں اْن کے گھر والے بھی اب شاید نہ بْلاتے ہوں۔۔ اعلیٰ اقدار کا حامل یہ پولیس افسر لوگوں کو عزت شاید اس لئے بھی دیتاہے خود اللہ نے اْسے بہت عزت دی ہوئی ہے، میرے والد مرحوم فرماتے تھے”بیٹا دوسروں کو عزت وہی دیتا ہے جس کے اپنے پاس ہوتی ہے“۔۔
عامر ذوالفقار خان کے ساتھ مجھے اتنی محبت ہے چند برس قبل میں اپنی کسی صحیح یا غلط بات یا مؤقف پر ڈٹ جانے کی”خرابی“ سے بْری طرح جْڑا ہوا تھا تب ایک آئی جی کی غلیظ پالیسیوں پر لکھتا چلے جا رہا تھا، اْس آئی جی نے میرے بہت سے دوستوں سے مجھے ہاتھ ہولا رکھنے کی سفارش کروائی، میں اپنا کام مگر کرتا رہا، پھر اْس نے عامر ذوالفقار صاحب کو میرے پاس میرے گھر بھیجا اْنہوں نے جس محبت بھرے لب و لہجے میں مجھے ”حکم“ دیا وہ دن آج کا دن پھر کبھی اْس آئی جی کی غلاظتوں پر لکھنے کی مجھے ہمت ہی نہیں ہوئی۔۔ کہنے کا مقصد یہ ہے عامر ذوالفقار خان ہر ناممکن کو ممکن بنانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں، پھرہم اْن سے یہ اْمید کیسے نہ کریں پولیس اصلاحات کے لئے جو ناممکن ہے اْنہیں اگر کام کرنے دیا گیا ممکن بنا کے دم لیں گے۔