کامران لاشاری خوبصورتیوں کی باقاعدہ ایک شناخت ہیں ،وہ چونکہ خود بھی ایک خوبصورت انسان ہیں اسی نسبت سے قدرت نے انہیں یہ فطرت عطا فرما رکھی ہے وہ جس مقام پرہوتے ہیں اسے اپنے جیسا خوبصورت بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور بنا کے دم لیتے ہیں ، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد آج سے چند برس قبل باقاعدہ ایک جنگل تھا کامران لاشاری جب چیئرمین سی ڈی اے بنے انہوں نے اس جنگل کو ایک خوبصورت شہر بنانے کا آغاز کیا اور اسے انجام تک پہنچا کر دم لیا۔ آج اسلام آباد پاکستان کے تمام شہروں سے مختلف اور خوبصورت د کھائی دیتا ہے تو اس کا کریڈٹ کامران لاشاری کو جاتا ہے ،گو کہ بعد میں انہیں اس کی قیمت بھی چکانے پڑی ۔ کئی انکوائریوں کا سامنا کرنا پڑا ، کئی اداروں میں پیشیاں بھگتنی پڑیں ۔ انہیں پتہ تھا اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں مگر وطن عزیز کو خوبصورتیوں سے بھرنے کے لئے وہ ہر قسم کے نتائج کی پروا کئے بغیر جو کرنا چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں ۔ وہ چونکہ ایک باصلاحیت انسان ہیں ۔ کام کرنا ، محنت کرنا جانتے ہیں سو یہ بھی جانتے ہیں ایسے لوگوں کے خلاف سازشیں ہوتی رہتی ہیں حسد ہوتا رہتا ہے ، مگر کوئی شخص اگر نیک نیت ہو اس کے خلاف ہر سازش قدرت خود ناکام بنا دیتی ہے ۔ اس کے راستے میں کھڑی ہونے والی ہر دیوار قدرت خود گرا دیتی ہے ۔ وہ جب سی ڈی اے کے چیئرمین بنے اسلام آباد کے گرد و نواح میں واقع جنگلوں کو بھی انہوں اتنا خوبصورت بنا دیا وہاں بسنے والے جانور بھی انہیں دعائیں دیتے ہوں گے ۔ انسان تو دیتے ہی ہیں ، کسی زمانے میں وہ پی ایچ اے لاہور کے چیئرمین یا شاید ڈی جی تھے ۔ تب لاہور کو انہوں نے ایک “پھول گاہ” بنا دیا تھا ۔ اس سے پہلے لاھور کی اکلوتی نہر باقاعدہ ایک ” گٹر“ کی طرح دکھائی دیتی تھی انہوں نے اس نہر کے ارد گرد اس کے اندر باہر اتنی خوبصورتیاں قائم کر دیں نہر باقاعدہ ایک تفریح گاہ بن گئی ۔ لاہوریے رات کو صرف نہر کی خوبصورتی دیکھنے گھروں سے نکلتے تھے ۔ لاہور کو انہوں نے میلوں ٹھیلوں اور رونقوں کا ایک مرکز بنا دیا تھا ۔ ہارس اینڈ کیٹل شو ہوتے جن میں دنیا بھر سے لوگ آتے ، بسنت ہوتی تھی کسی ڈور سے کسی کی گردن نہیں کٹتی تھی ۔ لوگ نہر کنارے آ کر پکنک مناتے تھے ۔ ریس کورس پارک میں پھولوں کی نمائش لگتی ، میوزک شوز ہوتے ، وہ سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب بھی رہے اس حیثیت میں بھی انہوں نے پنجاب کے ثقافتی اداروں کو فعال کیا ڈراموں اور مشاعروں کی روایت کو پھر سے زندہ کیا، یہ سب کارنامے ہماری ان خوشیوں کو واپس لے آئے تھے جو آہستہ آہستہ ہم سے روٹھ رہی تھیں ۔ وہ خوشیاں اب دوبارہ ہم سے روٹھ چکی ہیں ، ویرانیاں اور اداسیاں دوبارہ ہمارا مقدر بن چکی ہیں ، تفریح کے سارے مواقع شاید ہمیشہ کے لئے دم توڑ چکے ہیں۔ کامران لاشاری ہیں مگر کامران لاشاری جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے ، وہ جس منصب پر رہے اس منصب کو انہوں نے عزت بخشی ، میرا ان کے ساتھ برسوں پرانا تعلق ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ میری اوقات سے بڑھ کر مجھے عزت دی۔ میرا ان سے تعلق اس وقت قائم ہوا جب وہ ڈپٹی کمشنر لاہور تھے ۔ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ ان کے بارے میں کسی نے بتایا وہ اولڈ راوین ہیں ۔ اس رشتے کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں اپنے کچھ کلاس فیلوز کو ساتھ لے کر ان سے ان کے دفتر چلے گیا جو گورنمنٹ کالج لاہور کے بالمقابل تھا ۔ اب بھی وہیں ہے ، ہمارے دل و دماغ میں ڈپٹی کمشنر کا بہت رعب تھا ۔ ہمارا خیال تھا ہم نے چونکہ ان سے ملنے کا وقت طے نہیں کیا شاید وہ ہم سے ملنے سے انکار کر دیں ۔ ایسے نہیں ہوا ، وہ ہم سے بہت محبت سے ملے ، پہلی ہی ملاقات میں ان کی شخصیت اور گفتگو نے ہمارے دل و دماغ پر بہت خوشگوار اثرات مرتب کئے ۔ انہوں نے ہمیں بڑی مزیدار کافی پلائی ، گورنمنٹ کالج کے ساتھ اپنی یادیں تازہ کیں ۔ کچھ نصیحتیں بھی کیں ، جو بعد میں ہمارے بہت کام آئیں بلکہ آج تک آ رہی ہیں اب وہ ریٹائرڈ ہو گئے ہیں مگر اپنے خوبصورت کاموں کے اعتبار سے میرا جی چاہتا تھا وہ کبھی ریٹائرڈ نہ ہوں ۔ میری یہ خواہش اس طرح پوری ہو گئی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ان کے مزاج کے مطابق لاہور وال سٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد اندرون شہر کی تاریخی خوبصورتی کو اپنے اصل مقام میں بحال کرنا ہے ۔ کامران لاشاری یہ کام بھی اسی دیانت سے کر رہے ہیں جو فطری طور پر ان سے جڑی ہے ۔ اندروں شہر کے اکثر اجڑے پجڑے علاقوں کو خصوصاً شہر کے تاریخی دروازوں کو اور عمارتوں کو ایسی جدید رنگ برنگی خوبصورتیوں سے انہوں نے ہم آہنگ کیا اب یہ ممکن نہیں دنیا سے کوئی سیاح لاہور آئے اور ان خوبصورتیوں کو دیکھنے کی خواہش نہ کرے ۔ لاہور کے قدیم کھیل کشتی کبڈی دھمال بھنگڑے اور اس نوعیت کی کئی رونقوں کو انہوں نے از سر نو بحال کیا ۔ان تمام کارناموں پر میں انہیں اپنا ہیرو سمجھتا ہوں۔۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں ہمارے اکثر بڑے لوگ ”بے اولاد“ مر جاتے ہیں ۔ جیسے نورجہاں اپنے جیسی نورجہاں پیدا نہ کر سکی ۔ نصرت فتح علی خان اپنے جیسا نصرت فتح علی خان پیدا نہ کر سکے ۔ صادقین اپنے جیسا صادقین پیدا نہ کر سکا ۔ اشفاق احمد اپنے جیسا اشفاق احمد پیدا نہ کر سکے ۔ منیر نیازی سے کوئی منیر نیازی پیدا نہ ہوا ۔ اس طرح کی بیسیوں مثالیں د±نیا میں ہیں بڑے لوگ بڑے لوگ پیدا نہ کر سکے ۔ کامران لاشاری اس حوالے سے بھی خوش قسمت ہیں بلال لاشاری کی صورت میں ایک ایسا بڑا نوجوان انہوں نے جنم دیا ہماری ثقافت کا مستقبل اب اس سے جڑ کے رہ گیا ہے ۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں جس طرح اس نوجوان کے والد نے ہماری ثقافتی روایات کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اب تک کر رہے ہیں اسی طرح یہ نوجوان اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان سے بھی آگے نکل جائے گا ۔ یہ ہماری امید نہیں ہماری دعا بھی ہے ۔ ابھی حال ہی میں اس نوجوان نے ایک بار پھر اپنی صلاحیتوں کا لوہا ”دی لیجنڈ مولا جٹ “ کی صورت میں منوایا ۔ اس فلم نے دم توڑتی ہوئی سینما انڈسٹری کو نئی زندگی فراہم کی ۔ اس فلم کے پہلے شو میں کامران لاشاری صاحب نے بڑی محبت سے مجھے مدعو کیا تھا مگر مجھے اچانک سنگا پور جانا پڑ گیا ۔ بعد میں ”ڑونگ “کی انتظامیہ نے اس فلم کے اپنے خصوصی شو میں مجھے بطور مہمان خصوصی مدعو کیا۔ اب یہ فلم پاکستان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد ہندوستان میں ریلیز ہونے جا رہی ہے ۔ دعا ہے وہاں بھی اسے ویسی کامیابی ملے جیسی پاکستان اور دنیا کے کئی ممالک میں ملی ۔ کامران لاشاری اور ان کے باصلاحیت بیٹے بلال لاشاری کے لئے بہت سی دعائیں ۔ اللہ کرے یہ چراغ ہمیشہ روشن رہیں شاد باد رہیں ۔